لائق اور نالائق افسران
(رؤف کلاسرہ)
ہمارے ملک میں کیا کیا نگینے پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ نے ان کو سمجھنا ہو تو پارلیمنٹ میں بنائی گئی قائمہ کمیٹیوں سے زیادہ بہتر جگہ آپ کو نہیں ملے گی۔ وہاں ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کو جنرل پرویز مشرف کے دور سے کَور کررہا ہوں۔ یہ پرویز مشرف ہی تھے جنہوں نے پی اے سی میں میڈیا کے بیٹھنے پر پابندی کو ختم کیا‘ اس سے پہلے کی سیاسی حکومتوں کے دور میں‘ چاہے وہ (ن) لیگ کی حکومت ہو یا پیپلز پارٹی کی‘ میڈیا کو پی اے سی اجلاسوں میں بیٹھنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ پارلیمانی حکومتوں کی سپرمیسی کا عجیب فیصلہ تھا کہ اجلاسوں میں میڈیا بیٹھ کر رپورٹ نہیں کر سکتا۔ جن عوام کے ٹیکسوں پر حکمران پلتے ہیں‘ ان کو میڈیا کے ذریعے حکمرانوں کی کارکردگی جانچنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ حکمرانوں کو عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھا کیا گیا پیسہ تو بہت پیارا ہے لیکن یہ گوارا نہیں کہ عوام جان سکیں کہ ان کا پیسہ خرچ کیسے ہو رہا ہے۔
عوام کے ٹیکسوں سے کیے جانے والے سب اخراجات کا احوال پبلک اکائونٹس کمیٹی میں ہی آتا ہے۔ ہر وزارت کا سیکرٹری یہاں موجود ہوتا ہے بلکہ یہ واحد کمیٹی ہے جہاں سب فیڈرل سیکرٹری باری باری آتے ہیں۔ یہیں سب سیکرٹریز کی قابلیت کا پتا چلتا ہے۔ یقین کریں جب سے نئی کمیٹی بنی ہے اس کے بعد جن اجلاسوں کو میں نے کَور کیا ہے اس میں فیڈرل سیکرٹریز کی قابلیت کے معیار کو دیکھ کر سخت مایوس ہوا ہوں۔ مجال ہے کہ کوئی سیکرٹری تیاری کے ساتھ آیا ہو اور کمیٹی ممبران کو متاثر کر سکا ہو۔ لگتا ہے کہ اس ملک میں سب ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر چل رہے ہیں۔ بس آج کا دن گزار دو‘ کل کی کل دیکھیں گے۔ ان کی قابلیت کا جنازہ تو بہت پہلے نکل چکا تھا۔ اب ایسے بیورو کریٹس کی اکثریت اوپر آ گئی ہے جن کے اندر قابلیت اور محنت باقی نہیں رہی۔ میں نے 25 سال اس کمیٹی کو کَور کیا ہے اور بہت اعلیٰ قسم کے بیورو کریٹس کو اس کمیٹی کے ممبران کو اپنے جوابات سے متاثر کرتے دیکھا ہے۔ میں نے ذاتی طور ماضی کے کمیٹی ممبران‘ آڈٹ افسران اور کچھ بیورو کریٹس سے سیکھا بھی ہے۔ بعض کمیٹی ممبران بہت متاثر کن تھے جو بریف پڑھ کر آتے تھے تاکہ اجلاس میں آڈٹ اور متعلقہ اداروں کے سربراہوں سے بہتر سوالات کر سکیں۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے 2006-07ء تک قابل اور بہترین بیورو کریٹس پیش ہوتے تھے جو پوری تیاری کرکے آتے تھے۔ وہ بحث مباحثہ کے بعد میرٹ پر آڈٹ پیرے سیٹل کراتے تھے‘ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ بیورو کریسی میں ٹاپ پر خرابیاں شروع ہو گئیں۔ یوں لگنے لگا کہ اب وزارتوں میں سیکرٹریز نہیں بلکہ سپرنٹنڈنٹ بھرتی ہو گئے ہیں۔ اگرچہ چند فیڈرل سیکرٹریز اب بھی پرانی روایات کا دامن تھامے ہوئے تھے اور تیاری کے ساتھ کمیٹی کا سامنا کرتے تھے لیکن ان کی اکثریت اب ریٹائرڈ ہو چکی۔ ان کے بعد کلرک ٹائپ بیورو کریٹس نے وزارتوں کو سنبھال لیا۔ چند ہی افسر رہ گئے جو انگریزی زبان پر پوری کمانڈ کے ساتھ کمیٹی سامنے آڈٹ پیروں کی وضاحت کر پاتے تھے۔ اکثر اردو پر سوئچ کر جاتے تھے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس میں بات چیت کرنا ہرگز معیوب نہیں لیکن اس فورم پر پہلے فیڈرل سیکرٹریز انگریزی زبان کا استعمال زیادہ کرتے تھے اور چیئرمین کمیٹی بھی انگریزی زبان کا سہارا لیتے تھے۔ آڈٹ پیرے بھی انگریزی میں شائع ہوتے تھے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان خود یا اس کے آڈیٹر بھی انگریزی میں وضاحت دیتے تھے۔ وجہ وہی تھی کہ اس بڑے فورم کیلئے جس لیول کی قابلیت کی ضرورت تھی اس کیلئے انگریزی میڈیم ماحول ہی چل سکتا تھا۔ سی ایس ایس کیلئے بھی ہمیشہ یہ معیار رہا چاہے وہ لکھنے میں ہو یا پڑھنے میں۔ لیکن اگر سی ایس ایس کلیئر کرنے اور 35 سال سروس کے بعد بھی آپ اس فورم پر دو منٹ انگریزی میں آڈٹ پیرے کا دفاع نہیں کر پاتے تو آپ کی قابلیت واضح ہو جاتی ہے۔ تاہم جب اردو میں اس اجلاس کی پروسیڈنگ شروع ہوئی تب بھی یہ دیکھا گیا کہ افسران اردو میں بھی آڈٹ پیرے کا دفاع نہ کر سکے۔ اکثر سیکرٹریز اور ان کی وزارت کے افسران کو منت ترلے کرتے اور بہانے بناتے دیکھا۔ جن اعلیٰ افسران نے منت ترلے کیے یا بہانے بنائے وہ فیڈرل سیکرٹری لیول کا میٹریل نہ تھا۔ صاف لگتا تھا کہ سفارشی یا کلرک ٹائپ ترقی کرکے بائیسویں گریڈ تک پہنچ گئے تھے۔ ایک دفعہ مجھے ایک اہم عہدیدار نے بتایا کہ جب آپ لکھتے ہیں کہ کلرک لیول افسران اوپر پہنچ گئے‘ جس سے معیار گر گیا تو آپ غلط نہیں لکھتے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ برس پہلے وزارتوں میں کچھ ایسا سسٹم لایا گیا تھا کہ وہاں جونیئر لیول کے افسران‘ جو سی ایس ایس کرکے نہیں لگے تھے‘ انہیں موقع دیا گیا کہ وہ چند پیپرز دے کر ترقی لے لیں۔ یہ پیپرز فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے لیے تھے۔ لہٰذا وہ جونیئر افسران جو کبھی سپرنٹنڈنٹ یا سینئر کلرک تھے‘ وہ بھی ترقی لے کر سیکرٹریز کلاس میں داخل ہو گئے۔ کلرکس اور سپرنٹنڈنٹس کہتے تھے کہ یہ جو سی ایس ایس افسران ہیں ان سب کو تو وہ چلاتے ہیں۔ سارے رولز‘ ریگولیشنز اور فائل تیاری کا کام تو وہ کرتے ہیں۔ سی ایس ایس افسران تو محض فائلوں کو سرسری دیکھ کر دوبارہ مارک کر کے انہیں کلرک یا سیکشن افسران کو بھیج دیتے تھے کہ ہاں دیکھ لی فائل یا اسے فائل کر دو۔ بہت کم افسران ہوتے تھے جو فیصلے کرنے کی جرأت رکھتے تھے کیونکہ فیصلوں کی ایک قیمت اور نتائج ہوتے ہیں اور ہر فیڈرل سیکرٹری ان نتائج کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔
فیصلوں سے یاد آیا‘ انگریزی اخبار میں میرے ایک کولیگ نے ایک سابق سیکرٹری زراعت پر ایک سٹوری فائل کی کہ وہ بہت ایماندار افسر تھے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نئے فیڈرل سیکرٹری زراعت لگے تھے۔ انہوں نے اس رپورٹر کو فون کیا اور اسے دعوت دی کہ کسی دن ان کے دفتر تشریف لائیں‘ وہ انہیں کچھ دکھانا چاہتے ہیں۔ جب وہ رپورٹر ڈاکٹر ظفر الطاف سے دفتر میں ملنے گئے تو وہاں میز پر فائلوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ جناب یہ وہ سب فائلیں ہیں جو آپ کا ایماندار افسر چھوڑ گیا ہے۔ وہ دو ڈھائی سال اس وزارت کا سیکرٹری رہا۔ آپ ان فائلوں کے انبار میں سے مجھے ایک فائل ڈھونڈ دیں جس پر اس نے ایک فیصلہ بھی کیا ہو۔ ایک فیصلہ! وہ افسر صاحب ہر فائل پر دو تین الفاظ لکھ کر گیا ہے Seen, file it. Pls discuss۔ مجھے کسی فائل پر ایک لفظ approved دکھا دیں اور اس کے دستخط۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے اس وزارت کا بیڑہ غرق ہوا کہ سابق سیکرٹری کوئی فیصلہ نہیں کرتا تھا۔ اسے اسی وجہ سے ہٹا کر مجھے لایا گیا اور آپ نے لکھا ہے کہ ایک ایماندار سیکرٹری کو وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ بھائی جان یہ کیسی ایمانداری ہے؟ وہ بندہ یقینا ایماندار ہو گا جس نے عمر بھر ایک فیصلہ نہیں کیا۔ ایماندار ضرور ہوگا لیکن وہ بے حد نالائق بھی تھا۔ ہم نے اس کی ایمانداری کا اچار ڈالنا ہے اگر وہ فائل پڑھ کر اس پر فیصلہ نہیں کر سکتا‘ ڈرتا ہے کہ کہیں غلط فیصلہ کر بیٹھا تو پھنس جائے گا۔ اس پر تنقید ہو گی‘ کوئی پوچھ گچھ شروع ہو جائے گی‘ وزیراعظم یا وزیر سے ڈانٹ پڑ سکتی ہے یا میڈیا میں اس کا غلط فیصلہ سکینڈل بن جائے گا۔ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ میں دن میں اگر دس فیصلے کرتا ہوں اور اس میں سے دو تین فیصلوں کے نتائج غلط نکلتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں میں نااہل یا کرپٹ ہوں۔ آپ افسر کی نیت دیکھا کریں کہ وہ فیصلہ کسی ذاتی فائدے کیلئے تھا یا اس کی Unintentional mistake تھی۔ آپ کو کیسے افسر درکار ہیں۔ نالائق‘ نااہل اور برائے نام ایماندار یا پھر وہ جو ڈٹ کر فیصلے کریں‘ اچھے برے نتائج کا سامنا کریں اور ان فیصلوں کا ڈٹ کر پی اے سی میں دفاع بھی کریں۔اب پی اے سی جاؤں تو وہاں اکثر بیورو کریٹس کو کمیٹی ممبران کے ہاتھوں ذلیل ہوتے اور منت ترلے کرتے دیکھتا ہوں تو ڈاکٹر ظفر الطاف صاحب بہت یاد آتے ہیں۔