شکستہ اسرائیلی سحر اور شہدائے غزہ کے ”ہمدرد“
(شہزاداقبال شام)
اسرائیل پر حماس کے حملے میں چند سو یہودی مرے۔ چند سو یہودی جنگجو یرغمال بنا ئے گئے۔ سوا سالہ جنگ میں اسرائیل 46 ہزار سے زائد بچوں، عورتوں، بوڑھوں، طبی عملے اور معذوروں کو شہید کر چکا ہے۔ چند سو یہودیوں کے بدلے میں عام بے گناہ آبادی کا بے دریغ قتل عام ایسا نہیں جسے اجتماعی انسانی ضمیر نظر انداز کردے۔ اسرائیل اور حماس جنگ کے دو فریق ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کو بھی فریق سمجھ لیجیے، رہے متاثرین تو 47 ہزار شہدا کے لاکھوں لواحقین وہ لاچار لوگ ہیں جن کے پاس صبر کے سوا کوئی اور اثاثہ باقی نہیں بچا۔ انسانی تاریخ اس جنگ سے کہیں بڑی جنگیں اور قتل و غارت دیکھ چکی ہے۔ جنگ عظیم دوم میں سات کروڑ (سالانہ ایک کروڑ) سے زائد افراد مارے گئے۔سات سے زائد عشروں پر محیط منگول یلغار میں 40-50 لاکھ افراد مارے گئے، بلاشبہ جنگوں میں لوگ مرتے ہیں۔ہی کچھ ہوتا ہے۔ غزہ جنگ میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
لیکن اس جنگ میں وہ انہونی ہوئی جسے سات ہزار سالہ انسانی تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے اس انہونی کا مطالعہ دوسرے ہی ماہ شروع کر دیا تھا۔ چند احباب سے گزارش کی کہ وہ بھی مدد کریں۔ ہدف یہ تھا کہ اسرائیلی ظلم اور بہیمیت کے رد عمل میں مجھے غزہ کی کوئی ایک ماں، باپ، بیٹا،بیٹی، بہن یا ایسا عزیز مل جائے جس نے کہا ہو کہ ہائے! حماس نے ہمیں مروا دیا. چند ابتدائی دنوں کو چھوڑیے، آج 47 ہزار افراد اسرائیلی ظلم کی نذر ہو چکے ہیں۔ ابھی تک اہل غزہ میں سے کسی ایک شخص کی چیخ پکار یا بیان پڑھنے سننے کو نہیں ملا جس نے کہا ہو کہ جب وسائل نہیں تھے تو حماس یہ کچھ نہ کرتی،حالانکہ اس سوشل میڈیائی دور میں دشمن ایسی کسی معمولی سی شہادت کو فورا اچھالنا شروع کر دیتا ہے، لیکن اہل غزہ کے کسی شخص نے معمولی سا اضطراب نہیں دکھایا جسے دشمن بطور شہادت استعمال کرتا۔
مغربی کنارے پر واقع فلسطینی اتھارٹی کے باشندے بھی میرے اس مطالعے کے پیش نظر رہے۔ اتھارٹی کی حدود میں مقیم افراد اہل غزہ سے رشتوں کے باعث واقعتا جنگی متاثرین ہیں۔ حماس کی جدوجہد اگر جہاد کے جذبے سے ہے تو فلسطینی اتھارٹی صدر محمود عباس کی قیادت میں قطعہ ارضی کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔امریکہ اور مغربی ممالک نے مغربی کنارے کے مسلم باشندوں پر اوسلو معاہدے کے تحت غیر مسلم صدر محمود عباس مسلط کر رکھا ہے۔ محمود عباس بہا اللہ شیرازی کے پیروکار ہیں جو مدعی نبوت تھا۔ اسے ایران نے جلا وطن کیا تو وہ فلسطین جا کر آباد ہو گیا۔ اندازہ کیجیے کہ حماس اور اتھارٹی میں کتنا بعد المشرقین ہے۔ حماس کے اچانک جہاد نے اتھارٹی کو موقع دیا تھا کہ وہ حماس کی مذمت کرے۔ پٹرول کی قیمت تب بڑھائی جاتی ہے جب ڈالر کی قیمت بڑھے یا خام تیل مہنگا ہو جائے۔ تیل ایک دو روپے مہنگا ہو تو حزب مخالف مذمت کرنے میں ذرا دیر نہیں کرتی، لیکن فلسطینیوں کو دیکھئے کہ اتھارٹی نے حماس کی مخالفت میں کبھی ایک حرف مذمت نہیں کہا۔
اپنے ایک ملاقاتی ہیں۔ آندھی آئے یا برف پڑے، لو چلے یا کرفیو لگے، پوری پانچ نمازیں مسجد میں پڑھتے ہیں۔ ارب نہیں تو کروڑپتی آسودہ حال ہیں۔ دستیاب نعمتوں کے عرق سے دن رات حلق تر کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن بولے: ”جناب، حماس میں جان نہیں تھی تو اس نے اسرائیل کے ساتھ کیوں جنگ شروع کی؟ اس نے 40 – 45 ہزار لوگ کیوں مروائے“؟ سطور مذکورہ کے سائے تلے انہیں کچھ بتانے کی کوشش کی۔اپنی دینی شناخت کے باوجود وہ حماس پر طنز اور تنقید کے تازیانے برساتے رہے۔ تب عرض کیا: ”حضور یہ بتائیے! حماس کی مسلط کردہ اس جنگ سے متاثرہ لاکھوں یتیموں، بیواؤں اور زخمیوں کے لیے آپ نے کتنی نقدی یا جنس بطور امداد ارسال کی ہے“۔ جواب ان کے پھٹے منہ کی طرح بہت بڑے صفر کی شکل میں تھا۔
ایک اور صاحب یوں بولے: ”جناب حزب اللہ اور ایران نے اسرائیل پر میزائل راکٹ برسا کر کیا حاصل کر لیا؟ یہی نا کہ حماس کے اسماعیل ہانیہ کو مروایا، حزب اللہ کے حسن نصر اللہ کو مروایا، ہزاروں اردنی اور شامی باشندوں کو بے گھر کیا، لبنان کو کھنڈر بنایا۔ ملا کیا؟ بہتر تھا کہ ایران سعودی پیروی میں نرم حکمت عملی اختتار کر کے یہ کچھ نہ کرتا“۔جائز وناجائز راتب پر پلنے والے ان صاحب کی لغت میں انفاق فی سبیل اللہ تو تھا ہی نہیں کہ میں کچھ پوچھتا۔ لہٰذا امداد وغیرہ کو نظر انداز کرتے ہوئے عرض کیا: ”حضور یہ جو درجن بھر عرب ممالک اسرائیلی ظلم پر اعتکاف بیٹھے ہیں، کچھ ان کا ذکر بھی کر دیجئے“۔ ایک اور صاحب چار جماعتیں کیا پڑھ گئے کہ جرنیل بنے حماس کی ناکام جنگی حکمت عملی پر مقالہ جات تصنیف کر رہے ہیں۔
اس ایک سال میں ایسے متعدد افراد سے واسطہ پڑا تو سوچا کہ یہ لوگ ہیں کون۔ ان ”احباب“ کے دو زمرے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو دین کو پوجا پاٹ سمجھتے ہیں کہ نیم خواندہ ملاؤں نے انہیں یہی پڑھایا ہے کہ نماز پڑھ لو تو تمام گناہ معاف۔ انہیں نہ انفاق فی سبیل اللہ کی قدر ہے اور نہ یہ جہاد پر ایمان رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جنہیں حلال حرام کی تمیز نہیں۔ لقمہ حرام پر پلنے کمانے والوں سے کبھی خیر کی توقع نہ کیجئے۔ اپنا جائزہ لے لیجئے۔ آپ حلال کماتے ہیں تو ایک دمڑی حرام کام پر خرچ نہیں کرتے۔بعینہ حرام کمانے والوں کو آپ کبھی کسی خیراتی ادارے کی سرپرستی کرتے نہیں دیکھیں گے۔ مسجد کو چندہ دینا یا بیواؤں یتیموں کی مدد کرنا ان کی ریا کاری ہے جہاں فوٹو سیشن لازمی ہوتا ہے۔ دیگر کے لیے دُعا مقبول ہو سکتی ہے لیکن حرام خوروں پر کوئی دعا اثر نہیں کرتی۔
ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ یہ حکم قرآن اور تورات میں ہے۔ تالمود میں بھی دیکھ لیجیے۔ گویا اسرائیل 47 ہزار مرتبہ انسانیت کو قتل کر چکا ہے۔ علاوہ ازیں 7 عشروں میں وہ انسانیت کو لاکھوں مرتبہ قتل کر چکا ہے۔ ایک فرد مارا جائے تو لواحقین کے لیے پوری دنیا کا امن بے معنی ہو جاتا ہے۔ الگ بات ہے کہ 47 ہزار شہدا کے بدلے میں حماس نے اسرائیل کے ابلاغی سحر کے بخیے ادھیڑ دیے ہیں۔اس کی پوری تاریخ میں اسرائیل سے یوں کبھی کوئی نہیں نمٹا۔ 1967ء اور 1973ء کی جنگوں میں عالم عرب متحد ہو کر بھی اسرائیل کو وہ سبق نہیں سکھا سکا جو چند سو بے بال و پر شاہینوں نے اسے چند دنوں میں سکھا دیا۔پوری دنیا اس ناجائز ریاست کے آئرن ڈوم نامی نظام کی ثناخوان تھی لیکن چند سو نہتے جنونیوں نے کیا آئرن ڈوم، کیا ایرو سپیس اور کیا میزائل شیلڈیں ان سب سے گزر کر انہوں نے دکھا دیا کہ ایمان ان سب سے زیادہ طاقتور اور ناقابل تسخیر ہوتا ہے۔حالیہ معاہدہ امن سے اُمید باندھ لینا بلی اور کبوتر کا سا معاملہ ہو گا، لیکن ”ناقابل تسخیر“ ریاست کا بھرم تو ٹوٹا۔ مذاہب ابراہام کے ناشرین شکرے لڑانے والوں کا مکروہ چہرہ مزید تناسخ زدہ ہو گیا ہے، الحمدللہ۔