کالم

ریاست کیا چاہتی ہے؟

(میاں حبیب)

ایک نوجوان ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر کے پاس گیا اور اسے کہنے لگا کہ میں آج کل عجیب وغریب مسائل کا شکار ہوں۔ عجیب و غریب سوچوں میں گم رہتا ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا کوئی بات نہیں میرے پاس ہر چیز کا علاج ہے آپ کھل کر بتائیں۔ نوجوان بولا کہ میں کچھ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوں۔ میں اور میرے والد ہم اکھٹے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ایک خاتون سے شادی کر لی، رشتے داری ہونے کے بعد آنا جانا شروع ہوا تو اس کی بیٹی سے میرے میرے والد کی انڈر سٹینڈنگ ہو گئی اور ان دونوں نے بھی شادی کرلی۔ اس طرح میرا والد بیک وقت میرا باپ بھی تھا اور میرا داماد بھی بن گیا۔ میری بیوی میرے باپ کی ساس بھی تھی اور بہو بھی تھی۔ کچھ عرصہ بعد میرے والد کے گھر بچہ پیدا ہوگیا میں اس بچے کا بھائی بھی تھا اور نانا بھی تھا۔ میری بیوی اس بچے کی نانی بن گئی جو میرے والد کی ساس بھی تھی۔ پھر ہمارے گھر بھی بچہ پیدا ہو گیا۔ میرے والد اس بچے کے دادا بن گئے اور بھائی بھی بن گئے۔ ابھی وہ مزید رشتے جوڑ رہا تھا کہ ڈاکٹر نے ہاتھ جوڑ دیے اور کہا کہ تم نے تو میرے دماغ کا دہی بنا دیا ہے میں تیرا کیا علاج کروں گا۔ تم نے مجھے نفسیاتی طور پر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ کر رہی ہے پہلے تو عجیب و غریب جوڑ توڑ سے حکومتیں بنائی گئیں، کون کس کے ساتھ ہے کسی کو کوئی سمجھ نہ آنے دی۔ پھر ایسے ایسے دھوبی پٹکے مارے گئے کہ عوام کے دماغ کا دہی بنا دیا گیا۔ ایک طرف خوفناک قسم کے ایکشن کیے گئے اور دوسری طرف انکے زخموں پر مرہم بھی رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ایک طرف بھرپور مقبولیت کو قائم رکھنے کیلئے تاثر کو برقرار رکھا گیا، ووٹ بھی دلوا دیے، انکے کھمبے بھی جتوا دیے، اس جماعت کو سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بھی بنا دیا اور پھر اقتدار کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا۔ انھیں احتجاج کی اجازت بھی دیدی اور احتجاج کو روکنے کا بھی پورا بندوبست کر دیا۔ مقدمات بھی بنا دیے اور ضمانتیں بھی کروا دیں۔ ماحول میں اتنا خوف پیدا کر دیا کہ دو اڑھائی سال قبل گھروں سے محفوظ ٹھکانوں کی طرف بھاگے ہوئے لوگ ابھی تک گھر واپس نہیں آ سکے۔ انقلاب لانے والوں کو اس قدر ڈرایا گیا کہ بہت سارے سیاست سے ہی توبہ تائب ہو گئے۔ اور اب تو شاہکار قسم کا ماحول بنا دیا گیا ہے۔ ایک طرف حکومت کے ساتھ مذاکرات کا ڈھونگ رچا دیا تو دوسری طرف بیک ڈور چینل چلا دیے۔ جب جی چاہا ان کے لیڈر کو قید تنہائی کا شکار کر دیا، جب جی چاہا رات  کے اندھیرے میں تمام جیل ضابطے پس پشت ڈال کر آدھی رات کو بھی ملاقاتیں کروا دیں۔ اور جب جی چاہا کئی کئی ہفتوں تک ملاقات کیلئے ناک کی لکیریں نکلوانے کے باوجود ملاقات نہ ہونے دی۔ جب جی چاہا پارلیمنٹ میں اچھے بچوں کی طرح پیار محبت کی پینگیں بڑھا دیں، جب جی چاہا فل لڑائی مار کٹائی کا ماحول بنا دیا۔ ایسے لگتا ہے جیسے سب گورکھ دھندا ہے۔ اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور انکی اہلیہ کو سزا سنا دی گئی اور ساتھ ہی مختلف چینلز سے مفاہمت کیلئے رابطے بھی عروج پر ہیں۔ حکومت کے ساتھ مذاکراتی ٹیموں کی ملاقاتیں بھی جاری ہیں اور پس پردہ معاملات بھی چلائے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں کو ڈرایا بھی جا رہا ہے کہ خان باہر آ رہا ہے اور انھیں حوصلہ بھی دیا جا رہا ہے کہ کچھ نہیں ہو گا، یہ سیٹ اپ ایسے ہی برقرار رہے گا۔ کسی کی چھٹی ہونے کی افواہیں بھی چلوائی جا رہی ہیں تو کسی کو سٹیرنگ سنبھالنے کیلئے تیاریاں کرنے کی بھی آس دلوائی جا رہی ہے۔ کسی کو گاجر بھی دکھائی جا رہی ہے اور چھڑی سے بھی ڈرایا جا رہا ہے۔ پیار بھی کیا جا رہا ہے اور خوفزدہ کرنے کیلئے کہانیاں بھی سنائی جا رہی ہیں۔ ہو کیا رہا ہے اور ہونے کیا جا رہا ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کچھڑی پک رہی ہے، اس سسٹم نے چلنا ہے یا نہیں۔ نیا سیٹ اپ کیا بن رہا ہے کون کس کے ساتھ ہے کون کس کی گیم کر رہا ہے، کس کے کس کے ساتھ رابطے ہیں، کس وقت کیا ہو جائے کچھ پتہ نہیں۔ کنفیوڑن اتنی زیادہ ہے کہ کچھ واضح نہیں ہو رہا۔ حالات مستحکم کرنے کے لیے کوششیں بھی کی جا رہی ہیں اور حالات میں غیر یقینی پیدا کرنے اسباب بھی پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اسی افراتفری اور غیر یقینی کے باعث حالات نارمل نہیں ہو رہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز اپنی اپنی گیموں میں لگے ہوئے ہیں اور تمام سٹیک ہولڈرز دعوے دار ہیں کہ سب کچھ عوام کے وسیع تر مفاد میں کر رہے ہیں۔ اور جن کے وسیع تر مفاد کیلئے سارا کچھ کیا جا رہا ہے ان کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ آخر کوئی تو عوام کو بھی سٹیک ہولڈر سمجھ کر انہیں اعتماد میں لے۔ کوئی تو بتائے کہ آپ ان کیلئے کیا کر رہے ہیں، کیا کرنے جا رہے ہیں۔ کنفیوڑڈ معاشروں میں کبھی بہتری  نہیں آ سکتی جس معاشرے کے عوام کو لاتعلق کر دیا جائے انھیں یہ پتہ نہ ہو ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور انکے بڑے ان کیلئے کیا کرنے جا رہے ہیں تو اس معاشرے کے لوگ بھی پھر بے حس ہو جاتے ہیں۔ بہترین معاشرے کی تشکیل میں باہمی رابطوں اور اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے جو یکجہتی کو فروغ دیتا ہے۔ مہذب معاشروں میں معمولی معمولی سے اقدامات پر بھی عوام کو اعتماد میں لیا جاتاہے، انکی رائے لی جاتی ہے جس سے ان میں احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی سٹیک ہولڈرز ہیں اور ان کے بڑے ان کی بہتری کیلئے کچھ کر رہے ہیں ہمارے معاشرے میں بے حسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں  ہماری کوئی اوقات نہیں، فیصلے اوپر سے آنے ہیں۔ یہ گہری ہوتی لا تعلقی بہت خوفناک ہے۔ بڑوں اور عوام کے درمیان پیدا ہوتے اس خلیج کو کم کریں ورنہ انجام بڑا خوفناک ہو گا کیونکہ اندھیرے میں رکھ کر چلائے جانیوالے تیر اکثر خطا کھا جاتے ہیں۔بشکریہ نوائے وقت۔

متعلقہ خبریں۔

Check Also
Close
Back to top button