دہشت گردی نامنظور
(خورشید ندیم)
ریاست کی عزت وآبرو جب بازیچہ اطفال بن جائے اورکوئی فرد یا گروہ عوام کے سر سے تحفظ کی چادر چھین لے تو بلاشبہ یہ فساد فی الارض ہے۔ دنیا کا ہر قانون اور ہر سماج‘ اس کی شدید سے شدید تر سزا تجویز کرتا ہے۔ بلوچستان اور کے پی میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ کوئی ابہام نہیں رہنا چاہیے کہ یہ فساد ہے۔ اس کے خاتمے ہی میں خیر ہے اور اس باب میں ریاست اور عوام کی یکسوئی ناگزیر ہے۔
جب راستے غیر محفوظ ہو جائیں اورسماج پر خوف کی چادر تن جائے تو پھر اقدام لازم ہو جاتا ہے۔ اس وقت تجزیوں اور مذاکرات میں وقت ضائع نہیں کیا جاتا۔ اقدام کا حق ریاست کے پاس ہے۔ اُسی کو حکمتِ عملی بنانی ہے۔ ایسے وقت میں عوام کو ریاست کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہمیں آج مسافروں کی جان اور ریاست کی آبرو‘ دونوں کو بچانا ہے۔ ہم اربابِ ریاست کے لیے دعا کرتے ہیں کہ وہ ایسی حکمتِ عملی بنا سکیں جس میں دونوں کو تحفظ ملے۔
مذہبیت‘ قومیت‘ لسانیت‘ سیاست‘ ہر عنوان سے انتہا پسندی ہمارے رگ وپے میں سرایت کر چکی۔ دہشت گردی اس کی انتہائی صورت ہے۔ ہر عصبیت نے دہشت گرد پیدا کیے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا مشاہدہ بچشمِ سر کیا جا سکتا ہے۔ اس کا انکار کوئی کور چشم ہی کر سکتا ہے جس کی بصارت کے ساتھ بصیرت‘ دونوں چھین لی گئی ہوں۔ معاملات جب اس نہج تک پہنچ جائیں کہ راستوں پر دہشت گردی کا راج ہو تو پھرعوامی نمائندوں اور ریاست کو یکسو ہو کر اور مل کر اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس بار مولانا فضل الرحمن بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے۔ اکوڑہ خٹک میں انہوں نے جو گفتگو کی‘ وہ عوامی احساسات اور حالات کی ترجمان تھی۔ ان کا یہ کہنا غیر معمولی معنویت رکھتا ہے کہ مولانا حسن جان اور مولانا حامد الحق اگر شہید ہیں تو ان کے قاتل مجاہد نہیں ہو سکتے۔ ان علما کو کس نے قتل کیا‘ اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔ مولانا کے تجزیے کی روشنی میں‘ مذہبی طبقے کو اس تضاد سے نکلنا ہو گا۔ ریاست پاکستان کے بارے میں بھی انہوں نے واضح کر دیا کہ اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا دینی اعتبار سے بھی ناجائز ہے۔ یہ کے پی ہو یا اسلام آباد‘ بلوچستان ہو یا کراچی وگلگت‘ ہر جگہ ریاست کے خلاف لاٹھی اور بندوق اٹھانے والے ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ مذہبی طبقے کی ذمہ داری ہے کہ ان سے اعلانِ برأت کرے۔
اسی جرأتِ رندانہ کا مظاہرہ اب قوم پرستوں کی قیادت اور ان کے حامیوں کو بھی کرنا چاہیے۔ قومی اور صوبائی حقوق کی بات کرنا جرم نہیں‘ ان کے لیے ہتھیار اٹھانا جرم ہے۔ اس کے لیے کوئی عذر قابلِ قبول نہیں۔ ردِعمل کا فلسفہ جو ہمیشہ اس نوعیت کی تحریکیں پیش کرتی رہی ہیں‘ عقل وحکمت کی بارگاہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ کچھ دیر کے لیے اگر یہ مان لیا جا ئے کہ ریاست نے حق کی ادائیگی میں انصاف نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ریل گاڑیوں پر قبضہ کر لیا جائے‘ عام شہریوں کے جان ومال سے کھیلا جائے؟ یہ ان خواتین وحضرات کے لیے مقامِ فکر ہے جو ایسے مجرم گروہوں کے لیے دلائل تراشتے ہیں۔
صوبائی حقوق کے نام پر ان انتہا پسندوں نے جو حکمتِ عملی اختیار کی ہے‘ اس کے دو پہلو ہیں: سیاسی اور عسکری۔ ایک طرف سیاسی چہرہ ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ پُرامن اور جمہوری جدوجہد کر رہا ہے۔ دوسرا وہ ہے جو ریل گاڑیاں اغوا کر رہا ہے۔ ہمارے تجزیہ کار انہیں الگ الگ کر کے دیکھتے اور یوں اکثر ریاست کو مجرم ٹھیرا تے ہیں۔ صحیح تجزیے کے لیے لازم ہے کہ دونوں کو ایک تصویر کے دو رخ سمجھا جائے۔ ریاست کو بھی اس پر سوچنا ہے کہ وہ کیسے اس اکائی کی اصلیت کو واضح کر سکتی ہے تاکہ اس مقدمے کے حق میں پیش کیے جانے والے استدلال کا جواب دیا جا سکے۔
ایک دوسرا پہلو جسے سمجھنا ضروری ہے‘ وہ گوریلا جنگ ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ کسی ریاست کے اندر کوئی گوریلا جنگ کبھی نہیں لڑی جا سکتی‘ اگر سرحد کے پار محفوظ پناہ گاہیں نہ ہوں۔ دنیا بھر میں یہ حکمتِ عملی وہیں اپنائی جاتی ہے جہاں کسی دوسرے ملک کی سرحد ساتھ ہو۔ 1979-80ء میں افغانستان میں کوئی مزاحمتی تحریک ثمربار نہیں ہو سکتی تھی اگر پاکستان افغان مجاہدین کی پشت پر نہ ہوتا۔ اسی طرح آج بلوچستان اور کے پی میں کوئی گوریلا جنگ نہیں لڑی جا سکتی اگر ان گروہوں کو سرحد پار پناہ گاہیں میسر نہ ہوں۔ پھر اسلحہ اور وسائل بھی لازم ہیں۔ ان کی فراہمی کے لیے بھی راستہ ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں ریاست کو مجرم ٹھیرائے جانے کیلئے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
ریاست کو بھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‘ ہمارے فطری اختلافات کیوں سماجی وسیاسی عارضوں میں بدل گئے ہیں؟ کراچی لسانی شناخت کی نذر ہو گیا۔ بلوچستان اور کے پی قومیت کا ہدف بنے۔ سارا ملک مذہبی انتہا پسندی کی آماجگاہ بن گیا۔ یہ سب عصبیتیں فطری ہیں۔ ساری دنیا ایک سے زیادہ شناختوں کے ساتھ جیتی ہے۔ ہمارے ساتھ ہی یہ معاملہ کیوں ہوا کہ ہر آنے والے دن‘ یہ سب شناختیں‘ سماج اور ریاست کی بربادی کا سبب بنتی گئیں۔ کون تھے جنہوں نے ان عصبیتوں کو ابھارا اور کیوں؟
اس وقت مگر سب سے اہم دہشت گردی کا مداوا ہے۔ ایک طرف ریاست کو ایسی حکمتِ عملی اپنانی ہے جو ایسے واقعات کا دروازہ بند کر سکے۔ دوسری طرف عوام کو ہمنوا بنانا ہے۔ اس کے لیے سیاسی حکومت کو بروئے کار آنا ہوگا۔ جب آرمی پبلک سکول پشاور کا حادثہ ہوا تو نواز شریف صاحب نے سربراہِ حکومت کی حیثیت سے اے پی سی بلائی اور ساری قوم کو جمع کر دیا۔ آج پھر اسی نوعیت کے اقدام کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم صاحب کو کُل جماعتی کانفرنس بلا کر ساری قوم کوجمع کرنا چاہیے۔ اگر دہشت گرد سیاسی اور عسکری محاذوں پر سرگرم ہیں تو ریاست کیوں نہیں ہو سکتی؟
اہلِ دانش کو بھی غور کرنا چاہیے کہ جب ریاست ایسے بحران کا شکار ہو‘ جب مذہبی‘ سماجی اور سیاسی تنوع‘ خوبصورتی کے بجائے بدصورتی کا مظہر بن جائیں تو سماج کو کیا کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک بیسویں صدی میں حقوق اور انقلاب کے عنوان سے اٹھنے والی تحریکوں نے ایسا رجحان متعارف کرایا جس نے تشدد کو نہ صرف جواز فراہم کیا بلکہ اسے گلیمرائز بھی کیا۔ ان تحریکوں نے مطالبے کی صداقت اور حکمتِ عملی کے جواز میں فرق نہیں کیا۔ مطالبہ درست ہو تو یہ لازم نہیں کہ حکمتِ عملی بھی درست ہو۔ مجھ جیسوں نے جب اس جانب توجہ دلائی تو خلطِ مبحث پیدا کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ حکمتِ عملی سے اختلاف کرنے والے مطالبے ہی کو درست نہیں مانتے۔
آج ضرورت ہے کہ اہلِ بلوچستان کے جائز مطالبات اور دہشت گردی میں فرق کیا جائے۔ اہلِ دانش عوام کو بتائیں کہ دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ آج اگر کوئی گروہ کسی جائز مطالبے کے لیے بھی یہ قدم اٹھاتا ہے تو اس سے اسی وقت بات کی جائے گی جب وہ اس طرزِ عمل سے اعلانِ برأت کرے گا۔ یہ اب ہماری سلامتی اور بقا کا سوال ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے میں ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے: ہم اس کے خاتمے کے لیے ریاست کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ ریاست سے کوئی شکایت ہو تو اس کے لیے صرف قانونی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ نتیجہ خیز ہے یا نہیں۔