الیکٹرک بس تحفے کا شکریہ
(ڈاکٹرصغرا صدف)
عزیزہ عظمیٰ بخاری جب مریم نواز کی پنجاب حکومت کے ایک سال کی کارکردگی کے حوالے سے چھپنے والی کتاب میں سے مختلف منصوبہ جات کی تصاویر دکھا کر بات کر رہی تھی تو اسکے لب و لہجے اور چہرے پر چمکتا شادمانی کا احساس اور اعتماد اس بات کا عکاس تھا کہ اسے زبانی کلامی کہانیاں نہیں سنانی پڑ رہیں بلکہ اپنے ہر دعوے کیلئے عملی طور پر موجود منصوبے کی گواہی حاصل تھی۔ بات صرف افتتاح اور کاغذی کارروائی تک نہیں تھی۔ پورے زور و شور سے رواں دواں کارکردگی کی تھی۔ سارے منصوبے اپنی جگہ اہمیت کے حامل تھے لیکن مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ الیکٹرک بسوں کی لاہور سمیت پنجاب کے بڑے شہروں کو فراہمی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ منصوبہ ایک تحفے کی طرح محسوس ہوا، شاید اسلئے کہ ایک عرصے سے میں لاہور میں اس طرح کی پبلک ٹرانسپورٹ کے خواب دیکھ رہی تھی۔ جب کبھی ملک سے باہر جانا ہوتا ہے تو وہاں بسوں میں سفر کر کے جو ایک عجیب سی خوشی اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے وہ میں اپنے ملک کے شہروں میں بھی دیکھنا چاہتی تھی، اسلئے میں نے بارہا برسراقتدار کی توجہ کا در کھٹکھٹایا، ایسی ٹرانسپورٹ کی فراہمی کیلئے کئی کالم لکھے، سیمینارز میں بات کی، سوشل میڈیا پر پیغامات بھیجے ، مگر شنوائی نہ ہوئی، حکومتیں اور معاملات میں اْلجھی رہیں اور یہ ایک بنیادی مسئلہ نظر انداز کرتی رہیں جس کیساتھ کئی دیگر مسائل کا حل بھی منسلک تھا۔ہر بار میری صدا مجھ تک لوٹ کر چلی آئی مگر میں نے خواب دیکھنا ترک کیا نہ یہ آس چھوڑی کہ لاہور میں کبھی ٹرانسپورٹ کا جدید نظام دیکھوں گی، جب یہ اعلان اور ٹیلیویژن پر بسوں کا دیدار ہوا تو میرے خواب کو سچ کرنے والی کیلئے حرفِ دعا خود بخود دل کی ریل پر پڑی تسبیح کے گرد جمع ہونے لگے، آلودگی، شور اور بے ہنگم ٹریفک کے کرب میں افسردگی اور بے یقینی کے مارے دل سے بےساختہ قہقہہ برآمد ہوا تو بہار رت کی آمد کے سندیسے جیسا لگا، یقین کیجئے لاہور سمیت پنجاب کے بڑے شہروں میں مختلف سہولیات سے آراستہ جدید بسیں چلانا وہ پہلا قدم ہے جس کیساتھ کئی خوشخبریاں جڑی ہوئی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ لاہور اور لاہوریوں کا جس آلودگی کے باعث دم گھٹنے لگا ہے اسکی بڑی وجہ گاڑیوں کا دھواں ہے، جس نے نہ صرف در و دیوار کی ظاہر کی خوبصورتی کو شدید متاثر کیا بلکہ اندر بھی میلا کرکے صحت کے مسائل پیدا کئے، یقیناً اب ان سے نجات ملے گی۔ سڑکوں پر ٹریفک کا ہجوم اور شور کم ہوگا۔ حادثات کی روک تھام ہوگی۔میرے نزدیک اس کا سب سے بڑا فائدہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم میسر ہونے کا ہے، ہم سب اپنی اپنی کاروں میں محدود ہوکر دراصل دائروں میں مقید ہو چکے ہیں۔ ہمارا زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے رابطہ اور واسطہ کم ہونے کی وجہ سے ہمارے درمیان ایک مضبوط خلیج حائل ہوتی جا رہی ہے، ہم ایک معاشرے کا حصہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے لاتعلق ہیں، اجنبیت کا یہ عالم ہے کہ ہم ایک دوسرے کی رائے اور مسائل سے یکسر بے خبر ہیں۔ انسانوں کو تقسیم کرنیوالی یہ دوری کئی حوالوں سے خطرناک ہے۔ جب مختلف روٹس پر شاندار رویوں اور سہولیات سے آراستہ بسیں موجود ہونگی ہم بسوں میں سفر کو ترجیح دیں گے تو پھر ہمیں وہاں ایک سینٹری ورکر، نرس دیہاڑی دار، سرکاری ملازم، خاتون خانہ اور طالبعلموں سے ملنے کا موقع ملے گا ،ہم سفر کے دوران ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کریں گے، ایک دوسرے کو حوصلہ دیں گے، مشورہ دینگے، جانیں گے سیکھیں گے کہ کن محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس پر لکھیں گے، یگانگت، اجتماعی مسرت کا احساس اور ذمہ داری ہمیں مقصدیت سے جوڑے گی۔ ابھی لاہور میں ان بسوں کا روٹ ریلوے اسٹیشن سے گرین ٹاؤن تک ہے، لیکن میں اس دن کا انتظار کر رہی ہوں جب یہ بسیں لاہور کے مختلف علاقوں سے سفر ِآغاز کریں گی اور میں اس بس پر بیٹھ کر مختلف پروگرامز میں شرکت کیلئے جا سکوں گی ، لوگوں سے بات کر سکوں گی، مریم نواز نے جمہور کیلئے اس طرح کے اقدامات کرکے جمہوریت پر لوگوں کا ایمان مضبوط کیا ہے اور بطور عورت ہم سب کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ بہت شکریہ۔