ایس ایس جی کمانڈوکیپٹن عمارشہید

(لیفٹیننٹ کرنل(ر) امجد حسین امجد)
معرکہ کارگل کے شہید،ایس ایس جی کمانڈو،90 ۔پی ایم اے لانگ کورس کی شان،اپنے دوستوں کا مان،اپنی ماں کی جان،اپنے ماتحتوں کے لیے روشنی کا مینارا ،اپنے والد کے بڑھاپے کا سہارا،اپنے بہن بھائی کی امنگوں کا ترجمان،اپنے اساتذہ کی پہچان،اقبال کا شاہین، ملک کی سرحدوں کا نگہبان،فخر پاکستان، کیپٹن عمار حسین شہید ، ستارہ جرأت ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔شہیدکیپٹن عمار کے والد میجر محبوب حسین مرحوم ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ:”عمار میرا ایسا بیٹا تھا جس کے ماتھے پر شہادت ہمیشہ سے لکھی نظر آتی تھی، مگر ہم اسے اپنی مادی آنکھوں سے دیکھ نہ پائے۔ تاہم اب میں سوچتا ہوں کہ جس طرح اس نے اپنا بچپن ، لڑکپن اور شباب ایک پرہیز گار ولی کی طرح گزارا، بھائیوں اور ماں باپ کو اپنے اخلاص اور محبت سے گرویدہ کیے رکھا۔ اپنے اساتذہ اور ہم جولیوں میں خلوص، سعادت مندی اور محبت کا خاص نقش جمائے رکھا، وہ اسے اس مرتبہ بلند کامستحق بناتا تھا۔ علامہ اقبال نے کہا تھا، جوانوں کو پیروں کا استاد کر، وہ سچ مچ میرا رہنما بن گیا۔ شہادت کی آرزو مجھے بھی اپنے فوجی کیرئیر کے دوران رہی، ریٹائر ہوا توکشمیر میں جہاد شروع ہوگیا۔میں نے اس میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن شاید میری تمنا خام تھی۔ عمار بازی لے گیا۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہو رہی ہے کہ میرا بیٹا عین جوانی میں مجھ جیسے بوڑھے کا استاد بن گیا۔ استاد اور رہنما بننے کے لیے عمر کی قید نہیں ہوتی”۔ کشمیر اور جہاد سے کیپٹن عمار حسین کو خصوصی لگائو تھا، ان کا بچپن اسلام کے عروج کے قصے سنتے گزرا تھا۔ کیپٹن عمار حسین شہید موت سے نہیں گھبراتا تھا۔ اس کے لیے اپنے مقصد کو فوقیت حاصل تھی چاہے اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ دشمن کی کثیر تعداد ،شدید موسم اور کم وسائل بھی اس مجاہد کے حوصلے پست نہ کر سکے۔ میجر محبوب حسین(مرحوم)2018میں اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے تھے۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ میجر محبوب حسین(مرحوم) کے دوستوں عبدالہادی اور صغیر قمر صاحب نے اپنی تحاریر میں کیپٹن عمار حسین شہید کو عمدہ خراج تحسین پیش کیا اور میجر محبوب حسین(مرحوم)کی مثالی تربیت کی دل کھول کر تعریف کی ہے۔
عسکری اور اخلاقی تربیت:کیپٹن عمار حسین شہید کے خاندان کا عسکری پس منظر ہے ۔ کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی طرح کیپٹن عمار حسین شہید کے دادا بھی عسکری خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ اسی طرح عمار حسین کے ننھیال میں بھی سر فروش مجاہدوں کی کمی نہیں رہی۔کیپٹن عمار شہید کے والد اور دادا کے علاوہ نانا بھی فوج سے منسلک رہے۔ عمار شہید کی والدہ نے مزید اپنے خاندان کے بارے میں بتایاکہ میرے اپنے دادا صوبیدار امیر علی اور نانا صوبیدار فضل داد جنگ عظیم کے بہادر سرداروں میں شامل تھے۔ میرے ماموں فلائیٹ لیفٹیننٹ شاکر حسین گورنر جنرل کے پائلٹ تھے اور میرے چچا یعنی(عمار کے نانا کے بھائی)بریگیڈیئر ممتاز علی راجہ 1994 میں پاک آرمی سے ریٹائر ہوئے ۔ملٹری کالج جہلم میں پانچ سال کی تربیت کے دوران، ان کا ڈسپلن اور اخلاق مثالی تھا۔وہ کم گو اور اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے ۔ کیپٹن عمار ،کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے زمانہ امن اور جنگ کے دوست اور وطن سے کیا گیا عہد وفا کرنیوالے سپاہی تھے۔ کیپٹن عمار کی شہادت کے بعد جنرل پرویز مشرف شہید کے گھر آئے اور انہوں نے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔عمار شہید چوک کا خوبصورت ڈیزائن پاک فوج کے شہدا اور غازیوں کی عظمت کے اعتراف کا ثبوت ہے۔ شہید کو مطالعے اور کتب بینی کا بہت شوق تھا اور وہ بچپن میں جنگ کے نقشے بنا کر دشمن اور اپنی افواج کی نشاندہی کر کے اپنے گھر والوں کو دکھاتا تھا جس سے ان کی حربی تربیت میں دلچسپی عیاں تھی۔وہ شاید اس لیے بھی زیادہ کتابیں پڑھتے تھے کہ شاید بعد میں کہیں کتابوں میں ان کا بھی ذکر ملے۔ وقت نے ثابت کیا کہ کارگل کے معرکے کی تقریباً ہر کتاب میں کیپٹن عمار اور کیپٹن کرنل شیر کی مشترکہ کاروائی اور بہادری کی داستان رقم ہے۔میں نے چند سال قبل شہید کے خاندان کے افراد سے فون پر بات کی۔ ان کی والدہ بہت حوصلہ مند خاتون ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ شہید کی والدہ ہونے کے ناتے روتی نہیں لیکن کبھی کبھی اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہوئے آنکھوں میں نمی آ ہی جاتی ہے۔کیپٹن عمار حسین شہید اپنی صرف پانچ سالہ سروس کے دوران ہی رفعت کی بلندیوں کو چھو گئے۔ انہوں نے میجرمحمد اکرم شہید (نشان حیدر) اور لیفٹیننٹ کرنل راجہ سلطان محمودشہید(مشرقی پاکستان)کی طرح میدان جنگ کو ہی اپنا مستقل مسکن بنایااور وہیں سے جنت کے راستوں پر چلے گئے۔
آرمی آفیسرز کا اظہار عقیدت
لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب اپنی ایک وڈیو میں کیپٹن عمار حسین شہید کی عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ1999میں پاکستان آرمی کے ایجوٹینٹ جنرل کے عہدے پر کام کر رہے تھے اور شہدا کے خاندان سے روابط ان کے فرائض منصبی میں شامل تھا اور انہوں نے شہید کے خاندان کی مدد کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سپیشل سروس گروپ میں کیپٹن عمار حسین شہید کی تربیت کے مکمل ہونے پر چراٹ میں مہمان خصوصی کے طور پر گئے تھے اور انہوں نے کامیاب آفیسرز کو ایس ایس جی کے بیج لگائے تھے۔کیپٹن عمار حسین شہید، 93 پی ایم اے لانگ کورس کے ساتھ پریلم سارجنٹ تھے اور ان کے جونیئرز کیڈٹس کیپٹن عمار حسین شہید کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور جسمانی فٹنس سے متاثر نظر آئے۔ وہ ہمیشہ سے ہی جونیئرز کو انتہائی کمال کے ساتھ تیار کرنے کا شوق رکھتے تھے۔انہوں نے کبھی ان کے ساتھ روایتی سخت الفاظ استعمال نہیں کیے بلکہ ان کو ثابت قدم رہنے اور دوسروں کا خیال رکھنے کی تلقین کی۔وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے والا رویہ رکھتے تھے۔ان کے کورس میٹ کیپٹن عمار کے بے داغ کردار سے بہت متاثر تھے۔ ہمار ے ایک کورس میٹ کرنل ماجد نے بتایا کہ “میں اپنے بیٹے(جس کا نام عمارہے )کو اس عیدالاضحی پر کیپٹن عمار شہید کے گھر لے کر گیا جہاں ان کی والدہ میرے بیٹے سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ کیپٹن عمار شہید کا عرفی نام “چاند” تھا۔شاید وہ بہت بلندیوں پر پہنچ کر چمکنا چاہتا تھا۔اسی طرح کرنل کلیم بٹ نے بتایا کہ انہوں نے چراٹ اورپشاور سکو ل میں کیپٹن عمار کوکمانڈو ٹریننگ کے دوران دیکھا تھا اور ان کی تربیت ،جنگی امور کی سکھلائی میں مہارت،آہنی اعصاب اور خوشگوار شخصیت کی تعریف کی۔وہ ہمیشہ دنیاوی تعریف و انعامات سے ماورا نظر آئے اور کسی عظیم مقصد کے مراحل جلد از جلد مکمل کر رہے تھے۔وہ دوران تربیت اپنے ساتھیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔انہوں نے اپنے آخری خط میں لکھا کہ ” میں یہاں پر بہت خوش ہوں اگر کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کر دینا ، ابو سے بھی کہہ دینا کہ اگر میں نے کبھی بد تمیزی کی ہو تو معاف کر دینا۔علی اور بلال سے بھی کہہ دینا کہ میں نے اگر کبھی ڈانٹا ہو تو معاف کر دیں ۔اور اس نے خاص طور پر اپنی والدہ سے دعا کے لیے کہا کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوں”۔کیپٹن عمار شہید کی والدہ کا کہنا ہے کہ میں عمار کو اس کے آبا ئواجداد کی بہادری کے قصے سنایا کرتی تھی جس سے اس کے دماغ پر اپنے خاندان کے جانبازوں کے کارناموں کا بہت گہرا اثر ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ عمار نے اپنے کیرئیر کا سفر تیزی سے مکمل کیا۔شہید کی عظیم والدہ اپنے بیٹے سے آخری ملاقات کو آج بھی یاد کرتی ہیں۔ کیپٹن عمار حسین شہید آخری ملاقات میں تمام چیک بکس سائن کر کے اپنی والدہ کو دے گئے ، اس سے پہلے بھی وہ اپنی تمام تنخواہ والدہ کو بھیجتے تھے۔ وہ رضاکارانہ طور پر کارگل کے محاذ پر گئے۔وہ کال سائن 9090 استعمال کرتے تھے جس سے ان کی اپنے کورس کے ساتھ وابستگی کا بھی بخوبی اظہار ہو تاہے۔اگرچہ ایس ایس جی میں ہونے کے ناطے وہ لیفٹیننٹ کرنل خالد نذیر کے ڈائریکٹ انڈر کمانڈ نہیں تھے اور ان کے پاس ایس ایس جی کی ایک پلاٹون تھی۔لیکن وہ تمام پلاننگ اور عمل درآمد کی کارروائی میں 12 این ایل آئی کے ساتھ بھر پو ر تعاون کرتے تھے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کیپٹن عمار حسین ایک خط کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے لیے لے کر گئے تھے جو آخر تک ان کے پاس تھا۔
عہد وفا کا وقت ۔ کارگل کا آخری معرکہ
12 این ایل آئی کے کیپٹن اقبال کے مطابق کیپٹن عمار حسین ایس ایس جی کی ون کمانڈو کے کمانڈنگ آفیسر کو بار بار پیغام پہنچاتے تھے کہ ہمیں مزید ہتھیار فراہم کیے جائیں۔ان کے ساتھ کچھ رضاکار بھی شامل تھے۔مورچے میں ٹائگر ہلز کے لیے ساری تیاری اور پلاننگ کیپٹن عمارنے کی۔ کیپٹن کرنل شیرخان نے بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ بھی اس معرکے میں ساتھ ہوں گے۔ کیپٹن عمار ساری رات آنے والے آپریشن کی تیاری کرتے رہے۔انہوں نے تہجد کی نماز پڑھی اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے کی دعا بھی مانگی۔انہوں نے اپنی پوسٹ اور اگلی پوسٹ کے درمیان بلاکنگ پوزیشن کو ختم کیا۔اسی دوران صبح ہوگئی اور کیپٹن عمار بھاگتا ہوا کیپٹن کرنل شیر کے پاس آیااور کہا کہ شیر اٹھو دیر ہورہی ہے ۔ کیپٹن شیر خان نے کہا کہ “نماز نہ پڑھ لیں”؟ کیپٹن عمار نے کہا کہ ”نماز اوپر جاکر ادا کریں گے”۔(شاید ان کے ذہن میں کسی سماوی منزل کا خیال تھا)۔پھر تمام لوگ آخری معرکے کی طرف روانہ ہو گئے۔وہ آخری دم تک مردانہ وار لڑتے رہے اور یکے بعد دیگرے شہادت کے رتبے پر فائز ہوتے رہے،ان کو سنائپر کی گولیاں لگیں”کیپٹن عمارشہید کی والدہ نے بتایا کہ شہادت سے ایک رات قبل جب عمار تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے اور اپنے سپاہیوں کو صبح دشمن سے جنگ لڑنے کے لیے حکمتِ عملی بتا رہے تھے تو اس وقت انہوں نے سور النسا کی یہ آیات مبارکہ تلاوت کیں۔ترجمہ:”تمھیں کیا ہو گیا ہے تم ان لوگوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کمزور ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی اور مددگار بھیج”۔ تو گویا اللہ نے میرے عمار کو اس مشن کی تکمیل کے لیے چن لیا تھا ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کیپٹن عمار حسین جلد از جلد اپنی لوکیشنپر پہنچنا چاہتے تھے لیکن آرمی کی ایس او پیز کے مطابق بلندی سے موانست (Acclimatization) ضروری ہوتی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پہاڑوں پر بلندی پر پہنچنا اور آسان ہوتا ہے۔اس سے پہلے بھی ایس ایس جی کے کئی افسر کشمیر اور سیاچین میں برف کی سفید چادر اوڑھے پہاڑوں پر اپنے خون سے بہادری کی داستانیں رقم کر چکے تھے۔
پاک فوج کا خراج تحسین
کارگل کی جنگ کے بعد کیپٹن عمار حسین شہید کو ستارہ جرأت اور کیپٹن کرنل شیر خان شہید کو نشان حیدر سے نوازا گیا۔کارگل کے شہید ، غازی افسران اور جوانوں کی خدمات کے اعتراف میں 14 اگست 1999 کو راولپنڈی میں ایک تقریب ہوئی۔ کیپٹن عمار حسین شہید کا اعزاز ان کے والد میجر(ریٹائرڈ)محبوب حسین مرحوم نے وصول کیا ۔ کیپٹن عمار حسین شہید اور کیپٹن کرنل شیر خان شہید نے عظیم کورس میٹ ہونے کے ناتے کو امر کر دیا تاکہ بعد میں آنے والے جوان اور آفیسرز ٹائیگر ہلز پر لڑنے والے ان شیروں کی داستانیں سنا کر اپنے بچوں کے حوصلے بڑھاتے رہیںاور یہ اثر ہوا کہ کیپٹن عمار حسین شہید ستارہ جرأت کے نام کو بہادری کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔چکلالہ گیریژن میں کیپٹن عمار حسین شہید چوک بھی ان کی یاد کو تازہ کرتا ہے۔ پاکستان آرمی کی ایس ایس جی کور کے زیر اہتمام کیپٹن عمار شہید کے نام پر ایک کیڈٹ کالج بھی بن رہا ہے۔ کیپٹن عمار حسین کے ایک کورس میٹ کے مطابق میں نے دنیا میں کوئی جنتی دیکھا ہے تو وہ کیپٹن عمار شہید ہے، کیڈ ٹ شپ میں بھی شاید ہی اس کی کوئی نماز قضا ہوئی ہو ۔وہ میرا پلاٹون میٹ ہے۔کئی مرتبہ میرے خواب میں آیا اور اسی خواب میں دو بارہ شہید ہو گیا، جنٹل مین کیڈٹ نمبر 29115 عمار حسین شہید ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے”۔بقول افتخار عارف:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے (بشکریہ ہلال میگزین)