کالم

انسانیت کا مفہوم

(قیوم نظامی)

دور حاضر میں ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ انسان انسان کا دشمن بنا ہوا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جنگیں ہو رہی ہیں جن میں معصوم اور مظلوم انسان جان بحق ہو رہے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں بھائی بھائی کے دشمن ہو چکے ہیں۔ قریبی رشتہ دار ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔ آج دنیا کے بڑے مقصد انسانیت کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ اس دور میں ہر باشعور انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ انسانیت کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے کوشش کرے۔ اردو لغت میں انسانیت کا جو مطلب بتایا گیا ہے اس کے مطابق انسانیت کو آدمیت بشریت تمیز شعور عقل انسانیت سے پیش آنا مروت کا اظہار کرنا اخلاق اور تہذیب سے بات چیت کرنا ہے۔ گویا انسانیت کی بنیاد ہی اخلاقیات پر رکھی گئی ہے۔ انگریزی لغت میں انسانیت کے لیے Humanity کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی وہ خصوصیات اور شرائط ہیں جو ایک انسان میں ہو سکتی ہیں۔ انسان کے مجموعی کردار کو انسانیت کا نام دیا جاتا ہے۔ انسانیت سے مراد وہ اوصاف اور اقدار ہیں جو انسان کو ایک بہتر اور مہذب فرد بناتے ہیں۔ انسانیت محبت ہمدردی رواداری انصاف رحم دلی اور دوسروں کی مدد کرنے کی صلاحیت پر مشتمل ہے۔ انسانیت کا مطلب ہے کہ ہم دوسروں کے دکھ درد کو سمجھیں ان کی مدد کریں اور معاشرے میں امن و بھلائی کے فروغ کے لیے کام کریں۔ یہ تمام انسانوں کے ساتھ برابری اور عزت کے اصولوں پر مبنی ہے چاہے ان کا مذہب رنگ زبان یا قومیت کچھ بھی ہو۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اسے شعور اور ذہن عطا کیا گیا ہے جس سے وہ اچھے اور برے نفع اور نقصان کی تمیز کر سکتا ہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز ہونے کی بناء پر اس کا فرض اولین ہے کہ وہ تمام انسانوں سے محبت کرے اور انسان دوستی کا مظاہرہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو تخلیق کیا تو اس کے بعد اسے ایک سماجی کلمہ دیا اور ہدایت کی کہ ایک انسان جب کسی دوسرے انسان کو ملے تو اسے السلام و علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ کہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تم پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔ یہ سماجی کلمہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ہے لہذا ہم کسی بھی ملک میں چلے جائیں تو لوگ اپنی زبان میں ہر ملنے والے پر سلامتی بھیجتے ہیں۔
اسلام سے پہلے طاقت کا قانون تھا، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر عمل کیا جاتا تھا، کمزور لوگوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ اسلام انسانیت کا علم بردار ہے نفرت عداوت اور تشدد کو ختم کر کے امن و سلامتی محبت اور اخوت کا درس دیتا ہے۔ انسان کا مقام و مرتبہ امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے مقام و مرتبہ کے مطابق نسل انسانی میں ایک فطری مساوات پائی جاتی ہے۔ قران پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا سب انسان آپس میں مساوی ہیں ان کے حقوق و فرائض برابر ہیں کسی کے رنگ و نسل سے انسانی مرتبے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قران پاک کی ایک اور آیت میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے ’’ لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد اور عورت دنیا میں پھیلائے اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تمہاری نگرانی کر رہا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نفسا نفسی، قتل و غارت گری اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر وحدت انسانی کا راستہ دکھایا۔ انسان کو شرف اور تکریم سے نوازا اور اس کو انعامات و کرام کے باعث اعلیٰ مقام مرتبے پر فائز کیا۔ اس کو وہ سب کچھ سکھایا جو وہ کچھ وہ نہیں جانتا تھا۔ معاشرے میں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا۔ اسلام نے انسانیت کو بے حد اہمیت دی۔ کوئی اور مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالی نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ اور قران دونوں احترام انسانیت کے قائل ہیں اللہ کی منشا یہ ہے کہ کائنات کے تمام انسان آپس میں محبت اور امن کے ساتھ رہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبہ حج الوداع سے خطاب کرتے ہوئے انسانیت کا درس دیا اور فرمایا۔ اے لوگو بے شک تمہارا رب ایک ہے، بے شک تمہارا باپ ایک ہے کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے ہے۔ تمام انسان برابر ہیں فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ کسی عجمی کو عربی، کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ نہ کالے کو گورے پر نہ گورے کو کالے پر۔ اگر فضیلت حاصل ہے تو وہ صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو جان و مال اور عزت کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی اور پوری دنیا کے سامنے نیا ورلڈ آرڈر پیش کیا۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا لوگو ہم نے تم کو ایک مرد ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنائیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔ رنگ نسل زبان وطن اور قومیت کے تعصب کی بناء پر انسان قدیم زمانے سے لے کر آج تک ہر دور میں انسانیت کو نظر انداز کر کے مفاد پرستی کے دائرے میں گھرا ہوا ہے۔ ان دائروں سے باہر نکلنا عصر حاضر کا ناگزیر تقاضا ہے لہذا ہمیں شیطانی دائرے سے نکل کر ہی انسانیت کو اپنانا ہوگا۔ یہی ہماری اصل کامیابی کی ضمانت ہے۔ اسلام دنیا کے تمام انسانوں کے حقوق کا علمبردار ہے۔ جب بھی کسی انسان پر مصیبت پڑے تو اس کے ساتھ ہمدردی کرنے کا سبق دیتا ہے۔ انسان کو کوئی ضرورت پیش آئے تو اس کی ضرورت پوری کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام انسانیت کی بقا ارتقاء اور فلاح و بہبود کے تمام سنہری اصولوں کا امین ہے۔ اسلام میں حقوق انسانی کا ایسا جامع تصور پیش کیا گیا ہے کہ جس میں حقوق و فرائض میں باہمی توازن پایا جاتا ہے۔ آج کا انسان خود غرضی اور مفاد پرستی کی وجہ سے زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے نزدیک انسانیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دنیا کے انسانوں کو انسانی زوال سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ انسانیت کے لیے اصلاحی تحریک شروع کی جائے۔ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا کے تمام انسان ایک دوسرے کو ایک ہی خاندان کا فرد سمجھیں۔ کیونکہ سب انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ اس تخلیقی رشتے کا تقاضا یہ ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے سے محبت کریں اور عالمی امن کے لیے کوشش کرتے رہیں۔ جو انسان احترام انسانیت پر یقین نہیں رکھتا وہ گویا اللہ کی کھلی نافرمانی کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے فرمایا۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا.

متعلقہ خبریں۔

Check Also
Close
Back to top button