دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار
(عدیلہ خالد)
افواج پاکستان کومختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن میں ملکی سلامتی اور سکیورٹی کو لاحق خطرات سرفہرست ہیں۔دہشت گردی کا عفریت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس سے پاکستانی عوام اور سول و عسکری ادارے گزشتہ دو دہائیوں سے لڑ رہے ہیں۔بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان نے بے شمار کامیابیاں سمیٹی ہیں تاہم انہیں ابھی بھی کئی ایسے چیلنجز درپیش ہیں جن پر قابو پانے کے لیے افواج پر عزم ہیں ۔
دہشت گردی کی روایتی کارروائیوںسے نمٹنے میں افواج پاکستان کے کردار کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پرسراہا گیاہے۔یہ افواج پاکستان اور پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی پیشہ ورانہ مہارت اور صلاحیتوں کی بدولت ہی ہے کہ وہ دشمن کے مذموم عزائم ، ان کی چالوں ، ہتھکنڈوں اور مختلف حربوں سے با خبر رہتے ہوئے ان سے نمٹنے کے لیے ہر وقت پر عزم رہتے ہیں۔اس ضمن میں افواج پاکستان نے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں جن کے دوررس اثرات مرتب ہوئے اور کئی دہشت گرد اپنے منطقی انجام کو پہنچے ہیں۔ پاک فوج، فرنٹیئرکور،پولیس اوردیگرپیراملٹری فورسز کے افسروں اورجوانوں سمیت انٹیلی جنس اہلکاروں نے دہشت گردی کی لعنت پر قابو پانے کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں اورملک کے طول وعرض میں کارروائیاں کرکے لاتعداد دہشت گردوں کو عبرت ناک انجام تک پہنچایا ہے۔گزشتہ چند برسوں میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دو صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میںانٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کرکے دہشت گردوں کے انتہائی خطرناک ٹھکانوں کو تباہ کیا گیاہے۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاک فوج کی قیادت میں سکیورٹی اداروں نے بہت سے آپریشنز کیے جن میں آپریشن راہ راست، راہ نجات،آپریشن خیبر،رد الفساد،ضرب عضب،کومبنگ اور آپریشن المیزان سمیت دیگر چھوٹے بڑے آپریشنز شامل ہیں۔ان کارروائیوں میں فورسز نے دشمنوں کے خلاف ایک صبرآزما جنگ لڑی اور بے شمار کامیابیاں حاصل کیں۔ جب دشمن کو یہ لگا کہ پاکستان کی جانب سے ان کی کارروائیوں کو ایک عزم سے نشان عبرت بنایا جا رہا ہے تو اس نے دیگر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیے۔
دشمن اب روایتی جنگ کی بجائے مذموم کارروائیوں کا سہارا لے کر ملک میں خوف و ہراس پھیلانا چاہتا ہے۔ انہیں غیر روایتی حربے یا طریقے بھی کہا جاتا ہے جن کا مقصد کسی ملک کی ساکھ کو عالمی سطح پر نقصان پہنچا کر اسے سیاسی،معاشی اور دفاعی لحاظ سے کمزور اور تنہا کر ناہوتا ہے۔بد قسمتی سے پاکستان بھی اس مسئلے سے دوچار ہے کیونکہ اس کے دشمن نہیں چاہتے کہ یہ ترقی کرے اور مستحکم ہو۔
غیر روایتی حربوں میں ہائبرڈ وار فیئر یا ففتھ جنریشن وار سر فہرست ہے۔ اس جنگ میں حملہ آور سامنے نہیں آتا بلکہ وہ پوشیدہ رہ کر خفیہ طریقے سے ملکی سلامتی پروار کرتا ہے۔اس طرح یہ بھی دہشت گردی کی ہی ایک شکل بن جاتی ہے۔پاکستان کی سِول اور عسکری قیادت بخوبی آگاہ ہے کہ دشمنوں نے پاکستان پر ہائبرڈ وار فیئر یعنی ایک کثیر الجہتی جنگ مسلط کر رکھی ہے جس کا مقصد ملک کو غیرمستحکم کرنا اور اسے دفاعی واقتصادی لحاظ سے کمزور کرنا ہے۔اس جنگ میں عموماً نظریاتی ساکھ پر وار کیا جاتا ہے اور ریاست مخالف نظریات کو ہوا دے کر ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے ۔ اس کے بعد عوام کے اندر بے چینی پھیلا کر افراتفری اور انتشار کے ذریعے ملک کو انارکی اور بد امنی کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں نوجوانوںکو خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ان کے اذہان کو پراگندہ کیا جاتا ہے تاکہ ان کا اداروں پر اعتماد کم ہو جائے۔یہ ایک بھیانک طریقہ کار ہے جو بظاہر کسی کو نظر نہیں آتا مگراس کے نتائج انتہائی تباہ کن اور نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کئی موقعوں پر ایسے عناصر کو متنبہ کر چکے ہیں کہ وہ اس قسم کی سرگرمیوں سے دور رہیں ۔
دہشت گردی کی ایک انتہائی مہلک صورت سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی معلومات بھی ہیں جنہیں بہت سے لوگ بالخصوص نوجوان بنا سوچے سمجھے اور بنا تحقیق کیے سچ مان لیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا پر ایک خاص طریقہ کار اپنایا جاتا ہے جس میں لوگ کھلم کھلا سامنے نہیں آتے بلکہ وہ مختلف گروپوں کی شکل میں سادہ لوح عوام اور نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف جھوٹی معلومات پر مبنی کئی بیانیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کے حق میں دلائل پیش کرتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ادارے عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ایسے لوگوں کے لیے ایکو چیمبرز کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ان کا کردار انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔یہ نوجوان نسل کے اذہان میں ایسا زہر گھول دیتے ہیں جس کا تریاق ڈھونڈنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔اس ضمن میں آج کل تین قسم کی اصطلاحیں یعنی مس انفارمیشن، ڈس انفارمیشن اور مال انفارمیشن بہت عام ہیں جن کے بارے میں جاننا ہم سب کی ذمہ داری ہے تاکہ ہم سب اس پروپیگنڈے سے محفوظ رہ سکیں۔بظاہر ان تینوں میں معمولی فرق پایا جاتا ہے مگر ان کا استعمال اس مہارت سے کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ا س کا شکار ہو جاتی ہے۔یہ تینوں حربے جھوٹی معلومات اور فیک نیوز کو پھیلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ افواج پاکستان اس پروپیگنڈے اور ان تمام حربوں سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے تدارک کے لیے اقدامات کر رہی ہیں، تاہم ہم سب پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے شعور و آگہی میں اضافہ کریں اور سوشل میڈیا پر پائے جانے والے ایسے تمام گروہوں سے باخبر ر ہیں جو ملکی سلامتی ، عوام اور قومی و عسکری اداروں کے درمیان دراڑ ڈال کر نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔
پاکستان کے ریاستی اداروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردوں اور پاکستان میں موجود ان کے سہولت کاروں سے نمٹنا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس سہولت کاری میں ایسے کون سے عناصر موجود ہیںجو دہشت گردوں کے رابطوں اور ان کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر ختم نہیں ہونے دے رہے؟ہمیں ان کا ادراک کرنا ہے۔ ان کے بارے میں جاننا ہے اوران کی سرکوبی کے لیے انفرادی طور پر بھی کوشش کرنی ہے۔ اس ضمن میں افواج پاکستان اور حکومت پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ دہشت گردوں ، افراتفری اور انتشار پھیلانے والوں ، ان کے سہولت کاروں اور رابطہ کاری کے تمام نیٹ ورکس کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
فتنہ الخوارج بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے پا ک فوج پر عزم ہے۔خوارج تاریخی طور پر وہ گروہ ہیں جو مذہبی شدت پسندی کے باعث اسلام کے بنیادی اصولوں سے منحرف ہوئے اور خلافت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ آج بھی مختلف شدت پسند گروہ ان کے نظریات کو اپنائے ہوئے پاکستان میں انتشار اور فتنہ و فساد پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ گروہ خود کو اسلام کا علمبردار قرار دیتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں جس سے معاشرے میں افراتفری اور انتشار پھیلنے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔
خوارج کی دہشت گرد کارروائیاں خصوصاً قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا میں زیادہ دیکھی گئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں شمالی وزیرستان کے میر علی میں خوارج نے بھتہ نہ ملنے پر گائے منڈی پر حملہ کیا جسے پاک فوج نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ناکام بنا دیا۔ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچا کر علاقے میں امن و امان کی صورت حال کو بحال کر دیا گیا۔
خوارج کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ عوام اور پاک فوج کے درمیان اختلافات پیدا کریں۔ افواج پاکستان اور عوام کے درمیان پائے جانے والے اتحاد و یکجہتی کے مقدس رشتے کو زک پہنچائیں۔ انہیں یہ خدشہ ہے کہ اگر عوام اور فوج ایک ساتھ کھڑے رہے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس لیے یہ عناصر دہشت گرد حملے کرکے عوام کو خوفزدہ کرتے ہیں اور پھر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ریاست اور عسکری ادارے ان کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
پی ٹی ایم جیسے گروہ خوارج کے ناپاک ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ملوث پائے گئے ہیں۔یہ لوگ چیک پوسٹوں کو ختم کرنے اور فوجی آپریشنز کو روکنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں تاکہ دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل سکے۔ درحقیقت، یہ عناصر خوارج کے سہولت کاروں کے طور پر کام کرتے ہیں اور عوام کو ریاست کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔
افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے و سکیورٹی ایجنسیز کی قربانیاںدینے والوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق سال 2023 میں دہشت گردی پر قابو پانے کی کارروائیوں کے دوران پانچ سو کے قریب سکیورٹی اہلکار وں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ رواں سال اب تک دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے 200سے زائد اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ ان کارروائیوں میں سیکڑوں دہشت گرد منطقی انجام تک پہنچے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج نے ہمیشہ جوانمردی، استقامت، حوصلہ مندی، جرأت اور بہادری کا مظاہر ہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔ شمالی وزیرستان میں ہونے والے حالیہ آپریشنز اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ دہشت گردوں کو کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔پاک فوج ہر دہشت گرد کو اس کے انجام تک پہنچانے کا عزم رکھتی ہے۔
پاکستان کی ریاست اور افواج نے انتشاری گروہوں کو ہمیشہ واضح پیغام دیا ہے کہ جو لوگ ہتھیار ڈال دیں اور راہِ راست پر آجائیں ،ان کے لیے عام معافی اور اصلاح کا موقع موجود ہے لیکن جو لوگ دہشت گردی کا راستہ اپناتے رہیں گے، ان کے لیے اس سرزمین پر کوئی جگہ نہیں ہے۔ افواج پاکستان کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دہشت گردوں کو پاک سرزمین پر قدم جمانے کا موقع ہرگز نہیں دیا جائے گا۔
اس سلسلے میں دیگر اقدامات کی طرح دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پاک افغان بارڈر سکیورٹی سسٹم کو بھی مضبوط بنایا گیا ہے۔پاک افغان سرحد پر مختلف چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں جو بیرونی دہشت گردی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ سرحدی نظام اگر بین الاقوامی معیار کے مطابق ترتیب دے دیا جائے تو دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان تو سرحدی نظام کو موثر بنانے کے لیے پرعزم نظر آتا ہے لیکن بد قسمتی سے افغانستان کی قیادت میں اس عزم کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اگر خطے میں دہشت گردی پر قابو پانا ہے تو افغان قیادت کو بھی مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔
دہشت گردی کے خاتمے میں افواج اور عوام جس قدر متحد اور پر عزم ہیں ،اس سے لگتا ہے کہ دہشت گرد بہت جلد اپنے منطقی انجا م کو پہنچنے والے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ افواج پاکستان اور عوام کے درمیان محبت و الفت اور اتحاد و یکجہتی کا یہ پاکیزہ رشتہ ہمیشہ قائم رہے کیونکہ یہ رشتہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بہت ضروری ہے۔بشکریہ ہلال۔