دوسری قسم کی دہشت گردی
(سکندرخان بلوچ)
سابق وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ڈاکٹر میاں محمد نواز شریف صاحب نے ایک دفعہ پھر زور دے کر فرمایا تھا کہ’’ دہشت گردی کے خلاف ہم نے جنگ ہر صورت جیتنی ہے‘‘ بالکل بجا فر مایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے یہ جنگ ہر صورت جیتنی ہے لیکن جیتیں گے تو تب جب آپ دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑیں گے تو۔ تا حال تو دہشتگر دہی جنگ لڑ رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کو لہولہان کر رکھا ہے۔ ہم تو دہشتگردی کی اس منافقانہ جنگ میں صرف بطور ایندھن استعمال ہو رہے ہیں۔ ہر سانحہ کے بعد لاشیں اٹھاتے ہیں۔ چند دن سانحہ کے خلاف شور مچاتے ہیں۔ حکمرانوں کے خوش کن اور لہوگر مانے والے بیانات سنتے ہیں اور پھر اپنے پیاروں کو عمر بھر رونے کے لئے صبر شکر کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی جب حکمرانوں کو رحم آتا ہے تو چند لاکھ بھیک کے طور پر بھی متاثرین کو دے دیئے جاتے ہیں۔ یہی وزیر اعظم صاحب کی جنگ تھی۔ اگر بیانات سے جنگ جیتی جا سکتی تو یقینا اب تک ہم دہشتگردوں کو ملیا میٹ کر چکے ہوتے۔ ہم فاتح عالم بن چکے ہوتے لیکن ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا۔
اس سلسلے میں جناب چھوٹے میاں صاحب یعنی موجودہ وزیراعظم بھی انگلی ہلا ہلا کر فرماتے ہیں: ’’دہشت گردی کے ناسور کو شکست دیئے بغیر آرام سے نہیں بیٹھیں گے کیونکہ اس ناسور کو شکست دیئے بغیر ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس بیان کی عظمت اور حکمرانوں کے خلوص میں بھی یقینا کوئی شک نہیں مگر یہ حقیقت میاں صاحب کو کون بتائے کہ جناب موجودہ شاندار گورننس کے دور میں کوئی بد بخت ہی ہوگا جو مزید ترقی کے خواب دیکھے گا۔ ہم عوام تو پہلے ہی گڈ گورننس کی چھتری تلے پس رہے ہیں۔ بجلی گیس سے مکمل فراغت ہے ۔کبھی کبھی صرف دیکھنے کوملتی ہے تا کہ عوام کو یاد رہے کہ موجودہ دور میں کوئی بجلی اور گیس نام کی چیز بھی ہوا کرتی تھی۔ روز مرہ کی ضروریات زندگی اس بلندی پر پہنچ گئی ہیں جہاں انہیں دور سے دیکھا جا سکتا ہے خریدا نہیں جاسکتا۔ عوام ترقی کے خواب بھلا کیا دیکھیں اُن کے لئے تو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وہ زندگی کی جنگ لڑیں یا دہشت گردی کے خلاف لڑیں۔ ہاں البتہ اشرافیہ کی ترقی اور بات ہے۔ میاں صاحبان کی شاندار گورننس کی چھتری تلے اشرافیہ خوب پھل پھول رہی ہے۔ شاندار ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اگر جناب عمران خان کے بیانات میں کچھ سچائی ہے تو اُن کے مطابق میاں صاحبان اور زرداری صاحب کے امریکہ، یورپ اور خلیجی ممالک میں نہ صرف بنک اکاؤنٹ ہیں بلکہ وسیع جائیدادیں بھی ہیں اور زیورات بھی وہاں محفوظ ہیں جو بظاہر لوٹ مارسے بنائے گئے ہیں۔ پاکستانی اشرافیہ جن میں میاں صاحبان اور زرداری صاحب شامل ہیں بہت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ اب تک 43 کھرب روپے خلیجی ممالک کے مختلف شہروں میں بھیجے جاچکے ہیں جہاں اشرافیہ نے جائیدادیں خریدی ہیں اور اب خلیجی ممالک میں پاکستانی اشرافیہ دوسری بڑی دولت مند اور پراپرٹی ہولڈر کمیونٹی بن چکی ہے۔ ایک خبر کے مطابق دس ارب روپے روزانہ کراچی سے ہونڈی کے ذریعے خلیجی ممالک منتقل کئے جارہے ہیں اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ حکمران دولت کے اس انتقال سے نہ صرف بخوبی واقف ہیں بلکہ شریک جرم بھی ہیں۔ ایک خبر کے مطابق دوبئی کے ایک بنک نے حال ہی میں پریشان ہو کر حکومت پاکستان سے رابطہ کیا ہے کہ ایک خاص اکاؤنٹ (ایک ہی نام اور ایک ہی ولدیت) میں روزانہ کثیر سرمایہ جمع کرایا جارہا ہے جو ممکن نہیں۔ پتہ چلا کہ یہ اکاؤنٹ ایک صوبائی وزیر کا ہے۔ حکومت نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کرنا بہتر سمجھا۔ اشرافیہ نے سوئس بینکس میں 859.7 ملین امریکی ڈالرز جمع کرالئے ہیں۔ یہ سب غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے جسے حکومتی دہشتگردی کے ذریعے لوٹا جارہا ہے۔ اس دہشت گردی کے کئی رخ ہیں۔
یہ تو رہا حکمرانوں کی دہشتگردی کا ایک انداز اب آتے ہیں ملک کے اندرونی حالات کی طرف جہاں اسوقت سینٹ الیکشن کا شور ہے۔ بولی 40 کروڑ فی سیٹ تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت نے اپنے ممبر ان کو اس سیٹ پر الیکشن لڑنے کے لئے 12.5 ارب روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر مہیا کئے ہیں۔ ظاہر ہے عوامی کمائی بیدردی سے الیکشن جیتنے کے لئے لٹائی جا رہی ہے۔ اگر اس رقم کا 10 سے 20 فیصد بھی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہو تو عوام کی خوش قسمتی ہوگی مگر ایسا نہیں ہوگا۔ یہ سارا پیسہ راستے میں ہی ہضم ہو جائیگا۔ یہ حکومتی دہشتگردی کا دوسرا رخ ہے۔ تیسر ا رخ میگا حکومتی منصوبے ہیں جن میں بڑی بڑی رقومات کک بیکس کی صورت میں آتی ہیں مثلاً کراچی پولیس کیلئے بکتر بند گاڑیوں کی خرید ہے جو ایک غیر معروف ملک کی غیر معروف کمپنی سے 5 کروڑ کی بجائے 17 کروڑ میں خریدی گئی تھیں۔ یعنی 12 کروڑ روپے فی گاڑی تک کک بیک اور یہ کل 39 گاڑیاں ہیں۔ اس طرح میٹروبس کا معاملہ ہے جو عام مارکیٹ ریٹ سے 2 سو گنا زیادہ قیمت پر تعمیر کی گئی ہے اور مزید تعمیر کی جارہی ہے۔ یہ نقصان بھی عوام کے کندھوں پر۔ اس طرح کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
دہشتگردی کی چوتھی قسم ہمارے ممبران کی مراعات وزراء اور مشیران کی تعداد ہے۔ ہمارے ممبران نے چونکہ اپنی مراعات خود بڑھانی ہوتی ہیں اور اس معاملہ میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف سب ایک ہیں۔ قوم کی مزید بدبختی یہ ہے کہ پچھلی حکومت جاتے جاتے یہ مراعات تاحیات دینے کا قانون پاس کر گئی۔ کرلے قوم جو کچھ کرسکتی سے ہے۔ پھر تعداد کے لحاظ سے بھی ہمارے حکمرانوں نے ملک کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
حکمرانوں کی کروڑوں بلکہ اربوں روپے کی ذاتی پبلسٹی ہے جسکی کوئی حد مقرر نہیں۔ آخر میں اور سب سے اہم اس دہشت گردی کا ایک رخ ہمارے نا اہل اور کرپٹ سرکاری اہلکار ہیں جنہوں نے اپنے انداز میں عوام کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔ معزز قارئین! دہشتگردوں کی دہشت گردی سے ہماری فوج نبٹ رہی ہے اور انشاء اللہ وہ کامیاب بھی ہوگی۔ پوری قوم کی دعا ئیں اور تعاون فوج کے ساتھ ہے لیکن اس دوسری قسم کی دہشتگردی کا کیا کیا جائے جس کے بوجھ تلے ہم سب پس رہے ہیں اور مقابلہ بھی نہیں کیا جا سکتا نہ ہی حکمرانوں کے دلوں میں رحم ہے۔ کہتے ہیں حکمران قوم کا باپ ہوتا ہے اور کوئی باپ اپنی اولاد کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا مگر نہ جانے یہ کیسے باپ ہیں جو قوم کی آخری پونجی تک لوٹ کر خوش ہوتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے حقیقی لیڈر کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ فتح کے موقعہ پر وہ ہمیشہ پیچھے رہتا ہے تا کہ دوسرے آگے آئیں اور اگر مرحلہ خطرناک ہو تو اپنی چھاتی سب سے آگے رکھتا ہے‘‘ لیکن نیلسن منڈیلا ایسا کہہ سکتے ہیں۔ ہم پاکستانی ہرگز نہیں۔ ہمارے قائد تو ’’مال غنیمت پر سب سے پہلے جھپٹتے ہیں اور سر کٹانے کا مرحلہ در پیش ہو تو اُن کے پاس بے شمار احمقوں کے سر ہر دم موجود ہوتے ہیں۔‘‘ پاکستان زندہ باد!۔بشکریہ نوائے وقت۔