کالم

اور فیصلہ ہو گیا؟

(چودھری خادم حسین)

احتساب عدالت نے بالآخر 190ملین پاؤنڈ ریفرنس کا فیصلہ سنا دیا اور سابق وزیراعظم عمران خان کو کرپٹ پریکٹسز (بددیانتی) کا مجرم قرار دے کر 14سال قیدبامشقت کی سزا اور دس لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی۔ یہ سزا معاونت میں ہے۔یوں تین بار ملتوی ہونے والا فیصلہ گزشتہ روز ہوا، اس وقت عمران اور بشریٰ بی بی کے علاوہ ان کے وکلاء اور پارٹی رہنما بھی موجود تھے، یوں یہ باب اس حد تک توبند ہوا، اب دونوں میاں بیوی کے لئے اپیلوں کی راہ کھلی ہے جو اسلام آباد ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ تک بھی ہیں۔

اس تاریخ ساز احتساب ریفرنس کے فیصلے پر موافقانہ اور مخالفانہ ردعمل بھی شروع ہو گئے ہیں، میرے خیال میں اپنی طرف سے فوری تجزیہ مناسب نہیں ہوگا تاوقتیکہ تفصیلی فیصلہ سامنے نہ آئے اور اس پر غور نہ کیا جائے۔ البتہ اس فیصلے کے حوالے سے حال ہی میں ہوئے بعض واقعات کے حوالے سے تو بات کی جا سکتی ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان ہیں، جو حال ہی میں پشاور میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کے ساتھ وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور کے ساتھ ملے، پہلے انکار کیا اور پھر جب اقرار کیا تو بہت کچھ کہتے چلے گئے حتیٰ کہ انہوں نے یہ تک بتایا کہ سپہ سالار کو انہوں نے جماعت کے تمام مسائل اور مطالبات سے آگاہ کیا اور ان کا رویہ مثبت تھا، انشاء اللہ سب ٹھیک ہوگا، البتہ علی امین گنڈا پور خاموش تھے، شاید اب بول پڑے ہوں تاہم ابھی تک بریکنگ نیوز تو نہیں، یہ ملاقات بنیادی طور پر جنرل عاصم منیر نے دہشت گردی، کرم اور امن و امان کے حوالے سے کی اور ایک ملاقات میں تو سبھی سیاسی رہنما موجود تھے۔ حالات کے حوالے سے بریفنگ اور پھر تبادلہ خیال ہوا، جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مکمل عزم کا اظہار کیا گیا اور سیاسی رہنماؤں نے تعاون کا بھی یقین دلایا، اس وقت تک کوئی سیاسی سرگرمی یا بیان نہیں تھا، جب تک کے پی کے کے گورنر نے بیرسٹر گوہر خان اور علی امین کی ملاقات کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے بعد ہی گوہر خان بولے تو پھر بولتے ہی چلے گئے اور ایسا تاثر دیاکہ انہوں نے شکائت لگا دی او ر سننے والے نے دور کرنے کا بھی عندیہ دیا، اب مسلح افواج کے سربراہ کے لئے بھی مشکل کھڑی ہو گئی کہ وہ سیاستدان حضرات سے خود ملے تھے اور ان کی غرض بھی امن و امان اور دہشٹ گردی تھی، کرم کے حوالے سے اگر بات ہوئی ہے تو اس کی شدت کا اندازہ لگالیں کہ معاہدہ پر دستخط ہو جانے کے بعد بھی راستہ کلی طور پر محفوظ ہی نہیں۔ ابھی گزشتہ روز ہی خوراک (امدادی سامان) کے ایک قافلے پر شرپسندوں نے حملہ کیا اور فائرنگ کے علاوہ راکٹ تک استعمال کیا جس کے باعث سیکیورٹی اہل کار اور ڈرائیور شہید ہوئے تو حفاظتی دستے کی طرف سے جواب کے باعث چھ شرپسند بھی واصل جہنم ہو گئے، چنانچہ محترم گوہر خان کی ایسی امید افزا گفتگو سے تو یہی تاثر ملا، اچھا قانون دان ضروری نہیں کہ اچھا سیاسی مفکر بھی ہو،اس کا اندازہ اس امر سے لگا لیں کہ فیصلہ سننے جاتے وقت بیرسٹر گوہر نے فرمایا ”انصاف ہوا تو بانی بری ہو جائیں گے“ فیصلہ کے بعد بات کرنا تو الگ مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں ایوب گوہر کسی سے کم نہیں ہیں لیکن ایک ماہر قانون اور وہ بھی پریکٹسنگ بیرسٹر سے ایسے الفاظ کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ فیصلہ حق ہی میں ہوا تو انصاف ہو گا ورنہ بے انصافی اور فیصلہ غلط ہوگا، بہرحال یہ ان کا عمل ہے، اب تو اپیلوں کی تیاری کریں یا پھر 8فروری کا انتظار، جہاں تک فوری ردعمل کا تعلق ہے تو وہ بیانات تک ہی محدود ہے کہ جن میں خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی شامل ہین، عملی کام اب صرف اور صرف قانون کا ہے کہ اپیلیں تیار اور دائر کی جائیں کہ کوئی ریلیف بھی مل سکے۔

اس سلسلے میں میری دلچسپی تفصیلی فیصلے میں یوں ہے کہ پتہ چل سکے کہ 190ملین پاؤنڈ کا اصل مسئلہ کیا ہے کیونکہ اس کا بنیادی عامل جو ٹائیکون ہے، اس کا تو نام لیتے ہوئے بھی سب کو حیا آتی ہے، حتیٰ کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران ہم میڈیا والے بھی چق ہٹا کر نہیں دیکھ پائے اور نام نہیں لکھتے رہے حالانکہ بنیادی کردار تو اسی ٹائیکون کا ہے جس کے خلاف منی لانڈرنگ کا الزام لگا تو اتنی بڑی رقم واپس ہوئی اس بارے میں تجسس تفصیلی فیصلہ ہی سے دور ہوگا۔جہاں تک فیصلے کے فوری ردعمل کا تعلق ہے تو فریقین کی طرف سے اپنے اپنے بیانات دیئے جا رہے ہیں تاہم اب تو اس پر بھی بات ہونا چاہیے کہ فیصل واؤڈا اور شیرافضل مروت کیا کہتے رہے اور ان کے کہے گئے الفاظ کی کتنی حرمت ہوئی۔ فیصل واؤڈاتو عرصہ سے یہ الزام لگاتے چلے آ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے حالیہ رہنما بانی کو موت کے پھندے تک لے جانا چاہتے ہیں، جبکہ سابق وزیراطلاعات فواد حسین چودھری کی گفتگو کا انداز سیاسی لیکن الزام ایسا ہی ہے، ان کے مطابق تو تحریک انصاف کی موجودہ قیادت اہل نہیں اور سیاست سے نابلد ہے اور یہ لوگ بانی کو چھڑا نہیں سکیں گے، ہر دو افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بانی کو خبردار کرتے رہے ہیں۔ شیرافضل مروت نے تو ملاقات اور وکلاء کی فیسوں کی تفصیل بھی مانگی ہوئی ہے جو کروڑوں سے اربوں تک ہے۔اب کیا ہو گا،اس بارے میں بھی قیاس آرائیاں ہی ہو رہی اور ہوتی رہیں،خود عمران خان اور ان کی موجودہ لیڈرشپ نے بار بار مظاہروں کا اعلان کرکے 9مئی اور 26-24جون کرالیا اور اب عمران خان کے چاہنے والوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ احتجاج کرکے بانی کو چھڑالیں۔ اس کے لئے ذرا ماضی پر نظر ڈالیں تو ان حضرات نے بہترین تراش خراش کے سوٹ پہن کر ٹی وی پر جلوے دکھائے لیکن عملی طور پر جیل یا حوالات کا منہ نہیں دیکھا، ہمارے عمر ایوب صاحب زیادہ گلا پھاڑ کر بولتے اور بولتے چلے جاتے ہیں کہ بعض مرتبہ انصافیے بھی ان کے بارے میں ”کچھ“ عرض کر دیتے ہیں، ویسے بھی ان کی صفوں میں ”پتہ نہ ہلیا“ والے لیڈر ہیں جو مائیک اور عدالت کے سامنے تو بولتے ہیں، کسی مظاہرے میں نظر نہیں آتے، ان حضرات نے عمران خان کے چاہنے والوں کو مایوس کیا ہے، ان کا ووٹ بینک موجود ہے، مظاہرے شاید ویسے نہ ہو سکیں کہ جیلوں میں بھی بہت سے نوجوان ہیں اور سنگین الزامات کا سامنا بھی کررہے ہیں، ویسے ان رہنماؤں کی یہ بات اچھی ہے کہ 190ملین پاؤنڈ ریفرنس کا فیصلہ کچھ بھی ہو مذاکرات جاری رہیں گے، یہ درست فیصلہ ہے کہ بات چیت سے حل نکلنا ممکن ہے۔ فیصلے کی ایک بات دلچسپ لگی،وہ ہمارے مولوی حضرات کو بھی پسند آئے گی کہ ان کے نزدیک عورت کی شہادت آدھی ہے اور یہاں سزا آدھی ہے۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button