ملالہ آئی، بولی مگر کس سے ملی
(کشور ناہید)
مسلسل بیماری نما بے ہوشی میں کانوں میں آوازیں آتی رہیں۔’ لڑکیوں کی تعلیم پر کانفرنس ہورہی ہے پھر سنا دنیا کے تعلیمی مشاہیر آئے ہیں‘۔ اٹھ کر دیکھنے کی کوشش کی، کبھی وزیراعظم، کبھی گیلانی صاحب نظر آئے۔ کیا باتیں کیں۔ اسی عالم میں یاد آیا کہ ساری دنیا میں پچاس فی صد لڑکیوں کے لئے کوئی تعلیمی نظام نہیں ہے۔ پاکستان بھر سے کہا جارہا ہے، ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ بہت کچھ ہو رہا ہے۔ انعامات دیے جارہے ہیں۔ چھوٹے گھروں کے منصوبے ہیں مگر وہی سوال ڈھائی کروڑ بچے کس قطار میں ہیں؟ اس پورے مجمع میں بہت سی لڑکیاں نظر آئیں۔ کانوں میں آواز پڑی، ملالہ بھی آئی ہے۔ نیم خوابیدہ آنکھیں کھول کر بار بار اسکا چہرہ تلاش کیا بس اتنا یاد کہ وہ کہہ رہی تھی ’’افغانی تو عورت کو انسان ہی نہیں سمجھتے‘‘۔ پھر اسکی وردی میں ملبوس لوگوں کے درمیان ایک دفعہ چلتے ہوئے جھلک نظر آئی۔ ہم لوگ ایک روز 27 دہشت گرد مارتے ہیں۔ دوسری طرف ایک لڑکی کی حفاظت کے لئے فوج۔ وہ ہماری بچی ہے۔ لوگ اسے چاہتے ہیں۔ اسکی تقریر میں وہ دلسوزی تھی جو دنیا میں ہر عورت محسوس کررہی ہے۔ کتنے سخت دل افغانی ہو گئے ہیں۔ وہ کھڑکیوں میں شیشے لگانےسے بھی منع کر رہے ہیں۔
اس کانفرنس میں یہی کچھ بولا گیا۔ صفحوں پرلکھا ہوا۔ رٹا رٹایا۔ غیر ملکی مہمانوں نے انعامات تو تقسیم کیے مگر ایک حرف بھی، ایک اعتراض بھی افغان، ظالموں سےنہیں کیا۔ پتہ نہیں ان لوگوں کو اپنے کون سے گناہ یاد آرہے ہیں کہ وہ لوگ عورتوں کو تو چھوڑیں بچیوں پر بھی لا انتہا ظلم کررہے ہیں۔ سعودی عرب جیسے ملک بھی کیوں آواز نہیں اٹھا رہے ہیں؟ اسلامی ممالک میں سناٹا کیوں ہے۔ غزہ میں مسلسل مرنے والوں کوکسی گنتی ہی میں نہیں لیا جا سکتا اب تو بس دو چار مجبور فلسطینی رہ گئے ہیں۔ اب اسرائیل گولان کی پہاڑیوں کی سمت للچائی ہوئی نظریں اٹھائے ہوئے ہے۔
سنا ہے بین الاقوامی کانفرنس تھی، سنا ہے قرارداد بھی پاس ہوئی مگر اس میں کتنا اثر تھا۔ اس میں عملدرآمد کی کتنی گنجائش تھی۔ کانفرنسوں میں اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے رقم فراہم کی تھی۔ اس رقم کو کب اور کیسے خرچ کیا جائے، جبکہ یہ سن کر اور بھی ملال ہوا کہ پاکستان میں فل ٹائم وزیر تعلیم ہی نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے نمائندے صرف شکل دکھانے یا پھر اپنے چار بندے ملازم کرانے کو آ جاتے ہیں۔ کوئی بتائے تو سہی۔ یہ رقم کتنے اسکولوں کے کام آسکے گی۔ کتنی کتابیں خریدی جا سکیں گی۔ کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ روز اپنے حبیب کا نام لے کر جج حضرات کبھی190ملین پاؤنڈ کا ذکر کرتے ہیں اور یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ یہ رقم سرکار کو واپس مل چکی ہے۔ پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ عمران اور اسکے حواریوں کی سزا میں تاخیر مت کیجئے۔ عدالتوں کو تین ماہ فیصلہ لکھے ہو گئے۔ اعلان کیوں نہیں ہوتا، وہ زمینیں جو بزنس مین کے ذریعے اونے پونے خریدی گئیں۔ وہ جھگڑا بھی ختم ہوا، فی الوقت وہ دبئی میں نئے شہر بنانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اب حکومت پاکستان سندھ میں، عالمی بینک کی عطا کردہ رقوم سے اور بی بی مریم تین مرلے کے مکان بنانے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ اللہ کرے یہ محض اعداد و شمار نہ رہیں۔ لوگ اپنی چھت تلے سوئیں۔
جو کچھ القادر ٹرسٹ کے نام پر بی بی نے کھیل کھیلا، وہ بھی اپنے انجام کو پہنچنا چاہئے۔ سارے کیسز میں تاخیر سے شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ فیض حمید کا تصفیہ کریں۔ ملک کو ایک دکھ نہیں، ہمیں تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم نےچاول بھیجے وہ ناقص۔ ہمارے چیف صاحب شمالی علاقوں کا دورہ کر کے آئے ہیں انکے ہاتھ میں اگر تمام فورسز ہیں تو مجھ پاگل عورت کو سمجھائیں کہ پچا س پچاس دہشت گرد کس کھدائی میں نکل رہے ہیں۔ اگر غلط نہ سمجھا جائے تو پلٹ کر دیکھیں کہ وہ کونسے ناسور ہیں جو ضیاء کے زمانے سے شروع ہوئے۔ اب تک موجود ہیں۔ روز منشیات، اسمگلنگ کا سامان، انڈیا کا مال پکڑا جاتا ہے یہ اگر ہمارے کارندے، ہمیں لوٹنے والے نہیں جو بچوں کو دن رات باہر جانے کے دھوکے میں مروا رہے ہیں۔ ابھی ہر ملک کی جیل میں پاکستانیوں کو واپس بھیجنے کے تقاضے ہو رہے ہیں۔
میں خوش ہوتی ہوں جب روز وزیراعظم کو نئے موضوع پر خطاب کرتے سنتی ہوں۔ عمل کے خانے میں یاد دہانیاں ہیں۔ قوم کو یہ کیوں نہیں بتایا جا رہا کہ اس سال بارانی بارش نہیں ہوئی کسان کیا کریں۔ ٹریکٹر دینے، کھاد دینے، نئے بیج دینے کا کوئی حاصل وصول نہیں ہوگا۔ کاشتکاروں کو اشتہاروں میں مت ٹالیں۔
وزیرستان، چمن، کرم اور تربت میں موجود دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ اے دنیا کے لوگو میری محبوب ہستی حضرت عائشہؓ، حضرت خدیجہؓ اور ساری امہات المومنینؓ کا واسطہ ہے اسلام کے نام پہ افغان حکومت کو سمجھائیں۔ بچائو میری عورتوں کو کہ انکے دم سے دنیا ہے۔