کالم

گدا گری اور انسانی اسمگلنگ

(مسرت قیوم)

اتنے زور سے شیشہ کھٹکٹایا کہ ڈر گئی ۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ سینکڑوں مواقع گواہ ہیں ۔ جب بھی قدم باہر نکالا ۔ اِس کیفیت سے ایک ہی چکر میں متعدد جگہوں پر گزرنا پڑا۔ شیشہ بجا کر متوجہ کرنے کی مشق میں مطلوبہ ’’بندی یا بندے‘‘ کو مخاطب کرنے سے مدعا بیان کرنا کم غصہ کی شدت نمایاں ہوتی تھی اور ہے۔ بڑے سکون سے سر جھکائے اپنے کام میں مگن ۔کانوں میں التجائیہ۔ رٹے رٹائے (ہمیشہ قرض مانگنے والے حکمرانوں کی طرح) فقرے پڑے شاید اُسوقت پیسے نہیں تھے یا پھر خود کو بچپن سے اپنائے عمل سے الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا میں نے نہ توجہ دی اور نہ سر اُٹھایا ۔ کچھ دیر کے بعد وہ شخص نا راضگی میں لُتھڑے یہ الفاظ بولتا ہوا سامنے سے ہٹ گیا کہ ’’دنیا ظالموں  سے بھری پڑی ہے ‘‘ ۔ چند لمحات کو خوف محسوس ہوا اور نہ دینے کی شرمندگی بھی۔ مگر پھر آنکھوں میں خود کے مشاہدہ کردہ واقعات گھوم گئے اور کانوں نے دوسروں کے بتائے افسوسناک باتوں کے پول یاد کروادئیے ۔ یہ تم کیا ہر جگہ  تماشا لگا دیتی ہو ۔ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے۔خود کے علاوہ دوسروں کو بھی خطرے میں ڈالنے والی حرکات ہیں۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ ’’پیارے بھائی ‘‘ کی اسقدر اور اچانک درشت لہجہ میں ڈانٹ ڈپٹ کی۔ پر عادت چُھوٹی نہیں ۔ بچپن کا معصوم ۔ ہمدردی والا فیز گزرا تو دنیا کے سچے حقائق جو پہلے صرف پڑھتے اور سُنتے تھے۔ تلخ اشکال میں سامنے آنا شروع ہوئے تو ہمدردی کی جگہ کچھ گریز کی روش اختیار کرنا مجبوری بن گیا۔ 
قارئین بات ہے گداگری کی۔ پیشہ ور لوگوں کی خباثتیں ۔ دھوکہ ۔ فریب ۔ نہ قانون کی پابندی ۔ نہ مانگنے والوں کی عزت کا خیال ۔ نہ اپنے وطن کے احترام کی سوچ۔ ہر جگہ ۔ ہر شہر حتیٰ کہ یہ ناسور بیرون ممالک بھی پھیلتا گیا۔ کِسی نے کیوں نہیں روکا ؟؟یہ باب الگ اور طویل بحث کا متقضی ہے۔ کچھ معذور ۔ کچھ کے چہرے زخموں سے چُور ۔ کچھ خود کو سٹرکوں پر گھسیٹتے ہوئے۔ کِسی کے اعضاء اتنے خوفناک انداز میں ڈھالے ہوئے کہ مدد کرنے کے جذبہ پر کِسی کی نصیحت کا رتی بھر اثر نہیں ہوا یہانتک کہ آج اطمینان ہوگیا۔ 
فراڈ۔ جھوٹ ۔ زبردستی سے بھیک منگوانا حقیقی طور پر غلط ہے۔ ورغلانا یا لالچ دے کر خیرات لینا بھی قطعی طور پر غلط امر ہے مقدس مقامات ہوں یا عام گزر گاہیں ۔ صدقہ ۔ خیرات لینا۔ وصول کرنا ہر دو نہایت ناپسندیدہ عمل ہیں ۔ قسمت کا حال بتانا ۔ کرتب دکھانا کہاں جائز ہو سکتے ہیں؟؟ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بڑھ کر کچھ باعثِ عزت نہیں ۔ یہ جو جگہ جگہ ہاتھوں میں ٹوکریاں اُٹھائے مرد۔ بچے۔عورتیں آپ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اتنی منتیں ۔ ترلے ۔ واسطے کہ انسان زچ ہو کر رہ جائے۔ یہ مانگنے کا انداز سب سے بڑی بدی ہے۔ گاڑیوں کی کھڑکیوں پر اس طرح دستک کہ ہاتھوں میں گویا پتھر پکڑ رکھے ہیں۔ بغیر اجازت کے شیشے صاف کرنا ایک منٹ کے لیے گاڑی کہیں کھڑی کی مزدور کے لبادے میں زور۔ زبردستی کرنے والے مظلوم شکلیں بنائے دیکھتے بھی نہیں ٹھک ٹھک گندہ پانی پھینکنا اور آلودہ وائپر ز سے صفائی شروع کر دی اِن حالات میں انسان کیا کرے؟؟ ڈر نہ لگے کہ ڈانٹ جبکہ ڈانٹنا منع ہے اور ’’رب کریم‘‘ کے فرمان کو یاد رکھیں تو کچھ نہ کچھ پرس۔ جیب سے نکالنا پڑتا ہے لازمی طور پر ۔ محنت کو شعار بنانے کی بجائے بے روزگاری۔ فاقوں ۔ مہنگی ۔بیماری کے کاغذ گلے میں لٹکائے دنیا پر ظاہر کرنا کہ سب کچھ ختم۔ تکلیف دہ بات کہ روزانہ صبح یا شام وہی چہرے۔ وہی الفاظ ۔ وہی انداز دیکھنے کو ملیں گے۔
’’منظم بھیک بل‘‘
حکومت کے ’’سینٹ‘‘ میں پیش کردہ ’’منظم بھیک بل‘‘ کی جتنی بھی تعریف کی بجائے کم ہے۔ ماضی میں کیا ہوتا رہا۔ اُس کے نقصانات آئے روز خود کشی ۔حادثات کی صورت میں دیکھنے کو ملتے رہے ۔ سب سانحات ۔ دکھ قوم بھول جائے گی اگر متذکرہ بالا ’’بل ‘‘ پر ’’100فیصد‘‘ عمل درآمد ہوگیا۔ سچ یہ ہے کہ گداگری اور انسانی اسمگلنگ بظاہر دو مختلف عوامل ہیں مگر مقصد ایک ہی ہے۔ ہزاروں نوجوان اِس وباء کے ہتھے چڑھ کر دنیا سے چلے گئے ۔ سینکڑوں جیلوں میں سالوں گلتے سڑتے رہے۔ گاؤں کے گاؤں ماتم کدے بن گئے۔ جمع پونچی لٹانے کے باوجود روزگار ملا بلکہ سانسیں بھی ختم کروا بیٹھے ۔ اسقدر منظم۔ بڑی انڈسٹری بن چکی ہے کہ کچھ لوگ شارٹ کٹ ۔ کچھ لوگ تن آسانی کے لیے بہت آرام سے شکار ہونے پر راضی ہو جاتے ہیں ۔ چاہے کتنے ہی حادثات نہ دیکھ لیں۔ دیہاتی ہوں یا شہری پیسے کمانے کے فکر میں مبتلا لوگ باز نہیں آرہے تھے اور نہ باز آنے والے ہیں یہ واحد راستہ ہے جو حکومت نے اختیار کیا ہے۔ نوبت ایسی آچکی ہے کہ بیرونی دنیا میں پاکستانیوں کے ویزے لگنے بند ہو چکے ہیں کوئی امتیاز نہیں کہ امیر ہے یا غریب ۔ گداگری نے کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ منحوس فعل گداگری کی تمام اشکال کو منظم بھیک کے زمرے میں شامل کر کے حکومت نے قابل تحسین اقدام کیا ہے۔
’’بھوک ‘‘ کسی بھی معاشرے ۔ انسانوں کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ بدقسمتی سے ’’بھوک اورننگ کی‘‘ پوری دنیا بالخصوص ’’پاکستان‘‘ میں شرح بہت بڑھ چکی ہے اور رفتار گھٹانے کی تدابیر اپنی جگہ مگر اِن کے تدارک کے لیے ٹھوس۔ باعمل اقدامات ہونا ضروری ہیں ایسے اقدامات جو بے روزگاری کو ختم کرنے میں ممدو معاون ہوں اور انسانوں کو جبری طور پر ’’گداگر‘‘ بنانے میں مفید نتائج دیں۔ صرف حکومتی اہلکار ہی اِس ناسور کا کلی طور پر خاتمہ کر سکتے ہیں ۔ اگر حکومت اس بل کے نفاذ کے بعد اس کے مفید نتائج چاہتی ہے تو پھر تمام اداروں کو ایک مشترکہ کاز کی صورت میں کام کرنا پڑے گا۔بشکریہ نوائے وقت۔

متعلقہ خبریں۔

Check Also
Close
Back to top button