کالم

سیاسی منظر نامہ اور غافل عوام

(مشتاق احمد قریشی)

اس وقت وطنِ عزیز کے طول و عرض میں سیاسی ہلچل کی کچھ صدائیں گونجتی سنائی دے رہی ہیں اور رُوز ہی سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کی طرف سے بیانات نشر اور شائع ہوتے نظر آرہے ہیں، اس بارے میں مختلف لوگوں کی مختلف آرا ہیں اسلئے موردِ الزام کسی ایک فرد یا جماعت کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا لیکن اس بات سے سب ہی اتفاق کرتے ہیں کہ حالات درست نہج پر نہیں چل رہے، جنہیں جلد سدھارنے کی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں ہونے والے متنازعہ عام انتخاب سے پہلے حکم ران جماعت مسلم لیگ ن کی طرف سے دعویٰ کیا جارہا تھا کہ چوتھی بار وزیرِ اعظم محمد نواز شریف لیکن معاملہ اس نہج تک نہ پہنچ پایا اور جب انتخاب میں میاں محمد نواز شریف نے مطلوبہ نتائج یا مطلوبہ تعداد حاصل نہیں کی تو وہ لندن چلےگئے اور اب تمام تر حکومتی اور پارٹی ذمہ داریاں انکے چھوٹے بھائی کے ناتواں کندھوں پہ آگئیں اور اس کیساتھ ہی انہیں سانجھے کی ہنڈیا مصداق اپنے اتحادیوں جن کی حمایت سے حکومت وجود میں آئی تھی کو بھی ساتھ لے کر چلنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اب تو کچھ عرصہ سے دونوں بڑی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ’’اصولی اختلافات‘‘ کی افواہیں بہت تیزی سے گردش کررہی ہیں اور مسلم لیگ کی قیادت ہر ممکن کوشش میں ہے کہ کسی بھی طرح ان اختلافات کی بھنک بھی ذرائع ابلاغ کے کسی بھی شعبہ یا عوام کو نہ ہو پائے پھر بھی اڑتی اڑتی کوئی نہ کوئی خبر سننے کو مل ہی جاتی ہے۔ ابھی کل ہی نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار کی صدر مملکت اور اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات ہوئی تھی اور سننے میں آرہا کہ اس ملاقات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی فوری حل نکل پایا۔ اب دیکھتے ہیں کہ ’’یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘‘ ۔دوسری طرف حکومت اور پی پی پی میں مذاکرات کی باتیں بھی ہو رہی ہیں جن میں چند وفاقی وزراء کے بیانات بھی قابلِ ذکر ہیں جو مذاکرات کی تصدیق کررہے ہیں جبکہ پی پی پی کے چند ارکان کا کہنا ہے کہ اقتدار مذاکرات یا بھیک سے نہیں بلکہ عوامی حمایت سے حاصل کریں گے۔ ان باتوں سے صاف لگ رہا ہے کہ اندر ہی اندر کوئی ’’کھچڑی‘‘ پک رہی ہے۔
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ پاکستان مسلم لیگ، متحدہ قومی مومنٹ سمیت دیگر حمایتی سیاسی جماعتوں سے بھی مسلسل رابطہ جاری رکھے ہوئے ہے جو کہ ان کی مثبت سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ پاکستان کی بڑی حلیف جماعت ہے ان کے بغیر مرکز میں حکومت تشکیل پانے میں ہمیشہ مشکلات پیش آتی ہیں۔ میری ناقص رائے میں مسلم لیگ کو متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ بھی مذاکرات کرنے چاہیں کیوں کہ وہ بھی کچھ عرصے سے حکومتی فیصلوں سے ناراض نظر آرہی ہے۔ اصل میں ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں کا کوئی نقطۂ نظر نہیں ہے، جو سیاسی جماعت صحیح وقت پر صحیح فیصلہ نہ کرسکے اسے سیاست ہی نہیں کرنی چاہیے۔ سیاست صرف حکومت کی مخالفت کا نام نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاست دان ہوں یا سیاسی جماعتیں وہ ماضی اور حال سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار ہی نہیں ہیں، بس انہیں اقتدار کی خواہش رہتی ہے کہ کسی بھی طرح اقتدار ان کے ہاتھ میں آجائے اور وہ ملک، عوام اور دیگر سیاسی جماعتوں اور حریفوں پر راج کرسکیں، اقتدار کی خواہش اپنی جگہ لیکن اس کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں کوئی قواعد و ضوابط نظر نہیں آتے، چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں۔ اسی وجہ سے تمام اہم امور بہ احسن حل نہیں ہو پاتے جس کی بڑی وجہ حزبِ اختلاف کا طرزِ سیاست ہے کہ وہاں حزبِ اختلاف کے کوئی لیڈر کی مانتا ہی نہیں، سب اپنی اپنی بولیاں بولتے نظر آرہے ہوتے ہیں اپنے سیاسی مفاد کو دیکھتے ہوئے اور اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں حزبِ اختلاف روز بہ روز بکھرتی جارہی ہے۔ جس کا فائدہ مسلم لیگ اٹھا رہی ہے، حزبِ اختلاف بجائے اس کے کہ کوئی حکمت عملی بنائے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظر آتی ہے اور حکمراں جماعت سیاسی فضا گرم رکھنے میں کافی حد تک کامیاب ہے۔ چھبیسویں ترمیم ہم سب کے سامنے ہے۔ کتنا شور وغوغا مچا اور بالآخر بھاری اکثریت کے ساتھ اسے منظور کروا کر اس کا نفاذ بھی کردیا اور حزبِ اختلاف والے ہاتھ ملتے ہی رہ گئے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ آئندہ بھی یہی کچھ ہوتا رہے گا ۔
ملک کے حالات اب ایک ایسے موڑ پر آچکے ہیں کہ ہمارے سیاست دانوں کے لیے شاید آخری موقع ہے کہ وہ ملک کا نظام کیسے چلانا چاہتے ہیں۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ بیان بازی میں اپنا وقت برباد نہ کریں، مثبت سوچ اپنائیں، عوام میں گرتی ہوئی اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کیلئے عملی اقدامات کریں اور اپنی ساکھ کو بہتر بنانے پر پورا دھیان بھی دیں اسلئے کہ اب عوام متنفر ہوتے جارہے ہیں اور اس کا تمام تر فائدہ حزبِ اختلاف کی ایک جماعت کو پہنچ رہا ہے اور اگر یہی صورتِ حال رہی تو اقتدار میں دوبارہ آنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی، اب بھی وقت ہے کہ حکومت ’’ہوش کے ناخن‘‘ لے۔ حکومتی اخراجات اور عیاشیوں کو ختم کرکے عوام کی فلاح و بہبود اور بھلائی کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ انہیں کس طرح کی سہولیات مہیا کی جائیں کہ عوام کی پریشانیاں اور مہنگائی کا طوفان ختم ہو اور عوام راحت و سکون کے ساتھ اپنی زندگی خوش گوار انداز میں گزارنے کے قابل ہو پائیں۔اللہ رب العزت ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور وطنِ عزیز کی حفاظت فرمائے آمین۔بشکریہ جنگ

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button