چار وزرائے اعظم ! کہانی مختلف، انجام یکساں
(حفیظ اللہ نیازی)
وفاقی وزیر عطا اللہ تارڑ نے کذب کا تسلسل برقرار رکھا، میرے حوالے سے آج پریشر میں صریحاً غلط بیانی کی۔ اس سے پہلے میرے بیٹے کے حوالے سے دروغ گوئی سے کام لیا۔ بدقسمتی سے یہ اب اِ س عادت کو اسیر بن چکا ہے۔
نواز شریف کیخلاف اسٹیبلشمنٹ کے مفادات اور جھوٹ کو پروان چڑھانے میں عمران خان کا ہراول دستہ بنا، تب سے اپنی سیاست خود فریبی پر استوار کر چکا ہے۔ مکافات عمل! ایک ایک مد میں عمران خان اپنے کئے کا بھر رہا ہے۔ 27 اکتوبر 2022ء کو جنرل ندیم انجم سابق dg-isi نے پریس کانفرنس کی تو دو فقروں میں اگلی دو دہائیوں کا نقشہ کھینچا۔ ’’جنوری 2021 میں عسکری قیادت نے غیر سیاسی (apolitical) ہونے کا فیصلہ کیا اور بتایا کہ یہ فیصلہ اگلے 18 سال تک نافذ العمل رہے گا‘‘۔ سلیس زبان میں، عسکری قیادت نے جنوری 2021ءمیں عمران سے جان چھڑوانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کا رہنما اصول ایک ہی! ’’حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ ایک ادارتی فیصلہ رہتا ہے‘‘۔ جنرل راحیل شریف دور میں 2014ءسے ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے نام پر نواز شریف سیاست کی بیخ کنی شروع کی تو تب بھی یہی موقف تھا، عسکری قیادت تبدیل ہوجائے گی مگر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگرچہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم نواز شریف اپنے دست مبارک سے کریں گے۔ نئے چیف نے معاملہ وہیں سے شروع کرنا اور آگے بڑھانا ہے جہاں جنرل راحیل چھوڑ کر جائیں گے۔ دسمبر 2021ء سے مسلم لیگ ن قیادت سے دو بار یہی گوش گزار کیا کہ جنرل فیض نئے چیف بنیں، جنرل عاصم منیر، جنرل ساحر شمشاد یا جنرل اظہر وغیرہ جو کوئی بھی، عمران خان کے متعلق فیصلہ اداراتی ہے، آپ کو فقط استعمال کیا جائیگا۔
ماضی میں وزیر اعظموں کی اکھاڑ پچھاڑ کے بے شمار ماڈل، تین ماڈل قابل توجہ ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے سازشی جنگ کرنیوالے بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمان کو 4سال اقتدار ضرور ملا، 15اگست 1975 کو مع اہل و عیال بھیانک انجام کو پہنچا کر ہی دم لیا۔ عوامی لیگ 20سال بعد اقتدار میں آئی تو بھی پنجے نہ گاڑ سکی۔ بالآخر آج قصہ پارینہ بن چکی ہے کہ مجیب سوچ دوبارہ سر اُٹھا رہی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کے بعد بینظیر کی قیادت میں لولی لنگڑی پارٹی کو 12سال بعد 1988ءمیں اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے بعد مخلوط و مشروط اقتدار ملا۔ آج پیپلز پارٹی تیسری دفعہ اقتدار میں ہے مگر اپنی شناخت اور بھٹو صاحب کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ فلسفہ سے یکسر محروم ہے۔1999 ء میں نواز شریف صاحب کو ہتک آمیز طریقے سے عسکری قیادت نے بنفس نفیس گرفتار کیا۔ پھر دربدر رکھا، واپسی ہوئی تو 14سال بعد اقتدار ملا ضرور، 9ماہ بعد اپریل 2014ءسے ’’ریاست بچانے‘‘ کے نام پر اسٹیبلشمنٹ نے بذریعہ عمران خان اقتدار پر شب خون مار دیا۔ گریڈ 19کے اپنے ماتحت افسروں کے سامنے خاندان سمیت ملزم بن کر پیش ہونا پڑا کہ مقتدرہ کا اٹل فیصلہ تھا۔ 6 جولائی کو 10 سال اور پھر 7سال قید ملی۔ آج اقتدار میں ہیں مگر اتحادی حکومت مقبول سیاست سے تہی دامن ہیں۔ وطنی تاریخ میں سول ملٹری کامیابی کا ماڈل ایک ہی، وزیر اعظم شوکت عزیز یا نگران حکومتیں۔
پچھلے تین وزرائے اعظم کے انجام سے عمران خان کا انجام کیونکر مختلف ہو گا؟ شیخ مجیب کیخلاف اگرتلہ سازش کیس (غداری) کے مقدمات، بھٹو صاحب محمد احمد خان قصوری قتل میں ملزم، اصل جرم اسٹیبلشمنٹ کی بے توقیری تھا، نواز شریف طیارہ اغوا اور ادارے کو کمزور سمجھنے پر انجام کو پہنچے۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کیخلاف دن دہاڑے مہم چلائیں، کیسے اور کیونکر بچ پائیں گے۔ جبکہ 190ملین پائونڈز کیس ایک مضبوط و مربوط کیس ریڈی میڈ موجود ہے۔ بات حتمی کہ برطانیہ میں کرپشن، منی لانڈرنگ پر نیشنل کرائم ایجنسی (nca) کی بڑی کڑی گرفت رہتی ہے اور یہ کیس nca کا بنایا ہوا ہے۔ جب پراپرٹی ٹائیکون کے 190ملین پائونڈز nca نے منی لانڈرنگ میں ضبط کئے تو اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے پراپرٹی ٹائیکون کا حسن نواز کے ایون فیلڈ 18ملین پائونڈز میں خریدے گئے معاملے کو منی لانڈرنگ سے نتھی کرنے میں تن من دھن لگا دیا۔ برطانیہ میں منہ کی کھانا پڑی تھی کہ nca شہزاد اکبر نہیں چلا رہا تھا۔
مزید! پاکستان نے براڈ شیٹ (کاؤے موسوی) کو 70ملین ڈالر معاوضہ مع جرمانہ ادا کیا کہ موسوی کو نواز شریف اور اسکے بیٹوں کی غیر قانونی جائیداد کا سُراغ لگانا تھا۔ ایک ایسی محنت پر ادائیگی کرنی تھی جو سعی لاحاصل رہی۔ علیحدہ بات کہ کاؤے موسوی پر برطانوی عدالت نے جرمانہ لگایا کہ ’’اس نے نواز شریف کے بیٹوں کی جائیداد پر غلط الزام لگا کر عدالت کا وقت ضائع کیا‘‘۔ مجیب الرحمان، بھٹو اور نواز شریف کے مقابلے میں عمران خان خوش قسمت کہ جب نشانہ بنا تو ایک ڈیڑھ سال جنرل باجوہ کی بدنیتی ممد ومعاون بنی، امابعد اسٹیبلشمنٹ کے منصوبہ سازوں کی غیر معمولی نااہلی اور نالائقی نے جس ردی میں پڑی عمران سیاست کو ساتویں آسمان کی رفعتیں بخشیں۔ آج عمران خان کی مقبولیت اسٹیبلشمنٹ کی بدنیتی اور نالائقی کی مرہون منت ہی تو ہے۔ مقتدرہ کی کمزور حکمت عملی کہ عمران خان کو سیاسی مضبوطی و مقبولیت دی گئی۔ سوچ کر دل دہل جاتا ہے کہ عمران خان کیخلاف مقتدرہ نے ابھی اصل کھیل تو شروع ہی نہیں کیا۔
pti اور حکومت مذاکرات کا تیسرا دور آج سے شروع، نرم گرم، اتار چڑھائو کے باوجود معاملات پہلے سے طے سمجھے جائیں۔ مذاکراتی ٹیم اور ممکنہ فیصلوں کو عمران خان کی تائید و تمنا بھی حاصل کہ موصوف کی خواہشات کے عین مطابق ہو رہا ہے۔ ایک ضمنی سوال! عمران خان نے ایسی ڈھیل یا مذاکرات حاصل کرنے میں تین سال کیوں ضائع کئے۔ سیاسی بانجھ پن ہی تو ہے وگرنہ تین سال پہلے بہتر ڈیل بہت نقصان کے بغیر ممکن تھی۔ آج جبکہ احتجاجی اسلحہ بارود کا سارا ذخیرہ خرچ کرچکے ہیں، بے بسی اور لاچاری میں عمران خان کے ’’ڈیل کشکول‘‘ میں کوئی کتنا کچھ ڈالے گا اور کیا دیرپا بھی ہو گا؟ 190ملین پائونڈز کا فیصلہ بھی آج متوقع، کڑی سزا ملنے کو ہے۔ طویل قید، مذاکرات سے وقتی طور پر سزا پر بنی گالہ منتقلی ہو سکتی ہے۔ تحریک انصاف کا غصہ بے جاء عمران خان کی سزائوں اور مشکلات کا جنرل عاصم منیر سے کوئی تعلق نہیں، یہ اداراتی فیصلہ ہے۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض اس سے بدتر حشر کرتے۔ مذاکرات نے تو صرف عمران خان سیاست کی تجہیز و تکفین کے معاملات طے کرنے ہیں، جاری رہیں گے۔
شذرہ! آرمی ایکٹ کیخلاف سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت، طبع آزمائی ممکن نہیں۔ ملٹری کورٹس سے تحریک انصاف کے کارکنوں کو سزائیں، قطع نظر کہ ریاست کو کس قدر جھوٹ کا سہارا لینا پڑا، سزاؤں کے نتیجے میں عمران خان یا pti کو نقصان نہیں، فائدہ ہی پہنچے گا۔ ایسے کئی ہنر پہلے بھی آزمائے گئے، ہمیشہ نتیجہ صفر ہی رہا۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ کی درجن بھر سماعتیں سنیں۔ ازراہ تفنن، انکشاف ہی، وزارت دفاع، حکومت پاکستان کے ماتحت نہیں ہے اور وزارت دفاع کا وکیل وفاق کی نمائندگی نہیں کر رہا۔ علاوہ ازیں، سپریم کورٹ کئی بار فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ افراد کے کیس کی تفصیلات مانگ چکی ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے آج عدالت کو بتایا کہ ایک آدھ تفصیل ضرور دے دیں گے۔ البتہ! ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ ان سزاؤں کا جائزہ لینے کی مجاز نہیں ہیں، آئین! اناللہ وانا علیہ راجعون۔بشکریہ جنگ۔