کالم

ٹرمپ کا بھاشن، تالاب میں پتھر

(بیرسٹر حمید باشانی)

جنوری کی اُس انتہائی سرد شام کو جب ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن میں صدارتی حلف اٹھانے کے لیے تیار بیٹھے تھے ملک کے طول و عرض میں ٹیلی ویژن سکرینیں روشن تھیں‘ عوام ٹیلی ویژن سکرینوں سے چپکے ہوئے تھے۔ فون لائیو اَپ ڈیٹس سے بھرے پڑے تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی عوام سے خطاب کرنے والے تھے‘ ان کے الفاظ پہلے سے پولرائزڈ اور سیاسی طور پر تقسیم شدہ امریکہ میں تقسیم کی نئی لہریں پیدا کرنے کیلئے تیار تھے۔
اپنی صدارتی تقریر کا آغاز انہوں نے اپنے خاص اعتماد کے ساتھ امریکہ کی عظمت کی طرف واپسی‘ معاشی بحالی اور امریکہ کی خودمختاری کیلئے لڑائی کی بات سے کیا۔ ان کی یہ تقریر‘ بلکہ یوں کہیے کہ بیان بازی ہمیشہ کی طرح پرانی یادوں اور بے باکی کا ایک پُرجوش امتزاج تھی‘ جو نادیدہ دشمنوں سے لڑتے ہوئے امریکہ کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے وعدوں سے بھرپور تھی۔ ان کے یہ الفاظ پورے ملک میں گونج رہے تھے جس کے فوری اثرات کسی ورچوئل ڈرامے کی طرح سامنے آرہے تھے۔ واشنگٹن ڈی سی کے مرکز میں شاندار بینکوئٹ ہالز میں کاروباری رہنما جمع تھے۔ ان کی گفتگو میں جوش و خروش تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکسوں میں کٹوتیوں اور ڈی ریگولیشن کے وعدے نے ان کو خوشی بخشی تھی۔ ”بڑی کاروباری کارپوریشنوں کے لیے یہ کئی دہائیوں میں سب سے بڑی خبر ہو سکتی ہے‘‘ ایک ایگزیکٹو نے دوسرے سے سرگوشی کی جو پہلے ہی اپنے ذہن میں نمبروں کا حساب لگا رہا تھا۔ سٹاک مارکیٹوں میں تبدیلی آ رہی تھی۔ ٹرمپ کا افتتاحی خطاب ختم ہونے سے پہلے ہی سٹاک مارکیٹ اُڑان بھر چکی تھی۔
دوسری طرف‘ میلوں دور محنت کشوں اور مزدوروں کے ایک محلے میں اس تقریر پر آنے والا ردِعمل بالکل مختلف تھا۔ تعمیراتی کارکنوں کا ایک گروہ‘ایک کونے میں ایک چھوٹے سے ٹیلی ویژن کے گرد جمع تھا اور غور سے ٹرمپ کا افتتاحی خطاب سُن رہا تھا۔ ٹرمپ کے نئے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے وعدے نے ان کے حوصلے کچھ دیر کے لیے ضرور بلند کیے تھے لیکن ان کے شکوک و شبہات برقرار تھے۔ ”نئے حکمران ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ہمارے لیے نئی نوکریاں آنے والی ہیں‘‘ ایک آدمی کافی پیتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا۔ ”لیکن یہ ہمیشہ کوئی اور ہوتا ہے جو یہ نوکریاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے‘‘۔
ٹرمپ کی افتتاحی تقریر نے اس دوران ایک کالج کیمپس میں گرما گرم بحث چھیڑ دی۔ لیکچر ہالز میں نوجوان بیان بازی کرنے لگے۔ ”امریکی اقدار‘‘ کو ترجیح دینے کے ٹرمپ کے دعوے نے ان کے اعصاب کو متاثر کیا تھا۔ ”کون سی اقدار‘‘ ایک طالب علم نے اچانک یہ سوال اٹھایا۔ ”جب ٹرمپ خودمختاری کی بات کرتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سرحدیں اور بھی سخت یا بند کر دی جائیں؟ عالمی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لیا جائے؟ دنیا بھر سے حکمران اشرافیہ کے ستائے ہوئے لوگوں پر امریکہ کے دروازے بند کر دیے جائیں۔ امریکہ کا انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کا کردار محدود کر دیا جائے‘‘؟
اس تقریر کے حوالے سے امریکی میڈیا کا ردعمل متوقع طور پر پولرائزڈ تھا۔ قدامت پسند میڈیا اداروں نے ٹرمپ کی تقریر کو خوشحالی کا ایک جرأت مندانہ خاکہ قرار دیتے ہوئے خوب سراہا جبکہ لبرل مبصرین نے اسے ایک تقسیم کرنے والا منشور قرار دیا۔ سوشل میڈیا صارفین بھی متحرک ہو گئے اور منٹوں میں ٹرمپ کی تقریر کے ہیش ٹیگز ٹرینڈ ہونے لگے۔ اس تقریر کی وڈیوز کو خوب پھیلایا جا رہا تھا۔ٹرمپ کی اس تقریر پر عالمی سطح پر آنے والا ردِعمل بھی اتنا ہی تیز تھا۔ امریکی اتحادیوں نے اسے ایک محتاط اور رجائیت پسندانہ نظریے سے دیکھا جبکہ مخالفین کی طرف سے اس پر تنقید کی گئی۔ یورپی دارالحکومتوں میں ان ممالک کے رہنماؤں کی طرف سے اس تقریر کے مضمرات کو سمجھنے کیلئے ہنگامی اجلاس بلائے گئے۔ وہ پریشان تھے کہ ٹرمپ کی وعدہ شدہ معاشی پالیسیاں عالمی منڈیوں کو متاثر کرنے والی ہیں۔
اس تقریر کے بعد اگلی صبح تک امریکی شہرِ اقتدار بیدار تھا‘ ابھی تک ٹرمپ کی تقریر پر ردِ عمل آ رہا تھا۔ ایک نوجوان ماں‘ جو بس کا انتظار کر رہی تھی‘ اپنے فون پر سکرول کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ صدر نے اپنی پہلی تقریر میں جن پالیسیوں کا وعدہ کیا ہے‘ وہ اس کے خاندان پر کیسے اثر انداز ہوں گی۔ ایک تارکِ وطن ٹیکسی ڈرائیور ایک مسافر کے ساتھ امریکی صدر کی پالیسیوں کی خوبیوں پر بحث کر رہا تھا۔ اس دوران کانگریس کے ہالوں میں امریکی قانون ساز اس منصوبہ بندی پر عملدرآمد کی حکمت عملی تیار کر چکے تھے۔ امریکی صدر کی افتتاحی تقریر تالاب میں پتھر کی مانند تھی جس سے ایسی لہریں پیدا ہوئیں جس سے معاشرے کا ہر طبقہ مضطرب ہوا۔ اس سے ٹرمپ کے حامیوں کا حوصلہ بڑھا‘ کچھ طبقات میں ٹرمپ کے عزائم کے حوالے سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا اور کچھ طبقات بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہوئے۔ اس تقریر کے حوالے سے جیسے جیسے امریکی عوام کا ردِ عمل سامنے آیا‘ ایک بات واضح ہوگئی کہ یہ محض ایک خطاب نہیں یہ ایک ایسی چنگاری ہے جو سخت رد عمل کی آگ کو بھڑکائے گی اور آنے والے دنوں‘ ہفتوں اور برسوں میں نئی امریکی پالیسیوں کو تشکیل دے گی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افتتاحی خطاب سے امریکہ اور دنیا بھر میں ردِعمل کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ اب تک جاری ہے۔ امریکہ میں اس تقریر کو تعریف اور تنقید دونوں کا سامنا کرنا پڑا جو وہاں گہری سیاسی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے۔ قدامت پسند مبصرین نے اس خطاب کی تعریف کی۔ کچھ تجزیہ کاروں نے صدر کی جانب سے سیاسی شخصیات پر براہِ راست فردِ جرم عائد کرنے‘ اقتصادی ریلیف‘ امیگریشن اصلاحات اور امریکی وقار کی بحالی کے لیے ان کے واضح مینڈیٹ پر روشنی ڈالی۔ اسی طرح کئی ایک تجزیہ کاروں نے زور دیا کہ ڈیموکریٹس کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت بیکار ہو گی۔ اس کے برعکس لبرل مبصرین اور سیاستدانوں نے صدر کی تقریر کو اس کے مخصوص لہجے اور مواد کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا۔ کچھ لوگوں نے اسے نامناسب اور منافقانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے مخصوص گروہوں کو الگ کر دیا ہے۔ اس ملے جلے ردعمل نے امریکہ میں موجود سیاسی پولرائزیشن کو واضح کیا ہے۔
عالمی سطح پر ٹرمپ کے وعدوں پر یکساں طور پر خدشات کا اور برہمی کا اظہار کیا گیا۔ خاص طور پر تاریخی دعووں سے متعلق۔ نیوزی لینڈ میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹم کی تقسیم کا سہرا امریکیوں کے سر سجانے کے بعد بڑا سخت ردعمل سامنے آیا کیونکہ یہ کارنامہ نیوزی لینڈ کے ماہر طبیعیات ارنسٹ ردرفورڈ کا ہے۔ نیوزی لینڈ کے شہر نیلسن کے سٹی کونسل کے میئر نک سمتھ نے زور دے کر کہا کہ یہ کارنامہ ردرفورڈ کا ہے جو نیلسن‘ نیوزی لینڈ کی ایک مشہور شخصیت ہیں۔ میئر نے اس ریکارڈ کو درست کرنے کے لیے امریکی سفیر سے باقاعدہ ملاقات کی۔
صدر ٹرمپ کے فوری انتظامی اقدامات بشمول پیرس ماحولیاتی معاہدے اور عالمی ادارۂ صحت سے دستبرداری نے بین الاقوامی برادریوں میں تشویش کو جنم دیا ہے۔ ان فیصلوں کو عالمی امور میں امریکہ کے کردار میں تبدیلی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ماحولیاتی تبدیلی اور صحتِ عامہ جیسے اہم مسائل پر بین الاقوامی تعاون کے مستقبل کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے ٹرمپ انتظامیہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرتی جائے گی‘ صدر ٹرمپ کے فیصلوں کے مضمرات سامنے آتے جائیں گے‘ جو آنے والے سالوں میں ملک کی سمت کا تعین کریں گے۔ لیکن اس بات میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ امریکہ ایک نیا روپ دھارنے جا رہا ہے اور اس سے دنیا کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button