کالم

کراچی کے خونی ڈمپر…… سکور 107

(سیدشعیب الدین احمد)

پاکستان میں کرکٹ میلے کی آمد آمد ہے، غیرملکی ٹیمیں پاکستان پہنچ چکی ہیں اور ٹھیک 48 گھنٹے بعد پاکستان میں چیمپیئنز ٹرافی کے میچز شروع ہوجائیں گے لیکن دوسری طرف کراچی میں ایک ”خونی میچ“ یکم جنوری سے کھیلا جا رہا ہے اور اس میچ کا سکور 14 فروری تک 107 ہوچکا ہے۔ یہ سکور چوکوں اور چھکوں کی مدد سے نہیں بنایا گیا بلکہ یہ ”انسانوں کا شکار“ کر کے بنایا گیا ہے۔ اس شکار میں ڈمپروں، ٹینکروں، ٹرکوں اور بسوں نے حصہ لیا ہے۔ ظلم یہ ہے کہ وہ انتظامیہ، وہ پولیس،وہ محکمے اور وہ حکمران جنہوں نے اس خونی شکار کو روکنا تھا، وہ آنکھیں بند کر کے سو رہے ہیں۔ان کا کام صرف زبان ہلا کر کارروائی کا حکم دینا رہ گیا ہے، لیکن کارروائی کون کریگا؟ کارروائی کرنے والے ٹریفک پولیس اہلکار تو ”ٹکے ٹکے“ کے لئے ہر چوک میں بک رہے ہیں۔ سندھ حکومت اور سندھ ہائیکورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہیں کہ ٹینکرز، ڈمپرز، ٹرک صبح 6 بجے سے لے کر رات 11 بجے تک شہر میں داخل نہیں ہوں گے، مگر سچ تو یہ ہے کہ ”بااختیار طاقتور واٹر ٹینکر مافیا المعروف ہائیڈرنٹ مافیا“ اس قدر بااثر ہے کہ کسی پولیس اہلکار میں ان ڈمپروں اور واٹر ٹینکرز کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کی جرأت نہیں۔ عدالت عالیہ سندھ نے اس بارے میں ایک حکم تو جاری کیا ہے کہ ٹرکوں، ڈمپروں کو صبح 6 بجے سے لے کر رات 11 بجے تک شہر میں داخلے کی اجازت نہیں ہے لیکن کیا اس عدالتی حکم پر عملدرآمد چیف جسٹس اور ہائیکورٹ کے دوسرے جج خود سڑک پر کھڑے ہوکر کروائیں گے؟ اس حکم پر عملدرآمد کی ذمہ داری سندھ حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کی ہے، لیکن سب سو رہے ہیں کیونکہ جن کے یہ ڈمپر ہیں وہ خود ”حکومت“ ہیں۔ یہ حکومت میں شامل وہ طاقتور لوگ ہیں جو واٹر ہائیڈرنٹس سے پانی چوری کرکے پورے کراچی میں سپلائی کرتے ہیں، جن کا موقف ہے کہ پانی دن میں ہی تو سپلائی ہوتا ہے رات کو تو نہیں کیا جائے گا۔

کراچی میں انسانوں کے شکار پر حکومت یعنی ”مراد علی شاہ اینڈ کمپنی“، گورنر سندھ کامران ٹیسوری، ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار اور امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا جا رہا۔ ایک دن میں پانچ پانچ، چھ چھ لوگ مر رہے ہیں۔اس طرح اموات کی یہ سنچری مکمل ہوئی ہے۔ سال کے پہلے 35 دن میں 1304 حادثات ہوئے، یعنی37 حادثات روزانہ ہوئے۔ ان 35 دنوں میں 83 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے یعنی دو شہری روزانہ ہلاک ہوئے۔

ان ہلاکتوں کو روکنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ یہ وہی کراچی ہے، جہاں کبھی دہشت گردی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ روزانہ کئی کئی افراد کو سرعام قتل کردیا جاتا تھا، گولیوں سے بھون دیا جاتا تھا۔یہ سلسلہ رکا تو نہیں ہے البتہ کم ضرور ہوا ہے، مگر جاری ہے، البتہ اب اس کی جگہ ان ”ڈمپروں، ٹرکوں، ٹینکروں کی دہشت گردی“ نے لے لی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں اکثریت ان ٹینکروں یا ڈمپروں کی ہے جو افغانستان سے یہاں ”منتقل“ کئے گئے ہیں اور پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ان کی فٹنس کوئی محکمہ چیک نہیں کرتا اور جیسے ہی حادثہ ہوتا ہے ڈرائیور فرار ہوجاتا ہے۔ کچھ مواقع پر لوگوں نے ڈمپر، ٹینکر کو آگ لگانے کی کوشش کی تو وہ پولیس جو حادثات کو روک نہیں سکتی، مگر ”ڈمپروں کے تحفظ“ کے لئے فوری طور پر موقع پر پہنچ جاتی ہے اور ڈمپروں کو اپنی تحویل میں لے کر محفوظ مقام پر منتقل کردیتی ہے اور وہ محفوظ مقام یقینا تھانے کی چاردیواری ہے جہاں سے ان ٹینکروں کو سپرداری پر دوبارہ ”قاتل مالکوں“ کے سپرد کرکے عوام کو کچلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان حادثات کی ایک بڑی وجہ پولیس افسر سڑکوں کے تباہ حال انفراسٹرکچر اور بے ہنگم ٹریفک کو قرار دیتے ہیں۔ہر حادثے کے بعد ٹریفک پولیس افسر تبدیل ہو جاتے ہیں، لیکن یہ پالیسی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہے، کیونکہ چند دِنوں کے بعد ان افسروں کو اسی سیکٹر یا کسی دوسرے سیکٹر میں تعینات کردیا جاتا ہے۔ حکومت سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا حادثے کے بعد گاڑیوں کے روٹ پرمٹ، فٹنس سرٹیفکیٹ، ڈرائیونگ لائسنس چیک کیا گیا؟ یقینا نہیں، ہاں گاڑیوں کی سپرد داری ضرور کی گئی۔ کراچی میں متعدد گاڑیوں کے پاس جعلی فٹنس سرٹیفکیٹ ہیں۔ کیا کسی جعلی فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے افسر، اہلکار کے خلاف کارروائی ہوئی؟ یقینا نہیں۔ ان ٹریفک حادثات پر جب گورنر سندھ کامران ٹیسٹ ٹیسوری نے زبان کھولی اور یہ کہا کہ حکومت نوٹس لے ورنہ وہ خود ان جنازوں میں جائیں گے جو ڈمپروں کے نیچے کچلے گئے تو سندھ حکومت کے طاقتور وزیر سعید غنی نے گورنر پر جملے کسے جس کے بعد گورنر سندھ کو بھی غصہ آیا اور انہوں نے کہا کہ اگر ان قاتل ڈمپروں کو لگام نہ ڈالی گئی تو وہ راست اقدام پر مجبور ہو جائیں گے (تو جناب آپ کو راست اقدام سے روکا کس نے ہے) گورنر سندھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ڈمپروں والے واقعات صرف کراچی میں کیوں ہورہے ہیں؟ (خدا خیر کرے کیا گورنر چاہتے ہیں کہ یہ واقعات باقی شہروں میں بھی ہوں) گورنر سندھ نے ان واقعات کو ”ٹینکر گردی“ قرار دیا۔ یہ ان کا درست کہنا ہے، یہ واقعی ”ٹینکر گردی“ ہی ہے۔ انکا یہ کہنا تھا کہ یہ واقعات دو مہینے سے شروع ہوئے ہیں اور افغانستان سے لائے گئے یہ ٹینکر یہاں کیسے چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آفاق احمد کی گرفتاری میں تو بڑی تیزی دکھائی جاتی ہے۔ ڈمپروں کے معاملے میں تیزی کون دکھائے گا۔ اچھا جواب دیا ہے گورنر صاحب نے کاش صوبے کے یہ ”علامتی سربراہ“ عملدرآمد بھی کروا کے دکھائیں۔ ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار بھی اس حوالے سے بہت دِل جلے نظر آئے۔اُن کا کہنا تھا کہ کراچی لاوارث شہر بن چکا ہے، یہاں جنگل کا قانون لاگو ہے۔ ڈمپر حادثات پر ایکشن نہ لینا حکومتی بے حسی اور مجرمانہ غفلت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو 16 برسوں میں ملنے والے 30 ہزار ارب روپے کہاں گئے، اس رقم کا آڈٹ ہونا چاہئے۔ صوبائی وزیر ایکسائز و ٹیکسیشن مکیش کمار چاولہ نے ایک بہت کمال کا حکم فرمایا ہے، مگر اس پر عمل نہیں ہورہا۔ مکیش چاولہ نے حکم دیا تھا کہ غیرقانونی اور غیر رجسٹر ٹرکوں اور ڈمپرز کو ضبط کیا جائے۔ یہ غیرقانونی ڈمپر انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہے ہیں اور ہم ان کے خلاف ٹریفک پولیس کی مدد سے کام کریں گے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار فرمایا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ ایک زمانہ تھا جب شوہر، بیٹا، بھائی،باپ گھر سے باہر جاتے تھے تو خواتین دُعا کرتی تھیں اللہ تعالیٰ دہشت گردوں سے بچا کر گھر واپس لے آنا کہیں کوئی گولی نہ مار دے۔اب بہنیں، بیویاں، بیٹیاں، مائیں دعائیں کرتی ہیں کہ یا اللہ ہمارا بھائی، ہمارا بیٹا، ہمارا شوہر، ہمارا باپ کسی ”ڈمپر گردی کی نظر“ نہ ہو جائے اور ساتھ خیریت کے گھر واپس آجائے۔

متعلقہ خبریں۔

Back to top button