سکول کے بچے، بابو اور بےبسی !!
(اسلم شاہد)
کل ہوا یوں کہ یہ نام نہاد بابو منہ اندھیرے لاہور شہر سے نکلا اور دیپال پور- ضلع اوکاڑہ کے ایک دور دراز گاؤں میں واقع اس چھوٹے سے سرکاری سکول میں جا وارد ہوا- سرپرائز وزٹ تھا، سکول کا ایک ایک کونہ چھانا- رجسٹرز چیک کیے- صفائی ستھرائی کی حالت دیکھی- باتھ روم کا معائنہ کیا- بچوں کےلئے (عدم) موجود دیگر سہولتوں کا ناقدانہ جائزہ لیا- عملے کو خوب ڈانٹ پلائی- اور پھر اِن ‘ضروری کاموں’ سے فرصت پا کر بچوں کی طرف متوجہ ہوا-
غریب سی اس بستی کے سرکاری پرائمری سکول میں بچوں کا جیسا حال اور حالت تصور کی جا سکتی ہے، ویسی ہی تھی- بچے پہلے تو ‘پینٹ شلٹ’ والے اس اجنبی شہری بابو کی طوفانی آمد سے سراسیمہ دکھائی دے رہے تھے مگر جب اُن سے ہلکی پھلکی باتیں شروع ہوئیں تو آہستہ آہستہ ماحول کا تناؤ کم ہوتا گیا اور پھر جلد ہی ہماری باتیں گپ شپ میں ڈھل گئیں—- بیشتر جماعتوں کے طلبہ بنچوں سے محروم تھے اور شدید سردی میں بھی سکول کے صحن میں چٹائیوں پر بیٹھے تھے– اجنبی بابو نے بھی بوٹ اتارے اور جماعت دوم کے بچوں کے ساتھ وہیں جا بیٹھا—– پھر یک لخت کچھ یوں لگا جیسے وقت کا پہیہ ایک دم الٹا گھومنے لگا ہو- کئی دہائیاں پیچھے کے مناظر چشمِ تصور کے پردے پر چل پڑے تھے—- اب یہ تحصیل دیپال پور کا پرائمری سکول نہیں تھا بلکہ تحصیل میانوالی کے ایک دور افتادہ و درماندہ گاؤں کا چھوٹا سا سکول بن چکا تھا جہاں مفلس و خستہ حال مکینوں کے نیم بھوکے بچے، سخت سردی میں سکول کے کچے صحن میں اسی طرح بیٹھے تھے، اسی طرح بیٹھا کرتے تھے—- بظاہر چپ، خالی الذہن، گم سم مگر اُن کی آنکھوں میں اتنے سوال تھے، اتنے سوال تھے کہ بس خدا کی ذات ہی ان کا جواب دینے پر قادر تھی——
اچانک کچھ آہٹ ہوئی- بابو کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر قریب آ کر مؤدبانہ لہجے میں کچھ پوچھ رہا تھا- صاحب نے نجانے اسے کیا جواب دیا اور پھر سے اِن ہی بچوں میں— اپنے جیسے بچوں میں—- گھل مل گیا- ذرا سی دیر اور گزری تھی کہ دوستانہ بات چیت کے نتیجے میں وہ اجنبی بابو اب اتنا بھی اجنبی نہیں رہا تھا- اس نے بچوں سے ڈھیروں باتیں کیں- سنجیدہ، مزاحیہ، نیم مزاحیہ- اس نے ان سے سبق سنا، سوال کیے اور ان کے سوالوں کے جواب دیئے—- مگر ٹھہریے، جواب خاک دیئے- اس لیے کہ بچوں کی زبان پر اترنے والے ہر سوال کا جواب تو صاحب کو ازبر تھا لیکن ان کے فلاکت زدہ، مایوس چہروں اور رونق و رعنائی سے محروم آنکھوں سے جھانکنے والے شعلہ بار اَن کہے سوالوں میں سے کسی ایک کا جواب بابو کے پاس نہ تھا—–
وہ چپکے سے اٹھا اور چوتھی جماعت کے بچوں کے پاس پرانے، لرزتے ہوئے بنچ پر جا بیٹھا- کچھ دیر اُن سے بھی دل کی باتیں کیں تو بچوں کے چہرے اور انداز میں اجنبیت کی جگہ اعتماد کی کرن روشن ہوتی دکھائی دینے لگی- خاص طور پر اُس وقت تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑےجب انہیں معلوم ہوا کہ وہ خوش نصیب ہیں جو چوتھی جماعت ہی میں ڈیسک بنچ پر آ بیٹھے ہیں ورنہ تحصیل میانوالی کے اُس سرکاری سکول کے بچوں کے مقدر میں تو یہ عیاشی اگلی کئی جماعتوں تک نہیں لکھی تھی—–
دو گھنٹے پہلے خودساختہ رعب و دبدبے کے ساتھ آ گھسنے والا وہ بابو اب ذرا بھی اجنبی نہیں رہا تھا- وہ اس غریب بستی کے ان بچوں کو اپنا اپنا سا لگ رہاتھا۔ بالکل اُن کے ساتھ کا، اُنہی جیسا—— وہ اس سے اردو نما پنجابی میں کھل کے بات کر رہے تھے اور یوں لگ رہا تھا جیسے عام، سادہ، غریب و بے ریا ایک جیسے انسانوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا ہو ——- سارےفرق مٹا کر، سارے فاصلے سمیٹ کر !!
سرکاری بابو نجانے اور کتنی دیر تک وہیں رکا رہتا، اپنے اِن ہمدم اور ہم نفس ساتھیوں میں بیٹھا رہتا کہ اچانک اہلکار نے آکر معائنے کی ساری کارروائی مکمل ہونے کی اطلاع دی تو صاحب کو بھی با دلِ نخواستہ اپنے دوستوں سے الگ ہونا پڑا—— اُس نے ابھی تو بچوں سے اور بہت سی باتیں کرنی تھیں، ان کے دل پھرولنے تھے، اپنی داستان سنانی تھی—- ابھی تو اس نے پھٹے پرانے کپڑوں میں لپٹے اپنے اِن میلے کچیلے دوستوں سے کہنا تھا کہ صاحب کے پینٹ کوٹ پر مت جائیو، اس اجلے لباس کے اندر اُن کے جیسی ہی ایک سادہ و غریب و کہنہ روح موجود ہے—– اور ہاں! صاحب کی نئے ماڈل کی چمچماتی سرکاری گاڑی سے مرعوب ہونے سے پہلے یہ بھی سن لینا کہ بابو جی کو بچپن میں اپنی پہلی سائیکل خریدنے کےلئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے تھے—– اور بہت کچھ کہنا تھا، بہت کچھ سننا تھا مگر صاحب کیا کرتا کہ وقت کم تھا اور انسپکشن کے ضابطے (SOPs) کڑے، جن کے مطابق فیلڈ میں نکلو تو چال میں جلال ہو، گردن اکڑی ہو، گفتگو میں بجلی کڑکتی ہو، لہجہ زہر خند اور بات مختصر، دوٹوک اور قطعی——
بےبس بابو اپنے دوستوں سے الوداعی بات بھی نہ کر سکا- انہیں یہ پیغام بھی نہ دے سکا کہ اے میرے بچو! اے مٹی میں رُلتے لعلو!! ہار مت ماننا– لگے رہنا، محنت کرتے رہنا، مشقت کی چکی پیستے رہنا—- خواب دیکھتے رہنا—- سنتے ہو نا، کبھی اپنے خوابوں سے دستبردار نہ ہونا—– جُتے رہنا میرے بچو اور اپنے رب سے دعا مانگتے رہنا کہ تمہاری آرزوئیں پوری ہوں، تمہاری امیدیں بر آئیں—- تمہارے دن پھریں — تمہاری زندگی میں بھی راحت آئے—- دعا کرنا میرے بچو کہ تمہارے خواب اپنی حقیقی تعبیر پائیں—- کبھی کوئی لٹیرا، کوئی قزاق کسی بھی روپ میں آکر تمہارے خوابوں کی تعبیر تم سے چھین نہ لے جائے—– مَیں جانتا ہوں تمہارا دامن وسائل سے بالکل خالی ہے، تمہارے پاس پُرکھوں کی امانت سوائے دکھ اور محرومی کے کچھ نہیں اور تمہارا مقابلہ عملی زندگی میں بیکن ہاؤس، ایل جی ایس، ایچی سن، امیریکن سکول اور شوئفات سے پڑھی ہوئی موڈرن، پُراعتماد اور خوبصورت جنریشن سے ہے مگر پھر بھی حوصلہ مت ہارنا میرے بچو کہ اس کارزارِ حیات میں ہمارا واحد ہتھیار، ہماری تیغ و تبر و سپر بس یہی ہمت اور حوصلہ ہی ہے——!!
اور ہاں! آخری بات، میرے بچو! مَیں نے تمہارے اداس چہروں، بے رونق آنکھوں، تمہارے پھٹے کپڑوں اور اُدھڑے بستوں سے دہائی دیتے سارے سوال سن لیے ہیں—- غربت اور دکھ اور محرومی اور نا انصافی اور معاشرتی اونچ نیچ پر سوال اٹھاتے سارے سوال سن لیے ہیں—– مگر یار تم سے رخصت ہوکر شہر کو لَوٹتے سمے مجھے بس یہ اعتراف کرنا ہے کہ تمہارے اِن سارے چیختے چنگھاڑتے سوالوں کا جواب شاید سرکار اور سسٹم اور سوسائٹی کے پاس تو ضرور ہوگا مگر تمہارے اِس نالائق بابو جی کے پاس بالکل نہیں ہے!!