درمیانی راستہ نکالنا ہو گا
(کنور دلشاد)
امریکی جریدے فوربز نے چند روز قبل ٹیسلا اور سپیس ایکس کے مالک ایلون مسک کو دنیا کا امیر ترین شخص قرار دیا ہے جن کی مجموعی دولت 425 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایلون مسک نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بڑے حامی ہیں اور انہوں نے حالیہ امریکی انتخابات میں اپنے ذاتی پلیٹ فارم ایکس سمیت سوشل میڈیا کے ذریعے ٹرمپ کے حق میں بھرپور انتخابی مہم چلائی جس کی بدولت پنٹاگون کی مخالفت کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ فاتح ٹھہرے۔ ایلون مسک کی ان خدمات کے عوض صدر ٹرمپ نے ان کو اپنی کابینہ میں اہم پوزیشن دے کر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ مستقبل میں ایلون مسک کی معاونت سے دنیا کے کسی بھی ملک کے انتخابی نظام میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ کم و بیش زندگی کا ہر شعبہ کسی نہ کسی طرح ٹیکنالوجی سے منسلک ہے۔ کچھ ممالک میں انتخابی نظام میں بھی ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور وہاں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم رائج ہے۔سوشل میڈیا ایک ایسا ٹُول ہے جس پر پروپیگنڈا کی مدد سے رائے عامہ کو کسی بھی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ امریکہ مستقبل میں ایلون مسک کی معاونت سے سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے ذریعے گمراہ کن پروپیگنڈا کر کے بڑے بڑے مخالفین کے بُرج اُلٹ سکتا ہے اور اُن ممالک میں اپنے ہم خیال سیاستدانوں کو اقتدار میں لا سکتا ہے۔ اس تناظر میں یہ خدشہ موجود ہے کہ امریکہ پاکستان میں بھی آئندہ انتخابات میں ایلون مسک کی تھیوری پر عملدرآمد کرتے ہوئے عوام کی رائے کو تبدیل کر سکتا ہے۔ شاید کسی ایسے خدشے کے پیشِ نظر ہی پاکستان میں چند بڑی سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا پر اپنی مضبوط موجودگی کا احساس دلانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان اپنے سوشل میڈیا سیلز میں بھرتی کر رکھے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے عوام سے براہِ راست رابطہ قائم کرنے کے بجائے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔
دوسری جانب مستقبل قریب میں الیکشن کمیشن میں اہم عہدوں پر بڑی تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں کیونکہ چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان سکندر سلطان راجہ اور سندھ اور بلوچستان کے ممبر الیکشن کمیشن 26جنوری کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ نئے چیف الیکشن کمشنر اور دو ممبرانِ الیکشن کمیشن کی تعیناتی کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 213کے تحت وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت سے طے پانا لازمی ہے۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاقِ رائے نہ ہونے پر یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا۔ یہ پارلیمانی کمیٹی سپیکر قومی اسمبلی تشکیل دیتا ہے جو حکومت اور اپوزیشن کے 12 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان چیف الیکشن کمشنر اور ممبرانِ الیکشن کمیشن کی ناموں پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کی صورت میں ہر پوسٹ کیلئے تین نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائے جاتے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی میں ناموں پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کی صورت میں یہ معاملہ سپیکر قومی اسمبلی کے پاس چلا جائے گا۔ آئین کے مطابق نئے چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تعیناتی 45 روز میں ہونا لازمی ہے‘ تاہم آئین میں ہونے والی 26ویں ترمیم کے مطابق نئی تعیناتی تک موجودہ چیف الیکشن کمشنر و ممبران ہی ان نشستوں پر کام کرتے رہیں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسے آئین کے آرٹیکل 40‘ 44 اور 48 کے مطابق صدرِ مملکت اُس وقت تک اپنے عہدے پر کام کرتے رہیں گے جب تک نئے صدر کا انتخاب نہیں ہوتا۔ 226ویں آئینی ترمیم سے قبل الیکشن ایکٹ کی دفعہ دو کے تحت الیکشن کمیشن کے چاروں ممبران میں سے سینئر ترین ممبر کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر مقررکر دیا جاتا تھا لیکن اب چونکہ چیف الیکشن کمشنر کے ساتھ دو ممبران بھی 26جنوری کو ریٹائر ہو رہے ہیں لہٰذا اگر 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے والی صورتحال ہوتی تو الیکشن کمیشن عملاً غیر فعال ہو جاتا لیکن 26ویں ترمیم کے بعد یہ سب حضرات نئی تعیناتیوں تک اپنے عہدوں پر براجمان رہیں گے۔
اگر ماضی میں ہونے والی اُن تعیناتیوں کا جائزہ لیا جائے جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاقِ رائے سے طے پانا ہوتی ہیں تو چیف الیکشن کمشنر اور ممبرانِ الیکشن کمیشن کی تعیناتی پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاقِ رائے ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ناموں پر اتفاقِ رائے نہ ہو پایا اور پارلیمانی کمیٹی‘ جو کہ اپوزیشن اور حکومتی ارکان پر مشتمل ہوگی‘ وہاں بھی آسانی سے اتفاقِ رائے نہ ہوا تو سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا کردار کافی اہمیت کا حامل ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق حکومت چیف الیکشن کمشنر کے لیے ایک ایسے بیوروکریٹ کا نام آگے لا رہی ہے جو اس وقت ایک اہم آئینی ادارے کا ممبر ہے اور جس کے نام پر عمر ایوب خان کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
اُدھر شنید ہے کہ سوشل میڈیا بالخصوص یوٹیوب پر ریاست کے خلاف زہر پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حکومتی سطح پر ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ریاست یا مذہب کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے ویوز کے چکر میں عوام تک غلط معلومات پہنچاتے ہیں۔ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جنہیں ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف زہر اُگلنے کے لیے باقاعدہ فنڈنگ بھی ملتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے عوام میں اپنی مقبولیت قائم رکھنے کے لیے اپنا ایک سوشل میڈیا سیل قائم کر رکھا ہے جسے کسی بھی صورت میں اپنی جماعت کا بیانیہ عوام تک پہنچانے سے غرض ہے‘ چاہے اس چکر میں وہ ریاستی مفادات کو نقصان پہنچاتے رہیں۔ سوشل میڈیا کا غلط استعمال اس میڈیم کے فوائد کو گہنا دیتا ہے۔ اسی لیے ایف آئی اے نے اب اس حوالے سے متحرک کردار ادا کرنے کی ٹھانی ہے۔
دوسری جانب ملک کی رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں ایک اور جماعت کا اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جماعت ‘عوام پاکستان پارٹی‘ کو رجسٹر کر لیا ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 168 ہوگئی ہے۔۔ عوام پاکستان پارٹی کو الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کی دفعات 202‘ 208 اور 209کے تحت رجسٹر کیا ہے۔شاہد خاقان عباسی یکم فروری 2023ء کوپاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر کے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے جس کے بعد گزشتہ برس اپریل میں انہوں نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اُن کی جماعت کی رجسٹریشن کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ اگلے انتخابات کے بعد ایوان میں شاہد خاقان عباسی کی جماعت کی نمائندگی بھی موجود ہو گی۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی کی جماعت دیگر سیاسی جماعتوں کے اراکین کو شامل کرکے مستقبل میں عمران خان کا راستہ روکے گی۔
ملک میں سیاسی جماعتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے لیکن سیاسی استحکام قائم نہیں ہو رہا۔ ملک میں اب تک ہونے والے انتخابات کا تجزیہ کیا جائے تو ہر انتخاب کے بعد سیاسی عدم استحکام اور سیاسی غیریقینی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے عوام کے مسائل حل کرنے اور ملک کو سیاسی و معاشی استحکام کی جانب گامزن کرنے کے بجائے ذاتی مفادات کے حصول کو ترجیح دی۔ جب تک سیاستدانوں کے دلوں میں ملک کو استحکام کی جانب گامزن کرنے کا جذبہ موجزن نہیں ہو گا‘ نئی نئی سیاسی جماعتیں بنانے سے نہ ہی ملک اور نہ جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے۔ ملک کو آگے بڑھانے کے لیے انہیں کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہوگا۔(بشکریہ دنیا)