اچھے دنوں کی امید
(سرفراز راجا)
پاکستان بہتری کی جانب گامزن ہے،کیا واقعی ؟ معاشی آعشاریے تو مثبت ہیں،اعدادوشمار بہتر ہوتے بتا جارہے ہیں، عالمی مالیاتی ادارے اچھی ہیشگوئیاں کررہے ہیں،قومی اداروں کی رپورٹس کے مطابق مہنگائی کی شرح دس سال کی کم ترین سطح پر آچکی ہے۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ مہنگائی کی شرح کم ترین ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو قیمتیں دس سال قبل تھیں آج اس سے کم ہوچکی ہیں بلکہ مہنگائی کی شرح دراصل مہنگائی بڑھنے کی شرح ہوتی ہے اور دنیا بھر کے ممالک اسے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور قیمتوں کے برقرار رہنے کو ہی دراصل کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آج سے دس سال قبل مہنگائی جس رفتار سے بڑھ رہی تھی آج یہ شرح اس سے کم ہے۔ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ متوقع ہے سعودی عرب اور عرب امارت جیسے ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کررہے ہیں جس کا سیدھا سیدھا مطلب روزگار کے نئے مواقع اور بیروزگاری میں کمی ہے۔ تو حالات کو بہتر ہورہے ہیں اور اگر کوئی یہ نہیں مانتا تو خان صاحب کی مان لیں انہوں نے بھی مان لیا ہے کہ معشیت میں بہتری آئی ہے۔ جی ہاں وہی خان صاحب جو اپنے سیاسی مخالف کی کسی بات کو کبھی درست نہیں مانتے ان کی ہر بات اور ہر اقدام کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور وہ تو ان کی وجود کو بھی تسلیم کرنے سے انکاری رہے۔ لیکن اب وہ یہ مان رہے ہیں کہ معشیت بہتر ہوئی ہے اور ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے۔ یاد کریں تو خان صاحب ہی اپنی حکومت کے جانے کے بعد معیشت کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کرتے رہے وہ اور ان کے سیاسی ساتھی پاکستان کے سری لنکا بننے کی ہیشگوئیاں کرتے رہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا پاکستان اس مشکل سے نہ صرف نکلا بلکہ اب بہتری کی جانب گامزن ہے۔ لیکن یہ سب ہوا کیسے۔ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ کرنا کیا ہوگا یہ تو سبھی بتارہے تھے کرنا کیسے ہے یہ بہت مشکل تھا۔ تھوڑا پیچھے جائیں 2022 کی پہلی سہ ماہی،عمران خان اور ان کی حکومت کی مقبولیت گرتے گرتے سنگل ڈیجٹ میں آچْکی تھی اگر اس وقت انتخابات ہوتے تو شاید عمران خان کی جماعت کو امیدوار تک نہ ملتے ان کی پارٹی کے ارکان دوسری جماعتوں میں جگہ تلاش کرتے پھر رہے تھے تو اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کے زریعے خان صاحب کو ہٹا دیا عمران خان نے سیاسی مظلومیت اور امریکی مداخلت کا کارڈ بڑی کامیابی کیساتھ کھیلا اور حکومت جانے کے بعد اپنی مقبولیت کو بڑی حد تک بحال کیا حکومت میں آنیوالی پی ڈی ایم کی جماعتوں کو احساس ہوگیا تھاکہ معشیت بچ سکتی ہے یا سیاست۔ سیاست بچانے کیلئے پہلے فوری انتخابات کا آپشن بھی چنا گیا لیکن پھر فیصلہ ہوا معشیت بچانی ہے سیاست کو بعد میں دیکھا جائے گا ،پیٹرول بجلی مہنگی کرنے جیسے غیر مقبول فیصلے کئے گئے وہی فیصلے جو ناگزیر سمجھے جاتے تھے لیکن کوئی بھی حکومت لینے ڈرتی تھی۔ عمران خان جیسے انتہائی جارحانہ سیاسی مخالف کی موجودگی میں یہ فیصلے اور بھی مشکل ثابت ہوئے ان حالات میں پاکستانی عوام کی قربانی سب سے بڑی تھی جنہوں نے ان مشکل فیصلوں کا بوجھ مہنگائی کی صورت میں اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور ملک کو دیوالیہ پن کی سامنے دکھنے والی دلدل سے دور رکھا۔ انتخابات سے قبل پی ڈی ایم حکومت کے سولہ ماہ سب کیلئے مشکل ترین ثابت ہوئے، عوام کیلئے بھی ،حکمرانوں کیلئے بھی ،عوام نے مہنگائی کا بوجھ اٹھایا تو حکمرانوں نے سیاسی غیر مقبولیت کا۔ اب شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ کی اتحادی حکومت کے دس ماہ مکمل ہوچکے ہیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ ڈوبتی معشیت پھر سے سر اٹھایا رہی ہے۔ اچھی خبریں آرہی ہیں ،ملک سفارتی تنہائی سے باہر آرہا ہے۔ عالمی برادری میں پاکستان کو اہمیت دی جارہی ہے،غیر ملکی سربراہان اور اعلی سطح کے وفود تسلسل کیساتھ پاکستان آرہے ہیں آنے والے دنوں سے اچھی امیدیں ہیں۔ ملک میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سیاسی عدم استحکام تھا دھرنوں احتجاج کی سیاست معیشت کو دھچکے دے رہی تھی، اتحادی سیاسی جماعتوں نے مذاکرات کے زریعے اس کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے اور مخالف سیاسی جماعتوں کو تسلیم نہ کرنے والی تحریک انصاف ان کیساتھ مذاکرت کیلئے بیٹھ چکی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سب کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے اس کیلئے کوئی شخصیت ناگزیر نہیں ملک ناگزیر ہے اگر ملک میں کچھ بہتر ہورہا ہے تو صرف مخالفت برائے مخالفت کی بجائے اسے سپورٹ کیا جانا چاہئے یہی حب الوطنی ہے اور یہی اس ملک اور قوم کی ضرورت۔ ملکی حالات بہتر ہوں گے تو ظاہر ہے اس کا فائدہ ہر اس فرد کو ہوگا جس کے مفاد اس ملک سے جڑے ہیں مسئلہ صرف انہی کو ہوگا جن کا مفاد کچھ اور ہے۔بشکریہ نوائے وقت۔