پاکستان

سویلین ٹرائل کیس،وزراتِ دفاع سے سویلین کے ملٹری ٹرائل کی تفصیلات طلب

اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی،جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ سوال یہ ہے کیا سویلین کے ملٹری ٹرائل والے قانون میں ترمیم ہو سکتی ہے،آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا ہے ؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق خواجہ حارث نے بتایا ایکٹ کا مقصدآرمڈفورسز میں ڈسپلن یا کریمنل سرگرمیوں  کا جائز ہ لینا ہے تاکہ آرمڈ فورسز کی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہ آئے،جسٹس جمال خان مندوخیل نے قرار دیا کہ کریمنل سرگرمیوں کی الگ سے قانون سازی ہوتی تو یہ مسائل نہ آتے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ فیئر  ٹرائل  کا آرٹیکل 2010 میں آیا، فوجداری ضابطہ 1898 کا ہے، ضابطہ فوجداری میں  ٹرائل کا پورا طریقہ کار دیا گیا۔

جسٹس  نعیم اختر افغان نے ریمارکس دئیے کہ  آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے جوانوں  اور افسروں کو ڈیل کرتا ہے،1967 میں ترمیم  کر کے ٹو ون ڈی ون سیکشن شامل ہوا،اس ترمیم  سے قانون میں ” کوئی بھی شخص” کے الفاظ شامل کر دئیے گئے،ان الفاظ  کو شامل کرنا سے ریٹائرڈ افسران بھی  ملٹری ٹرائل کے دائرے میں آ گئے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے قرار دیا کہ آئین میں 10 اے آنے کے بعد  بھی فیئر ٹرائل پر عدالتوں میں بات ہوتی ہے،قانون  میں  ترمیم سے پہلے ریٹائرڈ افسران ملٹری ٹرائل  میں آئے،لگتا ہے قانون میں  شامل” کسی بھی شخص” کے الفاظ  کا درست تعین نہیں ہوا،قانون میں شاید یہ سقم رہ گیا ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ سویلین کے ٹرائل  کیلئے آئینی ترمیم کرنا پڑی؟وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آئینی ترمیم کسی اور وجہ سے کی گئی،آئینی بینچ  کے سربراہ  جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دئیے کہ کلبھوشن یا دیو کے علاوہ اب تک کتنے سویلین کا ٹرائل ہوا،ڈیٹا کے ساتھ جواب دیں۔

۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button