مذاکراتی عمل کا اگلا رائونڈ اور ’’ایلون مسک‘‘
(طاہر جمیل نورانی)
تحریک انصاف اور اتحادی حکومت کے مابین جاری مفاہمتی مذاکرات اور ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کی بحالی کیلئے کی جانے والی دوطرفہ کوششوں کی کامیابی کیلئے جہاں اندرون ملک دعائیں مانگی جا رہی ہیں‘ وہیں برطانوی پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد بھی ملکی استحکام کیلئے طے کئے گئے اس مذاکراتی فارمولے کی کامیابی کیلئے کافی پرعزم دکھائی دے رہی ہے۔ اب یہ سوال کہ حکومت اور تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیموں کے مابین گزشتہ پچیس روز سے جاری مذاکرات کے حتمی نتائج کیا نکلتے ہیں‘ اس بارے میں کچھ بھی کہنا فی الحال قبل ازوقت ہوگا کہ اس نوعیت کے مذاکرات میں ’’پلٹناجھپٹنا‘ جھپٹ کر پلٹنا‘‘ کے عمل کو اس وقت تک جاری رکھنا پڑتا ہے جب تک معاملہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل نہ ہو جائے۔ اور یوں بھی ہماری سیاست اور جمہوریت کا دنیا میں اپنا الگ ہی طریقہ کار ہے۔ ہماری جمہوریت کا رول ماڈل چونکہ برطانوی جمہوریت کا مرہون منت ہے اس لئے ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے یہ عادت سی بنا رکھی ہے کہ جمہوریت کا جب بھی وہ ذکر کرتے ہیں‘ برطانوی جمہوریت اور انگریز کی غیرمعمولی صلاحیتوں کے ذکر کے بغیر وہ اپنا عوامی خطاب مکمل نہیں کر پاتے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ کہ ایسے خطاب اور تقاریر ہمارے وہ لیڈر اور سیاست دان کرتے ہیں جنہیں برطانوی فلاحی نظام اور حقیقی جمہوری روایات کا تو ہرگز ادراک حاصل نہیں مگر ملکی مسائل کے فوری حل کیلئے ’’جمہوری فارمولوں‘‘ پر متاثر کن تقریریں کرنے پر انہیں دسترس ضرور حاصل ہے۔ تحریک انصاف اور حکومتی ٹیموں کے مذاکرات میں ’’کولیشن پارٹنرز‘‘ کے اراکین کو بھی چونکہ شامل کیا گیا ہے اس لئے اب یہ اندازہ لگانا کہ مذاکرات کمیٹی میں شامل ایم کیو ایم‘ باپ‘ پیپلزپارٹی‘ استحکام پاکستان اور دیگر اتحادی اراکین سمیت پاکستان مسلم لیگ (ضیاء الحق) کا مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے نقطہ نظر کیا ہوگا‘ زیادہ دشوار نہیں رہا۔
مسلم لیگ (ضیاء ) کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی محمد اعجازالحق سے اس بارے میں جب اگلے روز بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایسی نوعیت کے قومی مذاکرات کی کامیابی کا دارومدار ہمیشہ Give and Take پر ہوتا ہے۔ اس لئے ’’چارٹر آف ڈیمانڈ‘‘ پر بحث ناگزیر ہے تاہم مذاکرات کا آغاز اچھے اور دوستانہ ماحول میں ہو چکا ہے۔ دونوں اطراف سے قوت برداشت کا بھی بھرپور مظاہرہ کیا جا رہا ہے اس لئے توقع ہے کہ معاملات درست سمت ہی جائیں گے۔ آپ یہ بتائیں کہ دوران مذاکرات اپنی رائے دینے میں آپ کیا آزاد ہیں؟ میرے اس سوال پر اعجازالحق نے ایک بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ آپکے سوالوں کی یہی ادا تو مجھے پسند ہے کہ ’’بغیر سیاسی ملاوٹ‘‘ کے سوال داغ دیتے ہیں۔ آپ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ حکومت اپنی جگہ مگر میں مسلم لیگ (ضیاء) کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ مجھ پر کسی کی کوئی قدغن یا دبائو نہیں۔ مجھے اپنے ملک و قوم اور موجودہ سیاسی بحران کو حل کرنے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کرنا ہیں کہ پاکستان اب مزید سیاسی و معاشی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اپنی قومی سیاست میں میں ہمیشہ مفاہمت کا حامی رہا ہوں‘ اس لئے میری بھرپور کوشش ہو گی کہ جاری مذاکرات انتہائی سازگار ماحول میں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ مگر آپ کا یہ کہنا کہ ’’ہو سکتا ہے‘‘ تحریک انصاف کے مطالبات پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کے دستخط بھی کرائے جائیں۔ گہری سیاسی سوچ کا مظہر ہے۔ اس ’’ہو سکتا ہے‘‘ کو مزید تفصیل سے بیان کریں گے؟ میں نے پوچھا۔ اعجاز الحق نے اس مرتبہ قہقہہ لگایا مگر اس بار یہ قہقہہ ہلکا تھا۔ حکومتی کمیٹی کا میں ایک رکن ہوں اور عرض کر چکا ہوں کہ اپنی جماعت کی نمائندگی کر رہا ہوں ایسے حالات میں ’’ہو سکتا ہے‘‘ کی مزید تشریح کیا ہو سکتی ہے۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ حکومتی کمیٹی کو صرف مذاکرات کے اختیارات دیئے گئے ہیں جن کی رپورٹ آنے پر اصل فیصلہ حکومت نے کرنا ہے اس لئے پھر کہوں گا ’’ہوسکتا ہے‘‘ معاملات جلد بہتری کی جانب رواں دواں ہو جائیں کہ سیاسی تنائو کم کرنے اور اعتماد کی بحالی کیلئے مذاکراتی عمل میں ’’ہوسکتا ہے‘‘ ہی ایسے موزوں الفاظ ہیں جو حتمی فیصلے سے قبل ادا کئے جا سکتے ہیں۔ بہت شکریہ! اور یوں ہماری گفتگو کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔
اس حقیقت سے بلاشبہ انکار ممکن نہیں کہ حکومتی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں طے کردہ نکات پر جب بحث کا معاملہ آجائے تو بعض اوقات مذاکرات کا رخ یکسر تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔ مذاکرات تعطل کا شکار بھی ہو سکتے ہیں اور میرے منہ میں خاک مذاکرات بے نتیجہ ہو کر گھمبیر سیاسی صورتحال سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔
میرے ذرائع کے مطابق مذاکرات کے تیسرے دور کابھی آج آغاز ہو رہا ہے‘ تاہم یہ بات اٹل ہے کہ تیسرا مذاکراتی دور اس لئے بھی اہم تصور کیا جائیگا کہ اس میں پی ٹی آئی کے ’’چارٹر آف ڈیمانڈ‘‘ پر مذاکراتی کمیٹی کی سفارشات پر اتحادی حکومت کو حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ وزیراعظم کے مشیر راناثناء اللہ گو مذاکرات جاری رکھنے کے حق میں ہیں مگر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا حکومت اور مذاکراتی ٹیم کو مبینہ طور پر باربار ’’محتاط‘‘ رہنے کا مشورہ اس خطرے کا غماز ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں اتحادی حکومت میں ’’اپنو اپنی‘‘ کی صورت پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا۔ حالات عجیب صورتحال اختیار کرتے جا رہے ہیں اور یہی وہ افسوسناک پہلو ہے جو اوورسیز پاکستانیوں کی سوچ پر آہستہ آہستہ حاوی ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اب آئیے برطانوی پاکستانیوں کیخلاف امریکی دولت مند اور ڈونلڈ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن میں ممکنہ طور پر اہم ترین عہدہ پر فائز ہونے والے ’’ایلن مسک‘‘ کے حالیہ دیئے اشتعال انگیز بیان پر جس میں انہوں نے ’’گرومنگ گینگز‘‘ کے حوالہ سے برطانوی پاکستانیوں کے بارے میں مبینہ طور پر غلط اور بے بنیاد معلومات فراہم ہی نہیں کیں‘ یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش بھی کی ہے کہ برطانیہ میں ’’بچوں سے جنسی زیادتی‘‘ میں ملوث زیادہ تر تعداد برطانوی پاکستانیوں کی ہے جبکہ ڈیٹا بیس کے مطابق اصل صورتحال یہ ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں 85 فیصد تعداد سفید فارم افراد کی ہے۔ ان میں ایشیائی اور پاکستانیوں کی تعداد 3 اعشاریہ 9 فیصد ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی خبروں پر پاکستانی کمیونٹی بغیر کسی خوف و خطر اظہار خیال کرے تاکہ سینہ گزٹ کا خاتمہ ہو سکے۔
اس سلسلہ میں ہمارے سکاٹ لینڈ کے پہلے سابق وزیر حمزہ یوسف نے ’’ایلون مسک‘‘ کو دیئے اپنے جواب میں ’’سیارے‘‘ کے سب سے زیادہ خطرناک افراد میں سے ایک فرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایلون اپنے دائیں بازو کے نظریات ایکس پلیٹ فارم کے ذریعے تشدد بڑھانے اور تشدد پھیلانے کیلئے استعمال کر رہا ہے جس سے محتاط رہنا ناگزیر ہے۔ برطانوی ہیلتھ سیکرٹری سمیت متعدد دیگر لیڈروں نے بھی ’’ایلون مسک‘‘ کے نظریے کی بھرپور مذمت کی ہے۔بشکریہ نوائے وقت۔