کالم

چیمپئینز ٹرافی کی میزبانی اور کرکٹ ٹیم کی کارکردگی

(ڈاکٹرسرورحسین)

مجھے دلی ہمدردی ہے ان سادہ لوح پاکستانیوں سے جو اپنی کرکٹ ٹیم کی بھارت سے شکست اور چیمپئینز ٹرافی کے پہلے ہی مرحلے میں ناک آؤٹ ہونے پر دل برداشتہ ہیں اور اس سے بھی زیادہ درد دل ہے ان لوگوں کے لیے جوعرصہ دراز سے اس بے جان اور پژمردہ ٹیم کے ساتھ کسی بھی غیر یقینی کامیابی کی توقع لگائے بیٹھے تھے۔ کم و بیش تین دہائیوں کے بعد اتنے بڑے ٹورنامنٹ کی میزبانی ہمارے حصے میں آئی اور خبروں کے مطابق ریکارڈ ٹائم میں وہ تمام کام سرانجام دئیے گئے جو اس کی تیاری کے سلسلے میں درکار تھے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں ایک ذمہ دار ذریعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس تیاری پر 10 سے 12 ارب روپے خرچ کر دئیے گئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس میں کوئی نیا سٹیڈیم تیار نہیں ہوا بلکہ پہلے سے موجود بنے بنائے گراؤنڈز کی تیاری میں یہ پیسہ جھونک دیا گیا۔ فنانس کے ماہرین کو قطر میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کے اخراجات سے اس کا موازنہ ضرور کرنا چاہیے جہاں ایک بین الاقوامی سطح کا میگا ایونٹ منعقد کیا گیا،دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ اسے دیکھنے کے لیے قطر پہنچے اور انہوں نے بھی ریکارڈ ٹائم میں عارضی سٹیڈیم بنا کر میزبانی کا شاندار ریکارڈ قائم کیا۔ دونوں کے اخراجات کا تخمینہ اور دنیا بھر سے آنے والوں کا موازنہ کیا جائے تو محققین کو بہت سے نئے زاوئیے روشن ہوتے دکھائی دیں گے بلکہ کہیں کہیں تو چودہ طبق بھی روشن ہونے لگیں گے جس کی چھوٹی سی مثال 15 کروڑ کا وہ رنگ و روغن ہے جو سڑکوں پر دنیا کو دکھانے کے لیے کیا گیا جسے بارش کی ایک ہلکی سی پھوہار نے ہی دھو کر پورے نظام کا چہرہ دکھا دیا جو کرپشن اوربددیانتی کی گرد سے اٹا ہوا ہے۔اربوں روپیہ خرچ کر کے ہم اپنے لوگوں کو دوسرے ملکوں کی ٹیموں کے جھنڈے پکڑا کر گراؤنڈ میں لہرانے کا کہہ رہے ہیں کیوں کہ ہماری ٹیم نے ایک بار پھر کرکٹ بورڈ کی عاقبت نااندیشی کو سڑکوں پر لگے روغن کی طرح دھو کر رکھ دیا ہے۔ اتنے بڑے ایونٹ کی میزبانی کے لیے انفراسٹرکچر پر کئے جانیو الے بے دریغ اخراجات میں کمشن مافیا نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ ٹیم بنانے پر بھی توجہ دینی تھی جس کی طرف سرے سے کسی کا دھیان ہی نہیں۔ لاکھوں روپے لینے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی ایک عرصے سے پور ی قوم کے لیے شرمندگی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ایسے ایسے کھلاڑی، کوچ اور مینجمنٹ اس ٹیم کو ایک تسلسل سے میسر آ رہے ہیں جن کی سوائے پیسہ بنانے اور لٹانے کے کوئی کارکردگی کم از کم پچھلے کئی سالوں سے تو سامنے نہیں آ سکی۔ نہ کوئی نیا اور قابل توجہ ٹیلنٹ سامنے آ سکا، نہ پہلے سے موجود لوگوں کے مزاج اور رویوں میں کوئی تبدیلی آ سکی۔ باؤلنگ کوچ اظہر محمود کی بات کریں تو ان کی انٹرنیشنل کرکٹ میں پرفارمنس پر کون سا ایسا ریکارڈ ہے جس کی بنیاد پر اتنی بڑی ذمہ داری کے اہل بنا دئیے گئے۔عاقب جاوید بھی بہت اہم عہدے پر براجمان ہیں اور انڈیا کے میچ سے پہلے انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم دیکھیں کیسا سرپرائز دیں گے جو پوری قوم نے دیکھا۔ معین خان کے ہوتے ہوئے ان کے دنیا کے سب سے وزنی صاحبزادے اعظم خان کی جسامت کی ہر طرف دھوم تھی جو انٹرنیشنل کرکٹ تو چھوڑئیے کسی ڈومیسٹک کرکٹ کے فٹنس معیار پر ہی پورا نہیں اترتے تھے لیکن انہیں زبردستی گھسائے رکھا گیا۔ انضمام الحق کے عزیزی امام الحق جو اس وقت کرکٹ کی دنیا میں سب سے بڑے نمبر کی عینک لگانے میں پہلے نمبر پر ہیں انہیں اہم ترین میچ میں نہ صرف شامل کیا گیا بلکہ حیران کن طور پر اوپن بھی بھجوایا گیا اور انہوں نے کیمرے کے سامنے رہنے کا کافی دیر بھرپور مظاہرہ کیا۔ کپتان کی بات کریں تو ان کی بزدلانہ بیٹنگ اور زمینی حقائق سے نابلد آن گراؤنڈ فیصلوں پر انہیں داد دینا بنتی ہے کہ وہ اس کا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اکیلے بابر اعظم پر پوری ٹیم کا بوجھ لاد کر اُس کی کارکردگی اور صلاحیت کو بھی داغدار کر کے سارا ملبہ اسی پر ڈال کر اصل ذمہ داران جوں کے توں مراعات کی گنگا میں ڈوبے رہنا چاہتے ہیں، جس طرح کی لیموزین میں ہمارے چیئرمین اور سیاسی قیادت کے نمائندگان اور ان کی اولاد میچ دیکھنے کے لیے آئے اس کے آئینے میں ہمارے پورے نظام اور اشرافیہ کے مزاج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سیکورٹی کے جس سخت ترین حصار میں ہم یہ میچز کروا رہے ہیں اس سے دنیا کو ہمارے معاشرے اور اور ملکی فضا کا کیا میسج جا رہا ہے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں پورا شہر جس ذہنی و نفسیاتی اذیت کا شکار ہو رہا ہے اس کی تو بات ہی نہ کی جائے کہ یہاں کے رہنے والوں کی تکلیف کا احساس کس کو اور کیوں ہو گا۔ ہماری ٹیم کھیلتے ہوئے جس بزدلی اور خوف میں دکھائی دیتی ہے ایسوں کو کبھی فائٹ کرنا سکھایا ہی نہیں جا سکتا۔ کھلاڑیوں کی باڈی لینگوئج اور ان کے چہروں پر ایک ویرانی دکھائی دیتی ہے جس کا اظہار میچ کے شروع سے ہی ہو جاتا ہے۔ ہمارے اندر مقابلہ کر کے ہارنے کی صلاحیت بھی نہیں رہی جیتنا تو دور کی بات۔کبھی کبھار کسی غیر یقینی صورت حال سے جیت میسر آ بھی جائے تو ہم اسے تبدیلی سمجھ لیتے ہیں جو روغن کی طرح اگلے ہی میچ میں اُتر جاتی ہے۔انڈیا سے ہاراب اتنی بار ہو چکی کہ انہیں اب اپنی جیت بھی معمول کی بات لگنے لگی ہے اور شاید ہم قوم کو اسی طرح کی ناکامیوں کا عادی بنانا چاہتے ہیں۔پوری قوم کو بارش کی صورت ملنے والا ایک پوائنٹ مبارک۔

متعلقہ خبریں۔

Check Also
Close
Back to top button