کالم

صدر ٹرمپ کا دعوت نامہ

(خورشید ندیم)

عالمی طاقت کیا ہوتی ہے؟ اگر آپ نہیں جانتے تو صدر ٹرمپ کی تقریبِ حلفِ وفاداری اور اس کے سیاق وسباق پر ایک نظر پھر ڈال لیجیے۔
نومبر سے لوگوں کو اس دن کا انتظار تھا۔ کم وبیش دنیا کا ہر حکمران اور راہنما اس کوشش میں تھا کہ کسی طور اس تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ حاصل کر پائے۔ لابنگ ہو رہی تھی اور لوگ اس کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے تھے۔ ایک دوسرے کو طعنے دیے جا رہے ہیں کہ دیکھو! تمہیں تو ٹرمپ نے گھاس تک نہیں ڈالی۔ جن کو دعوت ملی‘ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے اور جن کو نہیں ملی‘ وہ منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ سنا گیا کہ پاکستان کے کچھ سیاست دان بھی اس کوشش میں تھے کہ دعوت نامہ پیسوں سے ملے تو خرید لیں۔ ان کے خیال میں دنیا میں ہر شے کی ایک قیمت ہے اور اس میں یہ دعوت نامہ بھی شامل ہے۔
کبھی آپ نے سنا کہ صدرِ پاکستان کی تقریبِ حلفِ وفاداری کے لیے بھی عالمی سطح پر اسی نوعیت کی سرگرمی ہوئی ہو؟ پاکستان تو ایک طرف رہا‘ بھارت کے وزیراعظم کی تقریب میں شرکت کے لیے بھی کسی نے گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا؟ امریکہ کا معاملہ سب سے مختلف ہے۔ پاکستان میں اقتدار تک رسائی کا امکان رکھنے والی ہر جماعت پیپلز پارٹی‘ (ن) لیگ اور تحریک انصاف امریکہ میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرتی رہی ہیں تاکہ امریکی انتظامیہ میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو۔ تحریک انصاف امریکہ نے وہاں کے اراکینِ سینیٹ پر سرمایہ کاری کی اور انہوں نے عمران خان صاحب کی رہائی کے لیے قرارداد پیش کی۔ ماضی میں بے شمار واقعات ہیں جو گواہ ہیں کہ کیسے امریکہ نے ہماری سیاست پر اثر ڈالا۔ یہی نہیں‘ پاک بھارت تعلقات کی صورت گری میں اس کا کردار ہے‘ کارگل کے پس منظر میں نواز شریف صاحب کا دورۂ امریکہ یاد کر لیجیے۔
کیا یہ سب لوگ امریکہ کے غلام تھے؟ اگر سب سیاسی جماعتیں امریکی انتظامیہ میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لیے متحرک رہی ہیں اور آج بھی ہیں تو کیا یہ غلامی کی درخواست دے رہے ہیں؟ تحریک انصاف اگر آج عمران خان صاحب کی رہائی کے لیے صدر ٹرمپ سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے توکیا اس لیے کہ پاکستان کو امریکی کالونی بنا دیا جائے؟ اگر بھارتی حکومت اور سیاستدان بھی یہی کرتے ہیں تو کیا وہ بھی امریکی غلامی چاہتے ہیں؟ اس دائرے کو دیگر ممالک تک وسیع کر لیجیے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں شرکت‘ ایک فرد کو اہم بنا دیتی ہے‘ وہ خود کتنا اہم ہو گا؟ صدر ٹرمپ کی تقریبِ حلفِ وفادری دراصل یہ بتا رہی ہے کہ امریکہ جیسی بڑی قوت کیسے عالمی سیاست ومعیشت پر اثر انداز ہو نے کی صلاحیت رکھتی ہے اور کیسے یہ ہر ملک کی مجبوری ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور خوشحالی کے لیے امریکہ سے تعلقات کو خوشگوار بنائے رکھے۔ اسے حکمت کہتے ہیں‘ غلامی نہیں۔ کوئی چھوٹا ملک اس کی ناراضی مول نہیں لے سکتا۔ یہ وہی طاقت کر سکتی ہے جو اس سے ٹکر لینے کے قابل ہے۔ یہ طاقت چین ہے۔ چنانچہ دیکھیے کہ صدر ٹرمپ نے خود چینی صدر کو شرکت کی دعوت دی مگر انہوں نے معذرت کر لی اور اپنی نمائندگی کے لیے کسی کم تر منصب دار کو بھیج دیا۔ یہ چین ہی کر سکتا تھا۔
یہ دنیا میں پہلی بار نہیں ہو رہا۔ ہر عالمی طاقت کو اپنے اپنے دور میں یہی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ایک وقت میں مسلمانوں کی یہی حیثیت تھی۔ لوگ اگر ہندوستان میں اقتدار میں آتے تو اپنی تقرری کا پروانہ بغداد سے حاصل کرتے۔ محمد بن قاسم اگر ہند میں آئے تو کسی سے پوچھ کر نہیں‘ ایک عالمی قوت کے نمائندے کی حیثیت سے۔ انگریزوں کا بھی یہی حال تھا۔ سلطنتوں کے دور میں تو جس کے پاس طاقت ہوتی وہ تلوار کے زور پر اپنا اقتدار قائم کرتا اور کمزوروں کو مفتوح بناتا۔ وہ تو خیر غلامی تھی۔ آج اگرچہ حالات بہت بدل چکے مگر اس کے باوجود آج بھی ان عالمی قوتوں کی مرضی کے بغیر دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔
یہ سب باتیں‘ پڑھنے والوں کے لیے نئی نہیں۔ مجھے یہ توجہ دلانی ہے کہ جب ہمارے سیاسی ومذہبی راہنما عوامی اجتماعات میں ا مریکہ کو برا بھلا کہتے اور پاکستان کے حکمرانوں کو‘ وہ جو بھی ہوں‘ امریکی غلام قرار دیتے ہیں تو عوام کا جذباتی استحصال کرتے ہیں۔ دنیا میں ہر ملک اپنی اپنی سطح پر اس عالمی نظام سے ہم آہنگ ہو کر چلتا ہے۔ جب اس نظام نے غیر ریاستی عناصر کے خلاف اقدام کا فیصلہ کیا تو دنیا کی ہر ریاست کو اس کا ساتھ دینا پڑا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ‘ روس اور چین میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اس پس منظر میں اگر پاکستان جیسا ملک صدر ٹرمپ کے دعوت نامے کی کوشش میں رہا تو اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔
اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ پاکستان جیسی ریاستیں اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کرتیں اور بڑی طاقتوں کی ہر بات مانتی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پاکستان آج ایٹمی قوت نہ ہوتا۔ بڑی طاقتیں بھی سمجھتی ہیں کہ چھوٹی ریاستوں پر ایک حد تک ہی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ اس لیے وہ خود ہی ان کو مواقع فراہم کرتی اور دانستہ بہت سی باتوں سے صرفِ نظر کرتی ہیں۔ نواز شریف صاحب نے ایٹمی دھماکے کرتے وقت صدر کلنٹن کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور ان کی بات نہیں مانی لیکن یہی کلنٹن صدر مشرف سے ان کی جان بخشی کے لیے سفارش کر رہے تھے۔
پاکستان میں اس وقت صرف ٹرمپ کے دعوت نامے کو موضوع بنا کر سوشل میڈیا پرجو دھما چوکڑی مچائی گئی ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے عوام کے شعور کو بلند کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ ایک سیاسی کارکن بالکل نہیں جانتا کہ عالمی سیاسی نظام کیا ہوتا ہے‘ یہ کیسے قائم ہوا‘ اس میں کیسے توازن رکھا جاتا ہے اور عالمی طاقتیں اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے کیا کیا حربے اختیار کرتی ہیں۔ اس کی ذمہ داری‘ ظاہر ہے کہ اس مذہبی اور سیاسی قیادت پر ہے جو امریکہ مخالفت کے نام پر یا اس سے پہلے سوویت یونین کے خلاف قوم کو نعرہ باز بنانے میں برسوں سے مصروف ہے۔ یہ قیادت عام آدمی کو یہ باور کراتی ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کا قتلِ عام رک سکتا ہے اگر حکومتِ پاکستان چاہتی ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک گمراہ کن تصور ہے مگر اسے مارکیٹ کیا جا رہا ہے۔
عام آدمی میں سیاسی بلوغت اسی وقت پیدا ہو گی‘ جب سیاسی جماعتوں کی قیادت اس معاملے میں سنجیدہ ہو گی۔ اس کے ساتھ میڈیا بھی۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر امکان ہے کہ عام آد می کے جذبات سے کھیلنا مشکل ہو جائے گا۔ وہ اس بات سے باخبر ہوگا کہ امریکہ کو للکارنا ایک بے معنی عمل ہے۔ اس کوچیلنج کرنے میں اگر کوئی فی الواقع سنجیدہ ہے تو وہ چین ہے۔ چین میں کبھی امریکہ کے خلاف جلوس نہیں نکلتے لیکن چین کا صدر امریکی صدر کی دعوت پر معذرت کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ اس میں وقار بھی ہے اور اعتماد بھی۔ بین السطور بتایا جا رہا ہے کہ جس دعوت نامے کے لیے لوگ مرے جا رہے ہیں‘ ہمارے لیے زیادہ اہم نہیں۔
یہ سب باتیں مگر کوئی نہیں سمجھے گا۔ یہاں بدستور جذبات کا کھیل جاری رہے گا۔ صدر ٹرمپ کا دعوت نامہ نہیں ملا۔ دنیا کا نظام آگے بڑھ جائے گا اور ہم لکیر پیٹتے رہیں گے۔

متعلقہ خبریں۔

Check Also
Close
Back to top button