مذاکرات ٹھُس، عمران، بشریٰ کرپٹ قرار پا گئے
(مصطفی کمال پاشا)
پی ٹی آئی نے تحریری مطالبات پیش کر دیئے ہیں، 9مئی اور 26 نومبر کے حادثات کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کریں اور عمران خان کو رہا کیا جائے، انکوائری کمیشن کے مطالبے پر یہ کہا گیا ہے کہ9مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر دو الگ الگ کمیشن تشکیل دیئے جائیں۔
مطالبات اور ملاقات کے بعد رانا ثناء اللہ اور عرفان صدیقی نے پریس کانفرنس کی جبکہ دوسری طرف صاحبزادہ حامد رضا نے مذاکرات کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ دونوں فریقین کی گفتگو سے کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔الزام تراشیاں ہوئیں، دونوں نے ایک دوسرے کو مذاکرات سے بھاگنے کا طعنہ دیا، پی ٹی آئی کی غیر سنجیدگی کھل کر سامنے آ گئی ہے ان کے مطالبات اور ان پر حکومت کا تبصرہ واضح کر رہا ہے کہ مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آ رہی۔ دونوں فریق ہی اپنی اپنی سیاست کے اسیر نظر آ رہے ہیں، پی ٹی آئی اپنی گیم کر رہی ہے،پی ٹی آئی میں بہت سے گروہ اپنی اپنی گیم بنانے میں مصروف ہیں ویسے تو پارٹی عمران خان کی ہے عمران خان ہی پارٹی ہیں لیکن عمران خان جیل میں ہیں اور ان پر مختلف قسم کی پابندیاں ہیں وہ کھل کھلا کر پارٹی کی رہنمائی نہیں کر پا رہے، انہوں نے بیرسٹر گوہر کو پارٹی سربراہ نامزد کر دیا ہے، لیکن نہ تو وہ پارٹی سربراہی کر پا رہے ہیں اور نہ ہی انہیں کھل کر پارٹی چلانے کی اجازت دی جا رہی ہے وہ عمران خان کی پراکسی بلکہ پیامبر کے طور پر کام کر رہے ہیں،پارٹی پر ان کی گرفت نہیں ہے گو ان کا تعلق وکلاء برادری سے ہے،لیکن یہاں تو پارٹی کے وکلاء بھی تقسیم نظر آ رہے ہیں۔ انصاف لائرز فورم ہی دو گروپوں میں بٹ چکا ہے۔عمران خان کی زوجہ بشریٰ بی بی بھی عمران خان کی حقیقی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں،26نومبر کے دھاوے کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے عمران خان کی ہدایت کے برعکس،اسلام آباد ڈی چوک کی طرف پیش قدمی جاری رکھی اور بالآخر انہیں وہاں سے بھاگنا پڑا۔وہ26نومبر کے دھاوے سے قبل پشاور میں پارٹی لیڈر کے طور پر ایکٹ کرتی رہیں۔ایم پی ایز اور ایم این ایز کو فرداً فرداً ہدایات جاری کرتی رہیں انہیں بندے لانے کے لئے دھمکاتی رہیں،انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ عمران خان کی حقیقی پراکسی ہی نہیں ہیں بلکہ وہی اصل رہنماء ہیں۔ایسے میں گوہر صاحب اور سلمان اکرم راجہ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ بشریٰ بی بی بھی عمران خان کو چلاتی رہی ہیں، 44 ماہی دورِ حکمرانی میں بھی بشریٰ بی بی درپردہ معاملات پر غالب تھیں، پی ٹی آئی کے مطالبات حکومت کے لئے کسی طور پر قابل ِ قبول نظر نہیں آ رہے۔صاحبزادہ حامد رضا نے بڑے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کمیشن کی تشکیل کے اصولی اعلان پر فیصلے کے بغیر بات چیت کا اگلا مرحلہ نہیں ہو گا گویا مذاکرات کا ڈرامہ ختم ہی سمجھنا چاہئے۔
دوسری طرف190ملین پاؤنڈ کرپشن کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے عمران خان کو14سال قید اور10لاکھ روپے جرمانہ،جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں چھ ماہ قید بھگتنا ہو گی۔ بشریٰ بی بی کو سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ،جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی کے باعث تین ماہ مزید قید بھگتنا ہو گی۔القادر یونیورسٹی کی زمین بھی ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔عمران خان کو کرپٹ پریکٹسز میں ملوث ہونے کی سزا دی گئی ہے جبکہ بشریٰ بی بی کو ان کاموں میں معاونت کرنے کی سزا دی گئی ہے یہ کیس اوپن اینڈ شٹ کے زمرے میں آتا ہے،190ملین پاؤنڈ کیس ایسا کھلا کیس تھا اس میں ملوث افراد کو سزا ہونا لازمی تھی اور عملاً ایسا ہی ہوا۔
ذرا غور کریں ایک القادر ٹرسٹ ہے جس کے دو ٹرسٹیز ہیں عمران خان اور بشریٰ بی بی۔اس ٹرسٹ میں آج تک کسی نے کوئی ڈونیشن نہیں دی، صرف ملک ریاض نے اراضی ڈونیٹ کی کہ اس پر ایک یونیوسٹی بنائی جا سکے یہ بالواسطہ ادائیگی تھی،190ملین پاؤنڈ کو ملک ریاض کے جرمانے کی ایڈجسٹمنٹ کرنے کے بدلے میں کی گئی۔ 190ملین پاؤنڈ کرپشن کا مال تھا جو برطانوی عدالت میں ثابت ہوا۔برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کی اس رقم کو کرپشن کی دولت ثابت کیا اسے ضبط کیا اور پھر یہ حکومتِ پاکستان کے حوالے کیا گیا کہ رقم پاکستانی عوام کی ہے اور انہیں لوٹائی جا رہی ہے۔عمران خان حکومت نے شہزاد اکبر کے ساتھ مل کر کابینہ کو مکمل اندھیرے میں رکھ کر جھوٹ بول کر یہ رقم ملک ریاض کے جرمانہ اکاؤنٹ میں ایڈجسٹ کر دی،جو رقم پاکستان کے خزانے میں جمع ہونا چاہئے تھی وہ ملک ریاض کے جرمانے کی مد میں جمع کرا دی گئی۔پھر اس مہربانی کے جواب میں ملک ریاض نے کرپٹ جوڑے کے ٹرسٹ کو 458 کنال زمین عطیہ کر دی۔ دونوں فریقین بھی کرپشن میں ملوث رہے ہیں۔ بشریٰ بی بی ہیرے کی انگوٹھیاں بھی ملک ریاض سے وصول کرتی رہی ہیں،زیورات بھی وصول کئے گئے ہیں عمران خان نے سعودی حکومت کا تحفہ گھڑی پیک جس طرح بیچا،بلکہ جس طرح توشہ خانے سے نکلوایا،وہ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی، جو پاکستان کی قومی سیاست میں کرپٹ ترین جوڑے کے طور پر معروف ہو چکے ہیں کذب اور جھوٹ کی سیاست میں ید ِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی اس حوالے سے حکمت عملی بڑی شاندار رہی ہے وہ کسی بھی معاملے میں، کچھ اس طرح بیان بازی کرتے،جھوٹ اس طرح پھیلاتے ہیں کہ سچ کہیں چھپ جاتا ہے، گم ہو جاتا ہے۔دوسری طرف مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی وغیرہ تمام تر مالی وسائل رکھنے کے باوجود اس جھوٹ و کذاب کا پردہ چاک کرنے میں ناکام رہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ سچ کو بھی نمایاں کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔دونوں ایک دوسرے کے ساتھی تو ہیں لیکن ان کا یہ اتحاد مفادات پر مبنی ہے، جب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کا میثاق جمہوریت ہوا تھا تو اس کے خدوخال واضح تھے،ٹارگٹس کلیئر تھے اور دونوں بڑے اخلاص کے ساتھ ان پر عمل پیرا بھی ہوئے اس سے جاری سیاسی نظام میں نہ صرف بہتری پیدا ہوئی،بلکہ بہتری نظر بھی آئی۔ جمہوری نظام میں بہتری نظر آنے لگی۔طالع آزما قوتوں کے پروردہ سیاسی رہنماؤں کی اُمیدوں پر اُوس پڑنے لگی۔ پھر بے نظیر بھٹو کو جبراً منظر سے ہٹا دیا گیا،ان کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت زرداری صاحب کے حوالے ہو گئی۔انہوں نے سیاست میں جو کچھ کیا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔پیپلزپارٹی سمٹ کر سندھ میں مرتکز ہو چکی ہے، زرداری صاحب سب پر بھاری ضروری ہیں، لیکن ان کا بھاری پن ان کی پارٹی کو بھی لے بیٹھا ہے۔پی ٹی آئی بطور پارٹی شاید تتر بتر ہو چکی ہے لیکن اس کی پروپیگنڈہ مشینری فعال و متحرک ہے۔ عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود قومی،سیاست میں ایک فعال عنصر کے طور پر موجود ہیں۔ان کی پارٹی کبھی ٹرمپ کارڈ کھیلتی ہے، کبھی سول نافرمانی کارڈ کھیلتی ہے،کبھی آری بال اور آخری کال دیتی ہے کبھی بشریٰ بی بی لانچ کی جاتی ہے سب کچھ ناکام ہونے کے باوجود عمران خان ملک کے لئے ایک تھریٹ کے طور پر کھڑا ہے،اس کی زبان ملک کے خلاف شعلے اُگلتی رہتی ہے۔