کالم

معدنی خزانے اور ترقی کی منزل

(عمران یعقوب خان)
یہ فقرہ ہم لوگوں کے منہ سے اکثر سنتے اور مضامین میں وافر پڑھتے ہیں کہ ہمارے ملک کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے۔ یہاں اعلیٰ معیار کی گندم‘ کپاس‘ چاول اور دالوں کی پیداوار کثرت سے ہوتی ہے۔ یہاں آم‘ کینو‘ امرود‘ جامن‘ سیب‘ تربوز اور دیگر لذیذ‘ عمدہ اور خوش ذائقہ پھل بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان کپاس کی پیداوار میں دنیا بھر میں پانچویں‘ گندم میں آٹھویں‘ گنے میں نویں‘ چاول میں چودہویں‘ آم میں پانچویں‘ کھجور میں ساتویں اور کینو میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ ہم پاکستانی ہر سال سردی‘ گرمی‘ خزاں اور بہار یعنی چار موسموں سے مختلف انداز میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔ معتدل موسم انسانی زندگی کے لیے کیا اہمیت و افادیت رکھتے ہیں‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یورپ میں سال کا زیادہ حصہ برف باری ہوتی رہتی ہے اور لوگ مسلسل ٹھنڈے اور مرطوب موسم سے اُکتا جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ذرا بادل چھٹتے ہیں اور سورج نکلتا ہے تو لوگ پکنک منانے دوڑ پڑتے ہیں۔ ہمارا ملک قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ یہاں خوبصورت وادیاں ہیں‘ سر سبز میدان ہیں اور برف سے ڈھکے ہوئے بلند و بالا پہاڑ ہیں‘ یہاں میلوں تک پھیلے صحرا اور گہرے سمندر ہیں‘ یہاں ندیاں ہیں اور دریا بھی ہیں۔ ہمارے ملک میں گہری‘ بڑی اور قدرتی بندرگاہیں بھی ہیں جو عالمی سطح کی درآمدات و برآمدات میں ہمارے لیے معاون ہیں۔ یہاں قدرتی جنگلات ہیں اور وسیع زرعی رقبہ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کو پروردگار عالم نے معدنی ذخائر کا ایک بڑا خزانہ بھی عطا کر رکھا ہے۔ ایسا خزانہ جسے اگر بروئے کار لایا جائے تو عوام اور ملک کے دلدر دور ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں منرلز انویسٹمنٹ فورم کے انعقاد کا مقصد ملک کے معدنی ذخائر کی کان کنی کیلئے غیرملکی سرمایہ کاری تلاش کرنا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے فورم سے خطاب میں کہا کہ بلوچستان‘ سندھ‘ خیبر پختونخوا‘ گلگت بلتستان اور کشمیر میں معدنیات کے کھربوں ڈالر مالیت کے ذخائر ہیں جن کو نکال کر قرضوں کے پہاڑ سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے چین‘ امریکہ اور یورپ کو پاکستان کی معدنیات میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کیلئے فائدے کا سودا ہے کہ وہ پاکستان سے معدنیات نکالیں اور خام مال حاصل کریں۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان عالمی معدنی معیشت میں ایک رہنما ملک کے طور پر ابھرنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے وسیع معدنی وسائل‘ تربیت یافتہ افرادی قوت اور شفاف پالیسیوں کی بدولت معدنی شعبے میں بے پناہ امکانات موجود ہیں جن سے اجتماعی قومی ترقی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا: ہم بین الاقوامی اداروں کو خوش آمدید کہتے ہیں کہ وہ اپنی مہارت سے پاکستان کو روشناس کرائیں‘ سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کریں اور وسائل کی وسیع صلاحیت کی ترقی میں ہمارے ساتھ شراکت داری کریں۔
حکومت اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہو سکی؟ اس کا جواب تو اگلے چند ماہ میں معدنیات کے شعبے میں ہونے والی سرمایہ کارانہ پیش رفت سے مل جائے گا لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ حکومت سرمایہ کاری کے راستے میں پڑنے والی محکمانہ رکاوٹوں کو دور کرنے میں کامیاب ہو سکے گی؟ یہ بات کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ ماضی میں بھی ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جاتی رہی ہے۔ لوگ سرمایہ کاری کیلئے آتے بھی رہے لیکن یہاں کے محکمانہ مسائل اور رکاوٹوں کی وجہ سے جلد ہی تائب ہو جاتے رہے ہیں۔ پاکستان میں بے انتہا معدنیات موجود ہیں‘ اس کے باوجود پاکستان غریب اور متوسط ممالک میں اس لیے شمار ہوتا ہے کہ وہ ان معدنیات کو نکالنے‘ ان کی تلخیص کرنے اور ان کو بروئے کار لانے کے قابل نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی غریب کی جھونپڑی کے نیچے سونے کا خزانہ ہو اور اس کے باوجود وہ غربت کی زندگی بسر کر رہا ہو‘ صرف اس لیے کہ وہ اس خزانے کو نکالنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اس مسئلے کا بہترین حل یہی ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کو دعوت دی جائے جو یہ خزانہ نکالنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ وہ اس خزانے میں سے اپنا حصہ تو وصول کریں گے لیکن یہ اس سے بہتر ہے کہ خزانہ بغیر استعمال کے دفن رہے۔ کچھ تو ملے گا۔
ایسا نہیں کہ حکومت کو زیر زمین چھپے بیش قدر معدنی ذخائر کا حال ہی میں علم ہوا ہو۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے پہاڑی سلسلے اور پنجاب و سندھ کے کچھ میدانی علاقے قیمتی دھاتوں سے اٹے پڑے ہیں اور یہ حقیقت دہائیوں سے سب کے علم میں ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ معدنیات کے ان خزانوں کو نکالنے اور بروئے کار لانے کیلئے باقاعدہ ایک ادارہ قائم کیا جاتا جو آہستہ آہستہ لیکن مسلسل آگے بڑھتے ہوئے آج اس قابل ہو چکا ہوتا کہ دھاتوں کی کان کنی اور کچ دھاتوں میں سے اصل دھاتیں کشید کرنا ہمارے لیے مشکل نہ رہتا‘ لیکن چونکہ اس معاملے کی طرف مناسب توجہ نہیں دی گئی اس لیے ہم معدنیات کو نکالنے اور ان کو Purify کرنے کیلئے دوسروں کے مرہونِ منت ہیں۔ ویسے بھی آج کی دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے جس میں کوئی ملک دوسرے سے تعلقات بنائے بغیر یعنی الگ تھلگ اور اکیلا نہیں رہ سکتا۔ اس لیے میرے خیال میں منرلز انویسٹمنٹ فورم کا انعقاد اس سلسلے میں آگے بڑھنے کے لیے ایک اہم پیش رفت اور ایک بڑا قدم ہے۔
پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے مطابق ملک کے ناہموار علاقوں یعنی پہاڑی علاقوں میں چھ ہزار ارب ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔ گزشتہ ماہ سامنے آنے والی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان کے معدنی وسائل تقریباً چھ لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہیں اور ملک میں 92معدنیات کی نشان دہی ہو چکی ہے جن میں سے 52تجارتی پیمانے پر نکالی جا سکتی ہیں‘ اور سالانہ اندازاً 68.52ملین میٹرک ٹن معدنیات حاصل کی جا رہی ہیں۔ یہ شعبہ پانچ ہزار سے زائد فعال کانوں‘ 50ہزار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو سہولت اور تین لاکھ افراد کو روزگار بھی مہیا کرتا ہے۔ اگر غیرملکی تعاون سے معدنیات نکالنے کے عمل کو تیز کر لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ چند ماہ میں پاکستان ملکی و غیر ملکی قرضوں سے نجات نہ حاصل کر لے اور غذائی خود کفالت کی منزل نہ پا لے اور جی ڈی پی اور فی کس آمدنی میں واضح اضافوں کے ساتھ ترقی پذیر کی کیٹگری سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہ ہو جائے۔ باقی سارے عوامل اور مظہر تو موجود ہیں‘ کمی ہے تو صرف اور صرف صادق جذبوں کی۔ حکومت اگر صادق جذبوں کی یقین دہانی کرا دے تو باقی ساری رکاوٹیں خود بخود دور ہوتی جائیں گی‘ مجبوریوں اور رشوت و کرپشن کے قفل خود بخود ٹوٹتے چلے جائیں گے۔
مجھے یاد ہے فروری 2015ء میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں سونے‘ تانبے اور لوہے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ سرکاری بیان کے مطابق وہ ذخائر اٹھائیس مربع کلومیٹر رقبے پر محیط تھے جبکہ تقریباً مزید دو ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے میں اسی قسم کے ذخائر ملنے کی توقع ظاہر کی گئی تھی۔ اس کے بعد ان ذخائر کا کیا بنا شاید کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ توقع کی جاتی ہے اس بار ماضی کو دہرایا نہیں جائے گا اور قومی معدنیاتی خزانے قومی ترقی کیلئے استعمال کیے جائیں گے۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button