کالم

آئی ایم ایف اور زرعی ٹیکس کے اثرات

(میاں عمران احمد)

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تعلقات ابھی تک اس سطح پر نہیں آسکے ہیں جس سطح پر 2015ء سے 2018ء کے درمیان تھے۔ عدم اعتماد کی فضا قائم ہے اور وہ حکومت کے کسی وعدے یا دعوے کو ماننے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔ آئی ایم ایف کا ایک وفد ہنگامی دورے پرپاکستان پہنچ چکا ہے۔ یہ دورہ مختلف نوعیت کا ہے کیونکہ اس مرتبہ آئی ایم ایف کا وفد جوڈیشل کمیشن اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے بھی ملاقاتیں کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 18 سے زائداداروں سے ملاقاتیں شیڈول کی گئی ہیں۔ دورے کا مقصد کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور عدالتی نظام سے متعلق بات چیت کرنا اور اس پررپورٹ پیش کرناہے۔ ایسے وقت میں جب پاکستان میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے قانون سازی ہوئی ہے‘ آئی ایم ایف وفد کا ملکی جوڈیشل سسٹم میں مداخلت شاید مناسب نہیں۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آئی ایم ایف کا دائرہ کارہے کہ وہ کسی ملک کے عدالتی نظام میں مداخلت کرے؟ آئی ایم ایف کی اس حد تک ملکی نظام میں مداخلت حکمرانوں کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ آئی ایم ایف سے جن شرائط پر قرض معاہدہ ہوا ان میں ایک شرط انصاف کے نظام میں مداخلت کی بھی ہو۔ اس وفد کے جانے کے بعد ایک اور وفد اگلے مہینے آئے گا۔ جو ایک ارب ڈالر قرض دینے سے متعلق اپنی شرائط پر عمل درآمد کے حوالے سے تحقیق کرے گا۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو 40سے زائد شرائط طے کی تھیں ان میں سے اکثر پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف نے وفاقی حکومت کو تقریباً 2900ارب روپے پرائمری بجٹ سرپلس کاہدف دیا تھا جو کہ حاصل کر لیا گیا بلکہ اچھا اضافہ بھی کیا گیا۔ اس وقت پرائمری بجٹ سرپلس تقریبا ً3500ارب روپے ہے۔ چاروں صوبوں نے بھی خالص آمدن اور اضافی کیش کے اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ یہ کیسے حاصل ہوئے‘ اس پر سوالیہ نشان ہے۔ اعدادوشمار کے ہیر پھیر میں پاکستان ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ کی وجہ شہرت یہی رہی ہے۔ صوبوں کو اسی طرح زرعی آمدن پر ٹیکس ریٹ بڑھانے کا کہا گیاتھا لیکن وفاقی حکومت کافی دیر سے اس معاملے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی۔ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے پیغام پہنچایا کہ صوبوں میں زرعی آمدن پر ٹیکس کے حوالے سے قانون سازی نہ ہوئی تو آئی ایم ایف وفد پاکستان کادورہ نہیں کرے گا۔ جس کاسیدھا سادھا مطلب یہ تھا کہ ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط نہیں ملے گی۔ اس سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ متاثرہو سکتی ہے اوردوست ممالک اور دیگر بین الاقوامی ادارے پاکستان کی مالی سپورٹ روک سکتے ہیں۔ پاکستان ایسی صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لیے صوبوں کی زرعی منافع پر ٹیکس ریٹ بڑھا کر قانون سازی کر دی گئی۔ ٹیکس 15 فیصد سے بڑھا کر 45 فیصد کر دیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ زرعی ٹیکس کوئی نیا ٹیکس ہے یہ ٹیکس توبرطانوی دور سے نافذ ہے۔ اب بھی چاروں صوبوں میں زرعی ٹیکس کے قوانین موجود ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘ تقریباً 37 فیصد ملازمتیں زرعی شعبے سے جڑی ہیں اور ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً 25 فیصد ہے‘ ٹیکس بھی اسی تناسب سے وصول ہونا چاہیے لیکن پچھلے سال کے اعدادوشمار کے مطابق پورے ملک سے صرف چار ارب روپے زرعی ٹیکس وصول کیا گیا جو کہ ملک میں جمع ہونے والے مجموعی ٹیکس کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ زراعت پر ٹیکس ریٹ بہت کم ہے اسے کم رکھنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ زیادہ لوگ آسانی سے ٹیکس دے سکیں لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔ٹیکس اکٹھا نہ ہونے کی اصل ذمہ دا رملک کی اشرافیہ ہے جو کسی نہ کسی صورت میں قانون ساز اسمبلیوں میں موجود ہے اور اثرورسوخ کے غلط استعمال سے ٹیکس چوری میں ملوث ہے۔ پاکستان کی چار فیصد اشرافیہ ملک کی تقریباً 34 فیصد زیر کاشت زمین کی مالک ہے اور ایک فیصد کے پاس تقریباً 22 فیصد زمین ہے۔ 2021ء میں زرعی ٹیکس جمع نہ کرنے کے باعث انہیں105 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ اگر ایمانداری سے ٹیکس اکٹھا کیا جائے تو زرعی شعبے سے تقریباً 800 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکس ریٹ بڑھانے اور قانون سازی کرنے کے بعد کیا مطلوبہ ٹیکس اہداف حاصل ہو سکیں گے؟ موجودہ حالات میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اشرافیہ سے ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں۔ اس حوالے سے صدرِ پاکستان بیان بھی دے چکے ہیں۔ بلکہ اس ٹیکس سے بچنے کا راستہ بھی وہ بتا چکے ہیں کیونکہ زراعت پر ٹیکس میں سب سے زیادہ رکاوٹ انہی کے صوبے سے آ رہی تھی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ 45 فیصد تک ٹیکس زرعی آمدن پر نہیں بلکہ زرعی منافع پر ہے۔ مہنگے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی خدمات حاصل کر کے اور اخراجات بڑھا کر بیان کرنے کے بعد منافع کو کم ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ اس پر چیک اینڈ بیلنس بہت مشکل ہوتا ہے۔ ملک میں بڑی بڑی کمپنیوں کے منافع پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر نکلتا ہے اسی لیے ایف بی آر نے منافع کے بجائے آمدن پر ٹیکس لگایا۔ لیکن زرعی ٹیکس توکسانوں پر ہے جو کمپنیاں نہیں بناتے اور نہ ہی کچا ریکارڈ مرتب کرتے ہیں۔ ان حالات میں درست منافع کا اندازہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر زرعی قوانین منظورہونے اور ان پر عملدرآمد کے باوجود ٹیکس اکٹھا نہ ہوا تو اگلا مرحلہ زرعی آمدن پر ٹیکس لگنے کا ہو سکتا ہے۔
ایف بی آر رواں مالی سال کے ابتدائی سات ماہ کیلئے طے شدہ ٹیکس ہدف حاصل نہیں کر سکا اور سات ماہ کے دوران ٹیکس شارٹ فال 468ارب روپے تک پہنچ گیا ہے ۔ خدشہ ہے کہ سال کے اختتام پر یہ فرق 800 ارب روپے تک بڑھ سکتا ہے۔ زرعی ٹیکس قوانین منظوری کے بعد مختلف کسان تنظیموں کی جانب احتجاج کیا جا رہا ہے اور بھارت کی مثالیں دی جا رہی ہیں کہ بھارتی حکومت کسانوں کو 100 ارب ڈالر تک سبسڈی فراہم کرتی ہے۔لیکن بھارتی معیشت کا حجم پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔ جس ملک کا قرض تقریباً 135ارب ڈالر ہو اور اس کے ذخائر میں تقریباً11ارب ڈالرز ہوں تو وہ 100 ارب ڈالر کی سبسڈی کیسے دے سکتا ہے۔ اگر حکومت اشرافیہ سے ٹیکس وصولی میں کامیاب ہو گئی تو ممکن ہے کہ آئی ایم ایف سے منظوری مل جائے اور کسانوں کو کوئی سبسڈی دی جا سکے لیکن فی الحال اس کے آثار کم دکھائی دے رہے ہیں۔ زرعی ٹیکس پر قانون سازی کے بعد آئی ایم ایف کے مارچ میں جائزہ دورے سے متعلق پانچ میں سے تین شرائط پر عمل درآمد ہو گیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ اسی وجہ سے فچ ریٹنگ نے بھی حکومت کی کاوشوں کو سراہا ہے اور ملک میں معاشی استحکام کی نوید سنائی ہے۔ ریٹنگ اداروں کی رائے نئے قرض لینے اور پرانے قرض رول اوور کرانے میں مددگار ہوتی ہے۔ پاکستان نے تقریباً 3.4 ارب ڈالر کے چینی قرضوں کو رول اوور کرنے کی درخواست کی ہے۔ امید ہے کہ قرض رول اوور ہو جائے گا اور مارچ میں آئی ایم ایف وفد کو مطمئن کیا جا سکے گا۔(بشکریہ دنیا)

متعلقہ خبریں۔

Check Also
Close
Back to top button