معرکہ گنڈا سنگھ ۔ بریگیڈیر(ر)غلام حسین چیمہ (تمغہ جرأت) کی شجاعت آمیز داستان

(طارق سجاد اشرف)
میاں جی کے شاگردوں میں فضل حسین اور غلام حسین سب سے زیادہ ذہین، پھرتیلے اور باہمت لڑکے تھے۔ غلام حسین تو اپنے لمبے قد، چھریرے جسم اور ستواں ناک کی وجہ سے دیومالائی شہزادہ دکھائی دیتا تھا۔ مسجد میں قرآنی قاعدہ پڑھنا ہو یا سکول میں قلم دوات سے تختی لکھنی ہو، چوہدری کرم داد چیمہ کے دونوں بیٹے پیش پیش ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ دونوں بھائی میاں جی کے سب سے زیادہ قریب تھے اور ان کی خدمت بجا لانے میں بھی پیش پیش رہتے تھے اور جب سے میاں جی نے دونوں بچوں کی ناک دیکھ کر یہ پیش گوئی کی تھی کہ یہ بڑے ہو کر فوجی افسر بنیں گے، تب سے انہوں نے میاں جی سے کچھ زیادہ ہی سیکھنا شروع کردیا تھا۔ یہ چلتے پھرتے فوجی پریڈ کرتے اور اپنے ساتھی دوستوں کو ماتحت بنا کر”جلدی چل، داہنے مڑ، پریڈ رک۔۔۔” کے کاشن دیتے رہتے۔ پھر میاں جی سے مکرر پوچھتے بھی رہتے: ”میاں جی، میں فوجی افسر بنوں گا نا؟” اور میاں جی کہتے: ”ہاں بیٹا! جن کے ارادے پختہ ہوں وہ ضرور اپنی منزل پالیتے ہیں۔”میاں جی محمد دین خود بھی ایک شاندار ماضی رکھتے تھے۔ ہائی سکول کنجاہ اور زمیندارہ کالج گجرات سے فارغ التحصیل تھے۔ گائوں میں ہی نہیں بلکہ پورے علاقے میں ان سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی نہیں تھا۔ فر فر انگریزی بولتے تھے۔ سابق صدر فضل الٰہی چوہدری ان کے کلاس فیلوز میں سے تھے۔ کھیل کے میدان میں بھی ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ 6 فٹ قد اور 46 انچ چوڑی چھاتی کے ساتھ محمد دین جب ہاکی کھیلنے میدان میں اترتے تو دنیا دیکھ کر رشک کرتی۔ فل بیک پوزیشن پر کھیلتے ہوئے وہ مخالف ٹیم کی گیند اپنی ڈی تک مشکل سے آنے دیتے تھے اسی لئے اِن کا نام ”ہمالیہ ”پڑ گیا ۔ ملایا میں جب جاپانیوں کے ساتھ جنگ کے لئے انگریزی فوج میں بھرتیاں ہو رہی تھیں تو قوی الجثہ محمد دین کو بھی سلیکٹ کرلیا گیا۔ مگرپیچھے گائوں چک23 شمالی میں ان کے والد محترم جناب جلال الدین گوندل انتقال فرما گئے۔ لہٰذا انہیں واپس آنا پڑا۔پاکستان بن گیا تو مہاجرین کے کئی خاندان بھی گائوں لاکربسائے گئے۔اس طرح میاں جی محمد دین پاکستان کے جذبے اور نئی منزل کے لئے ولولے سے سرشارہو کر مہاجرین کی آبادکاری، فلاح و بہبود اور تعلیم و تعلم میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ انہوں نے جہاں اپنا گھر اور گھر کا سامان ان کو دے دیا، وہاں اپنے گھر کا بڑا حصہ بچوں اور بچیوں کے سکول کے لئے مختص کر دیا۔ فضل حسین اور غلام حسین بھی اسی سکول میں ان کے شاگرد تھے، جہاں وہ مخصوص پیریڈ میں بچوں کی فوجی طرز پر جسمانی تربیت بھی کرتے تھے۔ وہ تو سزا بھی ایسی دیتے جس سے جسم پختہ ہوتا۔ لیکچر کے دوران میاں جی بچوں کو فوج میں بھرتی ہوکر ملک کی خدمت اور کشمیر کو آزاد کرانے کی ترغیب دیتے تھے۔ اسی لئے بڑے بھائی فضل حسین نے جلد ہی پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل کرلیا۔ غلام حسین لفٹینی کے لئے امتحان پاس نہ کر سکا تو یہ سوچ کر کہ گائوں جا کے میاں جی کو کیا منہ دکھائے گا، آرمی ریکروٹمنٹ سنٹر جا کر سیدھا سپاہی بھرتی ہوگیا۔ ٹریننگ کے بعد گائوں چھٹی آیا تو سیدھا میاں جی کے پاس حاضر ہوا۔ لمبا کاشن دے کر ٹھک سے سلیوٹ مارا ۔ میاں جی نے اٹھ کے گلے لگا لیا۔ اپنے سینے کے ساتھ بھینچتے ہوئے بولے، ”غلام حسین تو بڑا افسر بننے کے لئے پیدا ہوا ہے ، جب یونٹ واپس جائو تو اپنے سی او صاحب کے لئے میری چٹھی لے جانا۔” میاں جی سارے گائوں والوں کو چٹھیاں لکھ کے دیتے تھے۔ بھرتیاں کھلتیں تو وہ نوجوانوں کو اتنا خوبصورت مضمون باندھ کے دیتے کہ افسر پڑھ کر سرشار ہوجاتے ،درخواست فوراً قبول ہو جاتی۔ اسی لئے تو 23 شمالی گائوں میں سب سے زیادہ لوگ فوج میں ملازم ہیں اور ان میں بھی زیادہ تعداد فوجی افسران کی ہے۔ یہ سب میاں جی کا کرشمہ تھا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ بندے کی خودی اور ذاتی حمیت کو جگا دیتے تھے۔غلام حسین جب میاں جی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چٹھی لے کر اپنے سی او کے پاس پہنچے تو کرنل صاحب بہ نفس نفیس اٹھ کر باہر آ گئے اور چٹھی بآواز بلند پڑھنا شروع کردی۔ میاں جی نے لکھا تھا: ”کرنل صاحب، ہمارا غلام حسین افسر بننے کے لئے پیدا ہوا تھا، آپ نے اسے سپاہی بنا دیا ہے۔؟ مہربانی فرما کر اسے کمیشن کے لئے تیاری کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں”۔ اس جذبے اور تربیت پر کرنل صاحب اش اش کر اٹھے۔
پھر کیا ہوا، 1960ء میں9ویں او ٹی ایس شارٹ کورس کے ذریعے کمیشن لے کر غلام حسین چیمہ لفٹین بن گئے۔ 1965 کی جنگ شروع ہوئی تو کیپٹن چیمہ کی یونٹ چھمب جوڑیاں تعینات تھی۔ فوجی جوانوں، افسروں اور پوری قوم کا جذبہ دیدنی تھا۔ گھمسان کا رن پڑ ھ رہا تھا۔ عین اس وقت کپتان صاحب کے اردلی نے میاں جی کی ارسال کی ہوئی چٹھی ان کے ہاتھ پر رکھ دی۔کھولی تو چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ اپنے جوانوں کو بآواز بلند پڑھ کر سنا دی۔ اس میں لکھا تھا، ”میرے شیر! میں جانتا ہوں تم پیٹھ نہیں دکھائو گے، زندگی اور موت اللہ کی امانت ہے۔آگے بڑھو اور دشمن کو تہس نہس کر دو۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو”۔ جنگ ختم ہوئی۔ کپتان صاحب چھٹی آئے تو خود بتایا : ”چٹھی پڑھنے کے بعد یوں لگا جیسے میاں جی خود میرے ساتھ ساتھ ہیں، میرے جنون کی حد رہی نہ حساب، میں اور میرے جوان اس بے جگری سے لڑے کہ دشمن کو نہ صرف بھاری مالی و جانی نقصان پہنچایا بلکہ ہم نے دشمن کے بہت سارے علاقے پر قبضہ بھی کر لیا۔” دونوں بھائی گائوں آئے تو علاقے کے لوگوں نے فقید المثال استقبال کیا۔ فضا نعرۂ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی۔ میاں جی نے کہا، ”میرا شیربڑا تمغہ لے گا، اورجلدہی لے گا۔” اور وہ وقت بھی جلدی آگیا۔ میجر غلام حسین چیمہ کی یونٹ 9 پنجاب اس وقت گنڈا سنگھ میں تعینات تھی جب 1971 کی جنگ شروع ہوئی۔گنڈا سنگھ، حسینی والا سے متصل تھا جہاں قیصرہند کی تاریخی عمارت کے قریب بہت بڑا معرکہ لڑا گیا تھا۔ کرنل حبیب احمد نے اپنی معروف کتاب ”دی بیٹل آف حسینی والا اورقیصرِہند” میں 106 بریگیڈ کی کمان میں لڑنے والی 41 بلوچ، 9 پنجاب اور دیگر یونٹوں کا آنکھوں دیکھا حال رقم کیا ہے۔ اس میںانہوں نے دیگر بہادرسپوتوں کے علاوہ میجرغلام حسین چیمہ کی شجاعت و بہادری کا قصہ بھی گویا سنہری حروف سے لکھا ہے۔ میجر چیمہ نے دشمن کے کئی مورچے تباہ کئے اور کئی دشمن واصل جہنم کیے۔ وہ چیتے کی طرح لپکتے اور آگے بڑھتے رہے۔ ان کے سینئر ان کو اپنی حفاظت کی بھی تلقین کرتے رہے مگر جواں مردی اور جنون کا حسین امتزاج میجر حسین کو معرکۂ حسینی والا میں رسم حسینی رقم کرنے پر اکسا تا رہا۔ آج معرکہ حسینی والا اور گنڈا سنگھ کے فاتحین میں میجر حسین کا نام سرفہرست آتا ہے۔اسی معرکے میں ان کے ہم نام کرنل غلام حسین جن کا تعلق للیانی ضلع سرگودھا سے تھا، بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے جن کو ہلالِ جرأت عطا کیا گیا اور میجر چیمہ کو تمغۂ جرأت سے نوازا گیا۔یوں میاں جی کی پیش گوئی بھی پوری ہوگئی۔
گاؤں آکر میجر غلام حسین نے خود معرکہ حسینی والا اورگنڈا سنگھ کی تفصیلات بیان کیں تو پورے گائوں کو اِک ولولۂ تازہ ملا۔ ”جب گولیوں کی بوچھاڑ میں دشمن کے ایک مورچے پرجو اولیکے کی پوسٹ پر واقع تھا، میں نے تن تنہا دھاوا بول دیا تو مورچے پر کھڑے ہوکر میں نے گرینیڈ کی پن نکال دی، اندر پھینکنے لگا تو دشمن کے سپاہی ہاتھ باندھ کے ”کرپا کرو مہاراج، دیا کرو مہاراج” کی التجائیں کرنے لگے۔ وقت بہت ہی کم تھا گرنیڈ کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا، میری نظروں میں میاں جی کا ہنستا ہوا شفیق چہرہ گھوم گیا۔ میں نے معاََ گرنیڈ مورچے کے دوسری طرف پھینک دیا اور مورچے میں موجود دشمن کے سپاہیوں کو قیدی بنانے کی غرض سے حکم دیا کہ وہ ایک ایک کر کے باہر نکل آئیں۔ جب پہلا آدمی باہر نہیں نکل سکا تو اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا تا کہ میں باہر آنے میں اس کی مدد کروں۔ جونہی میں نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تو مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ دشمن کے سپاہی خودباہر آنے کے بجائے مجھے اندر کھینچنے کی کوشش کرنے لگے۔ مجھے شدید غصہ آگیا، نہ جانے میرے اندر اتنی قوت کہاں سے آگئی۔میں نے اپنی کمر پر سارا بوجھ ڈال کے ایک ہی جھٹکے سے خود کو چھڑوا لیا۔ چالاک دشمن نے مجھے دھوکہ دیا تھا اور اب وہ رحم کاہرگز مستحق نہیں تھا۔ میں نے جی تھری گن کی ساری میگزین خالی کر دی اور مورچے میں موجود دشمنوں کا صفایا کردیا۔” سننے والے جو اب تک سنسنی خیز واقعے پر دم بخود بیٹھے تھے، یک بارگی پاک فوج زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگانے لگے۔ نوجوانوں نے میجرغلام حسین کو کندھوں پر اٹھا لیا اور جلوس کی شکل میں میاں جی کے دروازے پر آ رکے۔ میاں جی نے آگے بڑھ کرانہیں گلے لگا لیا۔ ماتھا چوم کر کہا: ”بیٹا، جو پاکستان کے لئے قربانی دیتا ہے، اللہ اس کا اقبال بلند کرتا ہے”۔
میاں جی 3 اگست 1983کوانتقال کر گئے۔ فضل حسین نے کرنل کے عہدے تک ترقی پائی اور ریٹائرمنٹ کے بعد جلد ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔ غلام حسین چیمہ بریگیڈیئر بن کر ریٹائر ہوئے بلکہ بعض وجوہات کی بنا پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ مگر اقبال بلند ہونے کی دعاابھی پورا ہونا تھی۔جلد ہی اہل علاقہ کے وفود آنا شروع ہوگئے انہوں نے بریگیڈیئرغلام حسین کو ان کی سیاسی نمائندگی پر آمادہ کر لیا ۔ اس طرح وہ اولاً ضلع کونسل کے ممبر منتخب ہوئے اور بعد ازاں ممبر نیشنل اسمبلی کا انتخاب جیت گئے۔ بحیثیت کونسلر اور ایم این اے انہوں نے تھوڑے عرصے میں بے شمار فلاحی کام کروائے،گائوں میں پینے کے صاف پانی کا دیرینہ مسئلہ حل کروایا، سولنگ لگوائی۔ اس پر مستزاد، گاؤں میں نہایت خوبصورت مسجد کی تعمیر ان کا بڑا کارنامہ ہے۔بریگیڈئیر چیمہ کچھ عرصے سے چاہنے والوں کی درخواست پر اپنی یادداشتیں جمع کررہے تھے۔ ان کی اپنی تحریر کردہ سوانح حیات اگر مرتب ہوجاتی تو یہ عسکری تاریخ کا زریں باب ہوتا۔ مگر قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا ۔پچھلے ماہ10 محرم الحرام دن 12 بجے قوم و ملک کا یہ بہادر سپوت خالق حقیقی سے جا ملا۔ آپ کے اندر شہادت کا رتبہ پانے کا شدید جذبہ تھا، مگرایک غازی مجاہد کی زندگی کا اختتام جناب امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم الشان شہادت کے دن، چیمہ خاندان کے لئے ایک اور سعادت کا سبب بن گیا۔بریگیڈیئر صاحب نہ صرف ہمارے گائوں، علاقے اور ضلع بھر کا فخر تھے بلکہ پاک فوج اور پاکستان کاقیمتی اثاثہ تھے۔ان کی کامیابیوں کے پیچھے والدین، بالخصوص میاں جی مرحوم جیسے شفیق اساتذہ کی تربیت اور روحانی فیض کارفرما رہا۔چھمب جوڑیاں اور گنڈا سنگھ کی فتوحات میں ان کا کردار کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔ قوم کے ان سپوتوں کو معمولی نہ سمجھا جائے، یہ بڑے مہنگے ہوتے ہیں، یہ اپنے بڑوں کی تربیت اور دھرتی کی حرمت کو کبھی نہیں بھولتے۔وقت آنے پر یہ تن کی پروا کرتے ہیں نہ من کی۔ اسی لئے تو دشمن ان کی ہیبت اور قوت سے لرزتا ہے۔(بشکریہ:ہلال میگزین)