کرلو جو کرنا ہے
(طارق امین)
لاہور شہر کا حلقہ این اے 124 اور مئی 2013ء کا الیکشن ہے جس میں شیخ روحیل اصغر، بشری اعتزاز اور ولید اقبال بالترتیب پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت کل 19 اْمیدوار حصہ لیتے ہیں۔ گو کہ سیاسی پنڈتوں کی طرف سے اس بات کا گمان کیا جا رہا ہوتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی جو 2008ء سے لیکر 2013ء تک کے اپنے دور اقتدار میں صحت کے اعتبار سے کمزور پالیسیوں کی بدولت شائد اتنی ضعیف ہو چکی ہے کہ وہ نون لیگ کو اس الیکشن میں اتنا ٹف ٹائم نہ دے سکے جتنا انجینرڈ عوامی مقبولیت کے زور پر شیلا جیسی جوانی پکڑتی تحریک انصاف سے توقع کی جا سکتی ہے لیکن پھر بھی عمومی توقع یہی کی جاتی ہے کہ بشری اعتزاز جو ایک بہت بڑے ہیوی ویٹ اعتزاز احسن جیسی سیاسی شخصیت کی بیگم ہیں وہ اپنے مخالف فریق شیخ روحیل اصغر کو مقابلے میں ناکوں چنے چبوائیں گی جسکی گواہی بعد ازاں پولنگ والے دن الیکشن کیمپوں میں ووٹرز کی چہل پہل سے بھی نظر آتی ہے۔
یہ تھی اْن زمینی حقائق کی ایک مختصر جھلک جو اس الیکشن میں بظاہر نظر آ رہی تھی۔ اب آتے ہیں اس داستاں کی طرف جو گیارہ مئی 2013ء کی رات الیکشن کمیشن کی دستاویز میں رقم ہوئی۔ اس سباق الیکشن کمیشن کی طرف سے سنائے گئے نتائج کے مطابق اس حلقہ سے مسلم لیگ نون کے امیدوار شیخ روحیل اصغر 119,312 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے جبکہ انکے مد مقابل بشری اعتزاز صرف 6,990 اور ولید اقبال 42,119 ووٹوں کے حقدار قرار پائے۔ بشری اعتزاز کیلئے اس قسم کی شکست شائد اتنی تکلیف دہ نہ ہوتی لیکن وکالت ہو یا سیاست ، کتابت ہو یا خطابت۔ ہر میدان میں منفرد حثیت کے مالک چودھری اعتزا احسن کیلئے یہ نتائج کسی ہزیمت سے کم نہ تھے۔ اور یہ کیسے ممکن تھا کہ لوگوں کیلئے ہر محاذ پر لڑنے والا اپنی عزت اور اپنی بیگم کیلئے اس مرحلہ پر نہ لڑتا چنانچہ ضمیر کے اس قیدی نے فیصلہ کیا کہ وہ عمران خان کی طرح صرف 35 پنکچروں والا نعرہ نہیں لگائے گا بلکہ دستاویزی ثبوتوں سے ثابت کرے گا کہ کس طرح الیکشن چرائے جاتے ہیں۔
جولائی 12, 2013ء کا دن ہوتا ہے۔ بشری اعتزاز اپنے وکیل اعتزاز احسن کے ذریعے الیکشن کمیشن کے روبرو سیکشن 44 اور 45 آف عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1976ء کے تحت اپنے حلقہ این اے 124 میں کاسٹ کیے گئے ووٹوں کے تمام 264 تھیلوں کی انسپیکشن کی درخواست دائر کرتی ہیں۔ 25.07.2013 کو الیکشن کمیشن درخواست کی منظوری دیتے ہوئے آر او کو انسپیکشن کیلئے ضروری انتظامات کرنے کی ہدایات دیتا ہے۔ اب یہاں پر آر او صاحب روائیتی چالبازیوں کا کھیل شروع کرتے ہیں اور انکا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ انکے مطابق انسپیکشن کا دائرہ اختیار صرف اس فائل تک محدود ہے جس میں الیکشن کے ریکارڈ کے چند کاغذات ہیں نہ کہ وہ 264 تھیلے جن میں ووٹوں سمیت دوسرا ریکارڈ موجود ہے۔ درخواست گزار اور آر او کے درمیان پنگ پانگ کا کھیل جو جولائی 2013ء سے شروع ہوتا ہے بالآخر 21 مارچ 2014ء کو اپنے انجام کو اس وقت پہنچتا ہے جب الیکشن کمیشن اپنے خطNo. F. 27(21)/2013-Law کے ذریعے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دو اپریل 2014ء صوبائی الیکشن کمیشنر ہر حالت میں اپنی زیر نگرانی ان 264 تھیلوں کی انسپیکشن کرائے جو بالآخر سات سے گیارہ اپریل اور 19 اپریل کو انجام پذیر ہوتی ہے۔ اس کے مطابق مندرجہ ذیل انکشافات منظر عام پر آتے ہیں کہ ان 264 تھیلوں میں سے 227 تھیلے ایسے پائے جاتے ہیں جن میں قابل تصدیق ( باقاعدہ تصدیق شدہ) مجرمانہ نقائص اور خرابیاں پائی گئیں۔ تفصیلات کیمطابق ان میں 145 تھیلے ایسے پائے گئے جو مقرر کردہ مخصوص مہروں کے بغیر تھے یا انکی مہریں توڑی گئی ہوئی تھیں۔ باقی 119 تھیلے ایسے تھے جن میں ووٹوں اور فارم ( XVI) موجودہ فارم 45 کی بجائے ردی بھری ہوئی تھی۔
یہ ہیں وہ حقائق جو اعتزاز احسن کے لکھے ایک پیپر Robbing An Electionمیں موجود ہیں اور جنکی صحت بارے اس پیپر کے مصنف اعتزاز احسن کا دعویٰ ہے کہ انکے پاس ان تمام دستاویزات کی تصدیق شدہ نقول موجود ہیں جن پر اس انسپکشن میں موجود تمام ارکان کے دستخط موجود ہیں لہذا اس سباق راقم اور اسکا ادارہ خود کو کسی بھی ایسی ذمہ داری سے بری الذمہ محسوس کرتا ہے جو اس کالم میں ان حقائق کی اشاعت پر اسکا سبب بن سکتی ہے۔ اس وائٹ پیپر کے دسویں باب میں اسکا مصنف ان 107 پولنگ اسٹیشنز کے نمبرز بھی دیتا ہے جہاں کے تھیلوں کی مہریں یا تو ٹوٹی ہوئی تھیں یا وہ تھیلے باقاعدہ مہروں کے بغیر تھے۔ اسکے علاوہ اس وائٹ پیپر میں مصنف نے اپنی تصنیف کے مختلف ابواب میں ایسے دلچسپ حقائق بمعہ تصدیق شدہ نقول پیش کیئے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ آج کل کے اس دور میں کیا ایسا بھی ممکن ہو سکتا ہے جسکی تصدیق الیکشن کمیشن پنجاب اپنی رپورٹ میں اس ابزرویشن کے ساتھ کرتا ہے کہ دوران انسپکشن یہ دیکھا گیا کہ ۱۔ 127 تھیلوں کی مہریں ٹوٹی ہوئی ہیں جبکہ 31 تھیلوں کی مہریں سرے سے ہیں ہی نہیں۔۲۔ 112 میں سے 49 تھیلے ایسے ملے جن میں فارم XVI ضائع کئے گئے اور ۳۔ 55 تھیلے ایسے ملے جنکے فارم XV ضائع تھے۔ جبکہ 47 تھیلوں میں انگوٹھوں کے نشانات کے ریکارڈ کو ضائع کرنے کے شواہد موجود ہیں اور 5۔ 27 تھیلے ایسے ہیں جن میں کاونٹر فائلز کو ضائع کیا گیا۔ ان تمام شائع شدہ حقائق پر راقم نے بیرسٹر اعتزاز احسن سے اپنی ملاقات کے اختتام پر ایک سوال کیا کہ ان تمام تصدیق شدہ دستاویزات کے حصول کے بعد آپ نے اس سسٹم سے، جسکا آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے، کیا حاصل کیا تو انکے جواب سے جو بات یہ خاکسار سمجھ سکا اسکا لب لباب یہ تھا کہ سسٹم کہتا ہے ‘‘ کر لو جو کرنا جے۔ ساڈی گل اوتھے ای جے’’ انکے بقول الیکشن ٹریبونل کے جج نے 24 اپریل 2014ء کو اپنے فیصلے میں ان سرٹیفکیٹس کوmere receipts through logic that is factitious and spuriousڈکلیر کر کے صرف ایک لائن میں ہماری اس ساری ایکسائز کو بیوہ کی میلی چادر کی مانند بنا کر رکھ دیا جسکے آنچل سے چھٹکارا پانے میں شائد صدیاں لگیں۔