پنجاب حکومت اور تجاوزات
(امیر حمزہ)
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی بھلائی اور خیر کے کام ممکن ہوتے ہیں۔ وطن عزیز میں تجاوزات مافیا کی سرکوبی ناممکن بن چکی تھی مگر پنجاب حکومت نے ناممکن کو ممکن بنانا شروع کر دیا ہے۔ میں پنجاب کی سڑکوں‘ راستوں اور شہروں میں اپنی آنکھوں سے اس ناممکن کو ممکن ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ مجھے چونکہ اپنے دعوتی پروگراموں کے سلسلے میں بہت زیادہ سفر کرنا پڑتا ہے لہٰذا اپنے تجربے کی حد تک یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی شہر یا علاقہ تجاوزات سے پاک نہیں ہے۔ آئے دن تجاوزات کی وجہ سے سڑکوں پر حادثات بھی دیکھتا ہوں۔ وقت کے برباد ہونے پر تکلیف اٹھاتا ہوں‘ لہٰذا تجاوزات کے خلاف مہم پر مجھے خوشی اس لیے بھی ہے کہ اچھی سڑکوں اور کھلے راستوں کی وجہ سے اب وقت بچے گا تو ملک آگے بڑھے گا۔ انسانی زندگیوں کو محفوظ بنانا‘ حادثات کے خدشات کو کم سے کم کرنا بہت بڑی انسانی خدمت ہے۔ راستوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں‘ ان حقوق کی پامالی بہت بڑا ظلم ہے۔
امام محمد بن اسماعیل البخاریؒ نے اپنی ‘ صحیح بخاری‘ میں ایک باب کا نام ” کتاب المظالم والغصب‘‘ رکھا ہے۔ اس میں عوامی راستوں پر قبضے کو ظلم اور غصب کرنا بتایا گیا۔ جو ایسا کرے گا وہ قیامت کے دن سات زمینوں تک کے طوق کو سر پر اٹھائے دہائیاں دے رہا ہوگا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! میری مدد فرما دیجیے۔ فرمایا: میں کوئی مدد نہیں کروں گا۔ لوگو! راستے پر قبضہ کرنا لوگوں کے حق کا غصب ہے۔ مرتے ہی اس کا حساب دینا پڑے گا۔ جو حکومت غاصب سے یہ حق واپس نہیں لیتی اور عوام کو اس کا حق واپس نہیں دلاتی‘ اللہ کے ہاں اسے بھی جوابدہ ہونا پڑے گا۔ لہٰذا پنجاب حکومت عوام کے حق کو واگزار کرا رہی ہے تو اپنا فریضہ ادا کر رہی ہے۔
حدیث شریف کی کتاب ”سنن ابودائود شریف‘‘ کی ”کتاب القضاء‘‘ میں ہے: حضرت ابوہریرہؓ بتاتے ہیں کہ راستے (کی چوڑائی) کے بارے میں جھگڑا ہو جائے تو اللہ کے رسولﷺ کا فیصلہ ہے کہ راستہ سات ہاتھ (ذراع) چھوڑنا ہوگا۔ یاد رہے! درمیانی انگلی کے پور سے لے کر کہنی تک کی لمبائی کو عربی میں ”ذراع‘‘ کہتے ہیں‘ اور اردو میں اس لمبائی کو ‘ہاتھ‘ کہا جاتا ہے۔ سات ہاتھ آج کے مروج پیمانے میں تقریباً گیارہ فٹ بنتے ہیں۔ یعنی جب اونٹوں گھوڑوں کے راستے ہوا کرتے تھے‘ بگھی اور گڈے وغیرہ نہیں ہوا کرتے تھے‘ تب گیارہ فٹ کا راستہ لازم کیا گیا تھا۔ اگر راستوں پر صرف تانگوں اور گڈوں نے چلنا ہو تو 44 فٹ راستہ لازم ہے۔ آج کا زمانہ تیز رفتار بھی ہے اور کاروں‘ ٹرکوں اور بسوں بلکہ ٹرالوں کا زمانہ ہے۔ لہٰذا تین سے چھ لین کا ون وے ضروری ہے۔ ٹریفک زیادہ ہے تو اس سے بھی زیادہ۔ امریکہ میں تو بارہ لین کا موٹروے بھی موجود ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں موٹروے کا کلچر نواز شریف کے دور میں شروع ہوا تھا۔ یہ نہ ہوتا تو ہم آج رینگ رینگ کر چلتے اور پھر سڑکوں پر ہی غصے میں مبتلا ہو کر لڑتے مرتے رہتے۔ حقیقت یہ ہے ہماری سڑکوں اور راستوں کو وسیع ہونا چاہیے۔ سیالکوٹ موٹروے دو لین پر مبنی ہے۔ ابھی یہ مکمل نہیں ہوئی تھی کہ تنگ دامانی کا شکوہ ہونے لگ گیا ہے۔ ہمیں وسعتِ قلبی کے ساتھ آئندہ سو سالوں کی پلاننگ کو سامنے رکھ کر اپنی اولادوں کے لیے اور اولادوں کی اولادوں کے لیے سڑکیں بنانا ہوں گی۔ مستقبل میں آنے والی اپنی نسلوں کو سامنے رکھ کر پلاننگ کریں گے تو یہ پلاننگ صدقہ جاریہ بن جائے گی۔
”سنن ابودائود، کتاب الجہاد‘‘ میں ہے: حضرت معاذ بن انسؓ بتاتے ہیں کہ میں ایک غزوہ میں اللہ کے رسولﷺ کے ہمراہ تھا۔ (راستے میں ایک جگہ پڑائو کیا) تو لوگوں نے خیمے لگانے کی جگہوں میں تنگی کر دی اور خیموں کے راستوں کو بھی نہ چھوڑا۔ اللہ کے رسولﷺ کو اس صورتحال کا پتا چلا تو آپﷺ نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا جو اعلان کر رہا تھا: جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے (یعنی راستہ نہیں چھوڑے گا) یا راستے پر خیمہ لگائے گا تو اس کا کوئی جہاد نہیں۔ قارئین کرام! یہاں ایک لمحے ٹھہر کر ذرا سوچیں کہ خیموں کی چھوٹی سی عارضی بستی‘ جو ایسی زمین پر واقع ہے جو کسی کی ملکیت نہیں‘ وہاں خیمہ بستی کے راستے پر جو خیمہ لگا لے یا راستہ تنگ کر دے اس کا جہاد جیسا عظیم عمل بھی ضائع ہو جاتا ہے تو جو لوگ پبلک مقامات پر مساجد بنا دیں‘ مدرسہ بنا دیں اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں کہ ہم نے نیکی کا کام کیا ہے‘ حکومت انہیں ہٹانے کی کوشش کرے گی تو لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکا کر بلوہ کرا دیں گے‘ تو ایسے اعمال اور ایسی سوچ حضورﷺ کی سیرت پاک کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضورﷺ کے فرمان کو سن کر ان لوگوں کی راتوں کی نیند ہوا ہو جانی چاہیے کہ جب جہاد قبول نہیں‘ تو کسی کی جگہ پر یا راستے پہ قبضہ کرکے جو مسجد بنائی جائے گی‘ تو اس عمل کا یا وہاں ادا کی ہوئی نماز کا کیا بنے گا؟
امام بخاریؒ سڑک اور راستوں پر قبضہ اور ان کی بندش کے بارے میں احادیث کا جو باب لائے ہیں‘ اس کا عنوان ”المظالم والغصب‘‘ رکھا ہے جبکہ صحیح مسلم میں اللہ کے رسولﷺ کا جو فرمان ہے‘ اس میں مزید زیادہ سخت انتباہ ہے۔ فرمایا: ”جس نے زمین کے نشان کو بدلا اس پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔ میری گزارش ہے کہ حکومت پنجاب کو تجاوزات اور سڑکوں کے بارے میں ایک آگہی مہم کا بھی آغاز کرنا چاہیے۔ مندرجہ بالا فرمانِ رسولﷺ کو عام کرنا چاہیے۔ یہ واضح کرنا چاہیے کہ جس نے کلومیٹر سٹون کو ہٹایا یا مٹایا وہ ملعون ہے۔ جو لوگ راتوں رات سرکاری زمین کی علامتوں کو مٹاتے ہیں‘ دوسرے لوگوں کی ملکیتی اراضی کی علامتوں کا خاتمہ کرتے ہیں اور وہاں ناجائز قبضہ کر لیتے ہیں‘ یہ سب ظالم اور غاصب ہیں‘ یہ لوگ ملعون ہیں۔ لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت سے دوری ہے۔
”سنن ابودائود، کتاب الطھارۃ‘‘ میں ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: لعنت کے تین کاموں سے بچ جائو۔ لوگوں کے راستوں‘ پانی کی جگہوں اور لوگ جہاں سائے میں بیٹھتے ہیں وہاں پاخانہ مت کرو۔ یعنی یہ پرلے درجے کا گند اور لعنت زدہ حرکت ہے۔ کردار تو یہ ہونا چاہیے کہ پبلک واش روم سے بھی کوئی نکلے تو اسے اچھی طرح صاف کر کے نکلے۔ جی ہاں! ہم اپنے پاک رسولﷺ کے پاکیزہ فرمان کو سامنے رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ پبلک مقامات پر‘ صاف جگہوں پر‘ شاہراہوں پر‘ کچے پکے راستوں پر گند پھیلانا‘ سگریٹ کے مرغولے بنانا‘ گندے دھویں سے لوگوں کو اذیت دینا‘ تھوکنا‘ فحش مذاق کرنا‘ فلش میں گند ڈالنا‘ پانی نہ بہانا‘ یہ سب لعنت کے کام ہیں۔ اس کے برعکس رحمت والے کام یہ ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: ایک مرتبہ ایک شخص سڑک پر چل رہا تھا‘ اس نے دیکھا راستے پر کانٹوں بھری ایک شاخ پڑی ہے۔ اس نے اس شاخ کو وہاں سے ہٹا دیا۔ اللہ نے اس کے اس کام کی قدر دانی کی اور اسے مغفرت عطا فرما دی (یعنی جنت کا وارث بنا دیا)۔ (صحیح مسلم: کتاب البر والصلۃ) جی ہاں! حضورﷺ بتا رہے ہیں کہ جو راستوں کو کھلا اور کشادہ کرتے‘ وہاں سے تکلیف دینے والی چیزیں ہٹا دیتے ہیں‘ وہ اپنے لیے بخشش اور مغفرت کا سامان کر رہے ہیں۔ میری گزارش ہے ایسا کام صرف پنجاب میں نہیں بلکہ باقی صوبوں میں بھی فی الفور شروع کر دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔