کالم

کیا امریکہ غزہ پر قبضہ کر سکتا ہے؟

(بیرسٹرحمید باشانی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے غیر روایتی بیانات اور تجاویز کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ متنازع اور اشتعال انگیز بیان 2023ء کے آخر میں سامنے آیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو وہ غزہ کے معاملے میں براہِ راست کردار ادا کرنے پر غور کریں گے۔ اس بیان نے فوری طور پر عالمی سیاسی حلقوں میں ایک بحث چھیڑ دی‘ جس میں محتاط رجائیت پسندانہ رویے سے لے کر شدید مذمت جیسے ردِعمل سامنے آئے۔ یہ غیرمعمولی بیان دنیا کے ایک طاقتور ترین ملک کی طرف سے آیا تھا۔ ایک ایسا ملک جو دنیا کی رہنمائی کا دعویدار ہے اور بظاہر دنیا کو امن کی طرف لے جانے کا خواہشمند بھی۔ کیا ایسے ملک کے لیے دنیا کے سب سے زیادہ پیچیدہ تنازع میں براہِ راست ملوث ہونا ممکن ہے؟اب ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر قبضے کا اعلان کیا ہے جس پر دنیا بھر سے ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے مضمرات کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بیان‘ اس کے تاریخی تناظر اور خطے اور عالمی سیاست پر اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ صدر ٹرمپ نے یہ بیان اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری تنازع کے تناظر میں جاری کیا ہے جس میں کئی دہائیوں سے تشدد‘ ناکام امن مذاکرات اور گہری سیاسی تقسیم دیکھی گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس رائے کا اظہار کیا کہ امریکہ امن کے لیے غزہ پر قبضہ کر سکتا ہے اور ایک ایسے خطے میں امن قائم کر سکتا ہے جسے طویل عرصے سے دنیا میں سب سے زیادہ غیرمستحکم سمجھا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی انتظامیہ میں امریکہ صرف ثالث کے طور پر کام نہیں کرے گا بلکہ غزہ کے معاملات کو سنبھالنے میں براہِ راست زیادہ کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا مقصد فلسطینی سرزمین میں امن اور سلامتی کو بحال کرنا ہے جس پر اس وقت حماس کی حکومت ہے‘ جسے امریکہ اور اس کے بہت سے اتحادی دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ ٹرمپ کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ امریکہ غزہ پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کر کے حماس کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے جس کا جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ اس کا مقصد خطے میں امن و استحکام کا قیام ہے جبکہ امریکہ کا یہ اقدام اسرائیل کے سلامتی کے مفادات کو بھی تقویت بخشنے کا باعث بنے گا۔
اگرچہ ٹرمپ کا یہ بیان مبہم ہے‘ خاص طور پر اس حوالے سے کہ امریکہ غزہ پر کس طرح قابض ہوگا یا امریکہ ایسا کرنے کے لیے کون سے سیاسی یا فوجی وسائل استعمال کرے گالیکن یہ واضح ہے کہ ٹرمپ کا یہ خیال بنیاد پرست نظریات اور خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ بیان مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مداخلت میں اضافے کی پیش گوئی کرتا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ایک نئی امریکی پالیسی کا عکاس ہو گا۔ اس طرح کے بیان کے ممکنہ نتائج کا اندازہ لگانے کے لیے غزہ میں امریکی مداخلت اور اسرائیل اور فلسطین کے وسیع تر تنازع کی تاریخ کو یاد کرنا بہت ضروری ہے۔ امریکہ طویل عرصے سے اسرائیل کا اہم اتحادی رہا ہے جو اسرائیل کو ہمیشہ فوجی‘ اقتصادی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ ساتھ ہی واشنگٹن نے اسرائیل اور ایک آزاد فلسطین کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کی بات کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی حمایت کا بھی اظہار کیا ہے مگر غزہ اس وقت اسرائیلی کشیدگی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ 2007ء کے بعد سے‘ جب حماس نے فلسطینی اتھارٹی کے الفتح دھڑے کے ساتھ ایک مختصر خانہ جنگی کے بعد غزہ کا کنٹرول سنبھالا تھا‘ یہ خطہ تشدد کا ایک فلیش پوائنٹ تھا۔ اسرائیل نے غزہ میں راکٹ حملوں اور اس علاقے سے ہونے والی دیگر عسکری سرگرمیوں کے جواب میں یہاں متعدد فوجی کارروائیاں کی ہیں۔ اس وقت غزہ کو ایک انسانی بحران کا سامنا ہے۔ غزہ کے باسیوں کی ضروری وسائل تک محدود رسائی‘ غزہ میں شدید بیروزگاری اور صحت کی دیکھ بھال کا ایک کمزور نظام موجود ہے‘ جو اب مکمل ناکارہ ہوتا جا رہا ہے۔
اگرچہ امریکی انتظامیہ نے حماس اور اسرائیل کے مابین امن مذاکرات میں ثالثی کی کوششیں کی ہیں لیکن اس تنازع کا کوئی دیرپا حل ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ امریکہ کے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کا خیال اس وقت روایتی سفارت کاری اور خطے میں قیامِ امن کی کوششوں سے ڈرامائی طور پر الگ ہو جانے کا باعث بنے گا۔ ٹرمپ کی یہ تجویز ممکنہ طور پر امریکی رائے دہندگان کے اُس ایک حصے کی نمائندگی کرتی ہے جو مشرقِ وسطیٰ کو ایک ایسے سٹرٹیجک علاقے کے طور پر دیکھتا ہے جہاں امریکہ کو اپنا تسلط قائم کرنا ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ خود کو امریکی مفادات اور اسرائیلی سلامتی کے تحفظ کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کرنے کے لیے تیار ایک رہنما کے طور پر پیش کرنے سے سخت گیر اور قدامت پسند امریکیوں کی حمایت حاصل کر سکتے ہیں‘ خاص طور پر وہ لوگ جو حماس اور ایسے دیگر گروپوں کو مذہبی انتہا پسندی سے جوڑ کر ان کے خلاف ایک مضبوط موقف کو ترجیح دیتے ہیں۔تاہم ٹرمپ کی یہ تجویز امریکی سیاسی منظر نامے کے اندر دیگر دھڑوں کی طرف سے شدید تنقید کو بھی دعوت دے گی۔ لبرل اور ترقی پسند آوازیں ممکنہ طور پر اس خیال کو سامراجی قرار دیں گی۔ ٹرمپ کے کچھ ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ غزہ پر براہِ راست امریکی کنٹرول اس خطے میں امریکی مخالفت کو مزید مضبوط کرے گا‘ خاص طور پر عراق اور افغانستان کی جنگوں اور ان کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد۔ مزید برآں ٹرمپ کی بیان بازی امریکہ میں سیاسی پولرائزیشن کو بڑھا سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس طرح کا اقدام امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے تنازع کی طرف لے جائے گا۔
ٹرمپ کا یہ بیان ٹرمپ کے امیج کو سیاسی طور پر بھی نقصان پہنچا سکتا ہے کیونکہ یہ غزہ میں پیچیدہ زمینی حقائق اور اسرائیل فلسطین کے وسیع تر تنازع کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کا اظہار ہو گا۔ اسے ایک ایسے مسئلے کے ایک سادہ اور عسکری حل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کے لیے باریک بینی اور سفارت کاری ضروری ہے۔ ٹرمپ کا بیان بنیادی طور پر مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکہ کے تاریخی نقطۂ نظر کو چیلنج کرتا ہے۔ امریکی لوگ خارجہ پالیسی کے روایتی انداز کو پسند کرتے ہیں۔ یہ روایتی پالیسی امریکہ کے سمندر پار مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ یہ پالیسی عسکری اور معاشی سطح پر امریکی اشرافیہ کے مفادات سے ہم آہنگ ہے۔ اگرچہ یہ پالیسی سمندر پار لوگوں کے معاشی مفادات سے متصادم ہے لیکن امریکی اشرافیہ کے لیے یہی پالیسی سود مند ہے جس سے ان کے معاشی مفادات کا تحفظ بھی ہوتا ہے اور کسی قسم کی مخالفت یا سیاسی احتجاج کی صورت میں بھی یہ پالیسی حکمران اشرافیہ کے وجود کے لیے ناگریر ہے۔ صدر ٹرمپ کے بیان کو عموماًایک بڑبولے شخص کا بیان سمجھا جاتا ہے جو بولنے سے پہلے بہت زیادہ غور و فکر کا عادی نہیں ہے۔ خود امریکی پالیسی ساز بھی اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے لیکن اگر یہ بیان مشرقِ وسطیٰ میں امریکی حکمت عملی کا حصہ بنتا ہے اور ٹرمپ کی انتظامیہ اس پر عمل درآمد کرتی ہے تو اس سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کی پوری لینڈ سکیپ ہی بدل سکتی ہے۔ اس بیان کی روشنی میں امریکہ کا اسرائیل کی طرف جھکاؤ ایسا نہیں رہے گا جیسا اب ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کے تناظر میں اسرائیل کی طرف امریکی جھکاؤ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے‘ جس کی وجہ سے فلسطینیوں کے بارے میں ان کا رویہ ویسا نہیں ہے جس کا وقت متقاضی ہے۔ عالمی پلیٹ فارمز پر امریکی رویہ‘ ووٹنگ اور ویٹو کے استعمال میں وہ قدرتی پن بھی نہیں ہے جس کے امریکی دانشور خواہش مند ہیں یا جو امریکہ کے سیاسی طور پر حساس طبقات دیکھنا چاہتے ہیں۔(بشکریہ دنیا)

متعلقہ خبریں۔

Check Also
Close
Back to top button