کالم

گھر بنائیے۔ گڑھ بنائیے۔ بسم اللہ!

(سعود عثمانی)

ایک زمانے میں مسلم لیگ(ن) اور بعد میں پی ٹی آئی کا حامی رہا ہوں لیکن کبھی غیرمشروط حمایت کا جرم نہیں کیا۔ ترقیاتی کام نہ ہونے یا کسی غلط کام پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی بار با رکرتا رہا ہوں۔ خان صاحب کے دورِ اقتدار میں بھی تحریریں شامل کرتا رہا ہوں جن میں ترقیاتی کاموں سے مجرمانہ چشم پوشی کے بارے میں بھی بہت مرتبہ بات کی گئی۔ اسی طرح کئی کاموں کو بھرپور طور پر سراہا بھی گیا۔ ویسے بھی ایک معمولی کالم نگار کی داد یا بیداد سے حکومتوں کو فرق بھی کیا پڑتا ہے۔ یہ تعریف یا تنقید کسی صلے سے بے نیاز بھی رہی ہے۔ میں جو کسی سیاسی جماعت کا کبھی کارکن بھی نہیں رہا‘ کسی چھوٹے بڑے صلے کی توقع بھی کیا کر سکتا ہوں۔ ہم جیسے لوگ تو اپنا ذاتی جائز حق بھی نہیں مانگ سکتے کہ مزاج یہ بھی اجازت نہیں دیتا۔ محشر بدایونی کا جو شعر ہے:
ہنر کا حق تو ہوا کی بستی میں کون دے گا
اِدھر میں اپنا دیا جلا لوں یہی بہت ہے
اپنے چراغ کا حال بھی یہی ہے۔ میری وابستگی نہ کسی سیاسی جماعت سے رہی نہ اس کے مفادات سے۔ وابستگی صرف ملک سے رہی اور مفادات صرف پاکستان اور پاکستانیوں کے عزیز رہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت آئے‘ پاکستان اور پاکستانیوں کے مفادات کے مطابق کام کرے‘ بسم اللہ۔ شہر کے دروازے سے داخل ہونے والا شخص‘ جس کے سر پر بادشاہ گر ہما بیٹھ چکا ہو‘ سر آنکھوں پر۔ بس ہم میں سے ہو‘ ہمارا خیر خواہ ہو اور ہمارے لیے کام کرے۔ ہمارا مطالبہ اس سے زائد نہیں۔ اور سچ بھی یہی ہے کہ لکھنے والے نے بے غرض تعریف اور تنقید کا مزاج بنا رکھا ہو تو ضمیر رات کو کانٹوں کی سیج نہیں بچھاتا اور نیند اچھی آتی ہے۔
لاہوری ہونے کی وجہ سے پنجاب اور لاہور میں ہونے والے ترقیاتی کام خاص طور پر سامنے آتے رہتے ہیں۔ عثمان بزدار ناکام ترین وزیراعلیٰ تھے۔ ایک دھیلے کا کام نہیں ہوا تھا۔ یہ ناکامی انہیں مقرر کرنے والے وزیراعظم عمران خان کی بڑی ناکامیوں میں سے ایک ہے۔ کراچی اور لاہور ملک کے سب سے بڑے دو شہر ہیں جنہوں نے اپنا سیاسی قبلہ بدل کر خان صاحب کو ووٹ دیا تھا۔ کراچی‘ جو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا‘ وہاں سے پی ٹی آئی کی نمایاں کامیابی بہت بڑی تبدیلی تھی۔ لاہور مسلم لیگ (ن) کا گڑھ تھا۔ یہاں سے پی ٹی آئی کو اتنی بڑی تعداد میں قومی اور صوبائی سیٹیں مل جانا کہ یہ شہر خان صاحب کا شہرتصور ہو‘ بہت بڑی تبدیلی تھی۔ ہوا کا یہی رُخ پورے پنجاب میں تھا۔ لیکن ان دونوں شہروں کے ساتھ خان صاحب نے جو سلوک کیا‘ وہ ناقابلِ تصور تھا۔ وزارتِ عظمیٰ کے حلف کے بعد روایت تھی کہ وزیراعظم کراچی کا دورہ کرتا اور مزارِ قائد پر حاضری دیتا تھا۔ خان صاحب نے شاید ایک سال تک کراچی کا نہ رُخ کیا اور نہ اس کے دیرینہ مسائل کے حل کیلئے کوئی قدم اٹھایا۔ اگرچہ یہ بھی جواز نہیں لیکن کراچی کی حد تک تاویل کی جا سکتی تھی کہ خان صاحب کی حریف جماعت پیپلز پارٹی سندھ کے اقتدار پر قابض تھی‘ سو ان کے بس میں صرف وفاقی اختیارات تھے۔ اگرچہ یہ اختیارات انہوں نے کب اور کیے استعمال کیے‘ یہ بھی ایک سوال ہے۔ لیکن پنجاب میں تو یہ تاویل بھی نہیں۔ پنجاب کا بدترین استحصال ایک نااہل کو وزیراعلیٰ بنا کر کیا گیا۔ ایک ایسے وزیراعلیٰ کی تقرری‘ جس کی پریس کانفرنس میں مشیروں کو لقمے دے کر بات چلانی پڑتی تھی‘ بہت بڑی سیاسی غلطی تھی۔ سیاسی گرداب میں پھنسے تو چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا‘ یہ فیصلہ اگرچہ مجبوری میں کیا گیا لیکن بہتر تھا اور چودھری پرویز الٰہی بطور وزیراعلیٰ بہت سے کام کر سکتے تھے۔ لیکن خود رائی کا بُرا ہو کہ خان صاحب نے ان کے اہم مشوروں پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
اور اب 26 فروری 2024ء سے مریم نواز تختِ لاہور پر براجمان ہیں۔ (ن) لیگ کو ایک بار پھر موقع ملا ہے کہ وہ پنجاب اور لاہور کو اپنا گڑھ بنا لے۔ اس ایک سال میں کئی ایسے ترقیاتی کام شروع ہوئے جن کی طرف سے کئی عشروں کی مجرمانہ غفلت تھی۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں سیاسی تفریق کے بغیر تجاوزات ختم کیے گئے ہیں۔ کئی شہروں میں اہم اور گنجان بازاروں میں ذاتی گاڑیاں ممنوع کرکے الیکٹرک گاڑیوں میں آنے جانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ لاہور اور گوجرانوالہ کی اہم سڑکوں پر موٹر سائیکل لین بنائی گئی ہے۔چند دن پہلے الیکٹرک بسوں کے پہلے روٹ کا افتتاح بھی کیا گیا ہے۔ لاہور میں مختلف طرح کے ترقیاتی کام دیکھنے میں آرہے ہیں۔ کئی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی سنی گئی ہے جن میں غلیظ پانی ہر وقت کھڑا رہتا تھا۔ ان میں نیا سیوریج پائپ ڈالا جارہا ہے۔ پنجاب بھر میں اور بھی کئی قابلِ تعریف کام کیے گئے ہیں جن کی تفصیل ایک تحریر میں مشکل ہے اور جو صرف اعلانات نہیں ہیں۔ اور تو اور مال روڈ کو خوبصورت بنانے میں میرے دفتر کے سامنے کی سروس لین سڑک کی بھی سنی گئی ہے جو کمرشل بلڈنگ کے مقابل مال روڈ جیسی مرکزی سڑک پر ہے اور جس کی پچھلے پچاس سال سے نہیں سنی گئی تھی۔ میں اس سڑک کی حالت پر کئی کالم لکھ چکا تھا۔ کمشنر سمیت کئی عہدیداروں سے مل چکا تھا۔ واسا کے افسروں کو درخواستیں دے چکا تھا۔ سٹیزن پورٹل پر شکایات درج کروا چکا تھا لیکن کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ یہاں بند سیوریج‘ سڑک کی ٹوٹ پھوٹ‘ مشکوک گاڑیوں کی پارکنگ‘ گرین بیلٹ اور سڑک پر رات کے وقت نشہ بازوں کی عمل داری‘ اڈے سے نشے کی پڑیوں کی فروخت اور چوری چکاری سمیت ہر قسم کا مسئلہ موجود تھا۔ میں نے کئی بار اہم عہدیداروں سے کہا کہ یہ وی آئی پی موومنٹ کی سڑک ہے اور دہشت گردی ہر شہر میں ہے۔ ایسے میں سڑک کنارے مشکوک گاڑیوں کی موجودگی خود اس علاقے کے مکینوں کیلئے بھی بہت بڑا خطرہ ہے۔ نیز اس سڑک پر کتابوں کی دکانیں بھی موجود ہیں۔ سامنے پاک ٹی ہاؤس کا ادبی تاریخی کیفے موجود ہے اس لیے اسے بک سٹریٹ بنا دیا جائے جو ہر شہر کا علمی چہرہ ہوتی ہیں۔ معلوم نہیں کسی کالم کا اثر ہوا یا کسی ملاقات کا‘ بہرحال اس سڑک اورگرین بیلٹ پر کچھ ماہ سے اچھا کام جاری ہے۔ کام کے شروع میں متعلقہ انجینئرز سے مل کر انہیں بتایا کہ سیوریج لائن بدلے بغیرسڑک پر کیا گیا کوئی بھی کام برباد ہو جائے گا۔ شروع میں انہوں نے سنی اَن سنی کردی لیکن چند ہی دن بعد بند سیوریج نے اپنے نظارے دکھانا شروع کر دیے تو انہیں مانتے ہی بنی۔ چنانچہ نیا سیوریج ڈال دیا گیا ہے۔ باقی کام ابھی چل رہا ہے۔ عارضی تکلیف اپنی جگہ لیکن بک سٹریٹ بن جائے گی تو اس کی خوشی زیادہ ہے۔ میں تو اس کام کا سہرا اپنی جدوجہد کے سر ہی باندھوں گا جو دس پندرہ سال سے چل رہی تھی اور اب یہ سوکھی شاخ ہری ہونے لگی ہے۔ شہر کے دروازے سے داخل ہونے والا ہر وہ مرد عورت جس کے سر پر بادشاہ گر ہما بیٹھ چکا ہو‘ سر آنکھوں پر۔ بس ہم میں سے ہو‘ ہمارا خیر خواہ ہو اور ہمارے لیے کام کرے۔ ہمارا مطالبہ اس سے زائد نہیں۔ حکومت ہمارا گھر بنا دے۔ بے شک اپنا گڑھ بنا لے۔ بسم اللہ!(بشکریہ دنیا)

متعلقہ خبریں۔

Back to top button