کالم

ہالی ووڈ کی آگ

(منصورآفاق)

جنگل کی آگ وہ قدرتی آفت ہے جس کے نقصانات توکم کیے جاسکتے ہیں مگر اسےمکمل طور پر نہیں روکا جا سکتا ۔اس کا سبب بڑھتاہوادرجہ حرارت ہے ۔خشک نباتات تیزی سے آگ پکڑتی ہیں اورنمی سے خالی تیز ہوائیں اسے پھیلنے کے بھرپور مواقع فراہم کرتی ہیں ۔پیشگی وارننگ سے ایک حدتک جانی و مالی نقصان کم کیا جاسکتا ہے ۔اس وقت لاس اینجلس ،آگ کے طوفان کی تباہ کن قدرتی آفت میں گھرا ہواہے۔اگرچہ آگ کی افزائش کو نمایاں طور پر روک لیا گیا مگر منگل سے شروع ہونے والی آگ اس وقت ایک سو پینتالیس مربع کلو میٹرتک پھیل چکی ہے۔ جس میں سے چالیس کلو میٹر گنجان شہری علاقہ ہے۔ ابھی تک گیارہ لوگوں کی ہلاکت کی تصدیق کی جاچکی ہے، حقیقی ہلاکتوں کی گنتی کا کام جاری ہے، تفصیل بعد میں جاری کی جائے گی۔آگ پھیلتے ہی ان علاقوں میں لوٹ مار شروع ہوگئی جس کی وجہ سے کرفیو لگانا پڑا۔ذراسوچئے کہ وہ ’’لوٹ ‘‘ کیسی ہوگی جس کے لئے کرفیو لگایا گیا۔ آگ پرقابو پانے کےلئے تعینات ہزاروں نیشنل گارڈ کم پڑ گئے ۔جیلوں کےقیدیوں سے بھی مدد لی گئی۔ اس وقت تک ہزاروں مکانات جل چکے ہیں ۔خوفناک تیزی کے ساتھ آگ کے شعلوں نے اسکولوں، ہسپتالوں، گرجا گھروں، عبادت گاہوں، لائبریریوں، بازاروں ، ریستورانوں، بینکوں، شاپنگ پلازوں اور امیر ترین رہائشی علاقوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔کار پارکنگ میں جلی ہوئی کاروں کے فلمی منظر جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں ۔اس علاقہ میں سینکڑوں پٹرول پمپوں کے علاوہ ایک بہت بڑا پٹرول کا ذخیرہ بھی تھا جسے آگ لگ چکی ہے ۔دولاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اوراتنے ہی اورافراد کے بے گھر ہونے کا امکان ہے۔آگ میں کچھ کمی ہوئی ہے، مگرلاس اینجلس کاؤنٹی کا بیشتر حصہ سرخ وارننگ سے بھرا ہےسو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائوں میں کمی کا ابھی تک امکان نہیں۔محکمہ موسمیات کے نزدیک موسم انتہائی نازک ہے۔بارش کا امکان تو کجا فضا میں نمی بھی موجود نہیں ۔یہ ایک بے مثال، تاریخی آگ کا طوفان ہے۔ اسے تاریخ کی سب سے مہنگی آگ کہا جارہاہے ۔تخمینے کے مطابق ابھی تک ڈیڑھ سو ارب ڈالر راکھ میں بدل چکے ہیں ۔ انتہائی قیمتی آرٹ ورک ،فوٹو گراف اور لوگوں کی شعلوں میں گھری یادوں کی مالیت اس تخمینے میں شامل نہیں ۔وہاں صرف پولیس اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے سائرن اوراڑتے ہوئے ہیلی کاپٹر ز کا شور سنائی دیتا ہے۔ لوگ اپنےبچوں اور پالتو جانوروں کے ساتھ سڑکوں پر حیران پریشان دکھائی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خوش قسمت تھے کہ زندہ بچ گئے ہیں۔ ہالی ووڈ کی مشہور ایکٹرس لیٹن میسٹر ،معروف موسیقار ایڈم بروڈی اور معروف بزنس وویمن پیرس ہلٹن کی حسین ترین رہائش گاہیں راکھ کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ ہالی ووڈ کی بڑی بڑی ارب پتی شخصیات کی کوٹھیاں جلے ہوئے ملبے میں بدل چکی ہیں ۔
امریکہ میں جنگل کی آگ کی تاریخ خاصی پرانی ہے ۔پہلےاٹھارہ سو اکہتر میں مشی گن میں لگنے والی آگ دنیا کی سب سے مہلک سمجھی جاتی تھی مگر اب نہیں۔ انیس سو تینتیس میں بھی لاس اینجلس میں آگ لگی تھی جس میں صرف انتیس فائر فائٹر ہلاک ہوئے تھے۔ کیلیفورنیا میں کئی بار جنگلات کو بڑی بڑی آگ لگ چکی ہے ۔ابھی دو ہزار سات میں وہاں آگ نے تقریباً دس لاکھ ایکٹر رقبے کو جلا دیا تھا، پندرہ سو مکانات جل گئے تھے مگر اتنی تباہی کبھی نہیں ہوئی تھی ۔ماضی میں دنیا میں کئی مرتبہ آگ کے طوفان آئے ۔انیس سو چوالیس میں بمبئی میں آگ لگی ،ایک ہزار کے قریب لوگ ہلاک ہوئے ۔انیس سو انچاس میں فرانس میں لینڈس کے جنگلات میں آگ لگی تھی جو سات سو مربع میل پر پھیل گئی تھی ۔اس میں بھی بے شمار لوگ ہلاک ہوئے تھے ۔ سولہ سو چھیاسٹھ میں لندن کو آگ نےتباہ کر دیاتھا۔وہاں بھی یہی کچھ ہوا تھا کہ ہواؤں کی تیزی نے آگ کے شعلوں کو آگ کے طوفان میں بدل دیا تھا جس کی لپیٹ میں تیرہ ہزار سے زائدعمارتیں آئیں ،شہر کے اسی ہزارباشندوں میں سے ستر ہزار بے گھر ہوگئےتھے۔اٹھارہ سو پینتیس میں نیویارک بھی راکھ کا ڈھیر بن گیا تھا۔
پاکستان میں آگ لگنے کے ایسے واقعات تاریخ میں نہیں ملتے ، یہاں ماضی میں عمارتوں اورفیکٹریوں میں آگ لگتی یا لگائی جاتی رہی ہے جس سے سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے مگر قدرت کی طرف سے بھیجا ہوا آگ کا طوفان یہاں کبھی نہیں پہنچا، جس سے امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی مقابلہ نہیں کرسکا ۔خدانخواستہ ایسی کوئی آفت اگر ہمارے ہاں آ گئی تو کیا ہوگا ۔ابھی ہمارے پاس آفتیں صرف زلزلے اور سیلاب کی شکل میں آتی ہیں مگر شکر ہے ہم امریکی نہیں ہیں کہ زلزلوں اور سیلابوں میں لوٹ مار شروع کردیں ۔اس حوالے سے ہم پر اللہ کا کرم ہے کہ کسی بھی ایسی آفت کے موقع پر پوری قوم مدد کےلئے نکل پڑتی ہے بس ایک بات کا مجھے افسوس ہے کہ ہم سیلابوں کا رخ غریبوں کی بستیوں اور گائوں کی طرف موڑ دیتے ہیں کہ شہر سیلاب سے محفوظ رہیں مگر کیا کریں یہ ہماری مجبوری ہے۔ شہروں میں اگر سیلاب در آیا تو نقصانات سینکڑوں گنا بڑھ جائیں گے۔(بشکریہ جنگ)

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button