کالم

بھارتی دہشت گردی کا نیا روپ

(مظہر برلاس)

جب سے بھارتی خفیہ ایجنسی را نے بیرونی ممالک میں آزادی کے کچھ پروانوں کا خاتمہ کیا ہے، اس کی کارروائیاں بڑھتی جا رہی ہیں، بھارتی خفیہ ایجنسی نے خالصتان کی آزادی کے لئے لڑنے والے کچھ کرداروں کو مغربی ممالک میں قتل کیا، اب شاید ان کا اگلا ہدف کشمیر ہے کیونکہ کشمیر کی آزادی کے لئے سرگرم دو پڑھے لکھے افراد کے حوالے سے بھارتی ادارے دھمکیاں دینا شروع ہو گئے ہیں۔ ان دو شخصیات غزالہ حبیب خان اور عبد الحمید لون پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے حالانکہ یہ دونوں اپنی دھرتی کی آزادی کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں، ان دونوں پر الزام ہے کہ وہ فرینڈز آف کشمیر کے بینر تلے بھارت مخالف تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں، بھارتی خفیہ اداروں نے فرینڈز آف کشمیر کے مرکزی کرداروں کو دہشتگرد تنظیموں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، ایک الزام یہ بھی ہے کہ فرینڈز آف کشمیر، سکھس فار جسٹس کو سپورٹ کرتی ہے، اس طرح خالصتان کی آزادی کی آواز کو توانا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یقیناً آپ کے ذہن میں یہ سوال آ رہا ہو گا کہ فرینڈز آف کشمیر کی چیئرپرسن غزالہ حبیب خان اور تنظیم کے وائس چیئرمین عبد الحمید لون کون ہیں؟ کیوں بھارتی خفیہ ادارے ان دو شخصیات پر الزام تراشی کر کے انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں؟ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ جموں و کشمیر کا کچھ حصہ آزاد ہے، جسے آزاد جموں و کشمیر کہا جاتا ہے جبکہ جموں و کشمیر کا بڑا حصہ وہ ہے جس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، اسی حصے میں سرینگر اور جموں شہر ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے شہر راولاکوٹ سے سردار حبیب خان سدوزئی روزگار کے سلسلے میں کراچی گئے، وہیں ان کے بچوں کی پیدائش ہوئی، ان کا تعلیمی سلسلہ بھی کراچی ہی میں مکمل ہوا۔ غزالہ حبیب خان، سردار حبیب خان سدوزئی کی صاحبزادی ہیں، کراچی یونیورسٹی کے تقریری مقابلوں میں اول آتی رہیں، یہ شاعری کرتی رہی ہیں، ان کی کئی کتابیں آ چکی ہیں، زمانہ طالبعلمی سے ریڈیو اور ٹی وی پر کمپیئرنگ کرتی رہیں۔ کئی سال پہلے غزالہ حبیب خان، امریکا منتقل ہو گئی تھیں، وہاں جا کر انہوں نے اپنے اجداد کی دھرتی کو فراموش نہیں کیا بلکہ کشمیر کی آزادی کو اپنا مشن بنایا اور فرینڈز آف کشمیر کے نام سے تنظیم بنائی، جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز بلند کرنا ہے۔ اب بات کرتے ہیں عبد الحمید لون کی، آج سے پینتیس برس پہلے سرینگر کا ایک نوجوان عبد الحمید لون بھارتی کرکٹ ٹیم کے لئے فاسٹ باؤلر کے طور پر سلیکٹ ہوا، نئے سلیکٹ ہونے والے لڑکوں کو سابق بھارتی کرکٹر مدن لال دہلی میں ٹریننگ دے رہے تھے، اس دوران مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں نے آزادی حاصل کرنے کے لئے ایک نئی عملی تحریک کا آغاز کیا، دہلی میں جاری بھارتی کرکٹ ٹیم کے ٹریننگ کیمپ سے ایک دن عبد الحمید لون نکلے اور سیدھا سرینگر آ گئے، سرینگر آ کر عبد الحمید لون تحریک آزادیِ کشمیر میں شامل ہو گئے، کشمیر میں موجود بھارتی فوج چن چن کر کشمیری نوجوانوں کو شہید کر رہی تھی پھر ایک رات عبد الحمید لون سمیت چند کشمیری نوجوانوں کا پیچھا کیا گیا، یہ نوجوان حکمت عملی کے تحت جنگل میں آئے اور چلتے چلتے ایل او سی پار کر گئے، انہیں اگلی صبح پتہ چلا کہ وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر سے نکل کر آزاد کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں۔ بس اس دن کے بعد سے عبد الحمید لون سرینگر تو نہیں جا سکے مگر اپنے خطے کی آزادی کیلئے کوششوں میں لگے رہے۔ غزالہ حبیب خان اور عبد الحمید لون دونوں ایک پلیٹ فارم سے کشمیر کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ ہندوستان میں جب سے مودی اقتدار میں آئے ہیں، وہ بھارت کو ایک مکمل ہندو ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں، ہندوستان کی جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں قائم ہوئیں، وہاں مسلمانوں کو خاص طور پر ظلم کا نشانہ بنایا گیا، بلڈوزر کے ذریعے مسلمانوں کی دکانیں اور مکانات گرائے گئے، اس عمل کا آغاز یو پی کے وزیر اعلیٰ یو گی ادتیہ ناتھ کے دور میں ہوا، اسی لئے لوگ یوگی ناتھ کو بلڈوزر بابا کہتے ہیں، اتر پردیش کے بعد بلڈوزر کا استعمال آسام، گجرات، ہریانہ، مدھیہ پردیش اور راجستھان سمیت ایسی ریاستوں میں شروع ہوا جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، اس ظالمانہ نا انصافی کی مذمت کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رپورٹ شائع کی، اس رپورٹ کے تحت سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا، ان کی جائیدادوں کو تباہ کر دیا گیا اور بی جے پی کی حکومتیں اس ظلم اور نا انصافی پر ندامت محسوس کرنے کی بجائے فخر کر رہی ہیں کہ ہم اپنے ملک میں اقلیتوں کیساتھ یہ ظالمانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ انسانی معاشروں کی اس نا انصافی اور بے رخی پر ایک شعر بہت یاد آتا ہے کہ
محبت، عداوت، وفا، بے رخی
کرائے کے گھر تھے، بدلتے رہے۔بشکریہ جنگ۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button