ففتھ جنریشن وار
(خرم مصری خان)
دنیا تیزی سے ان واقعات کی لپیٹ میں آرہی ہے جس کا کبھی کسی کو گمان نہیں تھا۔ دشمن ممالک اور ان کی متحرک ایجنسیاںہمہ وقت اپنے مخالف پر حملہ آور ہیں۔ آج کے اس جدید دور میں خطرات پہلے سے بڑھ کر ہیں۔ جنگ کا طریقہ انداز بدل چکا ہے۔ دشمن وہ ہتھیار استعمال کر رہا ہے جس میں اس ملک کی دفاعی قو تیں اسی ملک کے مستقبل کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ نقصان دونوں صورتوں میں اس ریاست کا ہے۔ اس اندازِ جنگ کو بیشتر ممالک میں اُن کے دشمن ملک نے بڑے احسن طریقے سے آزمایا ۔اس طرح کے وار اور ان کے نتائج بھی مخالف ایجنسیوں کی توقعات کے برعکس بہت مئوثر اور جلد آنا شروع ہوتے ہیں ۔ کئی ممالک اپنے دشمن ملک میںاپنا ایسامائنڈ سیٹ تیار کرنے میں کوشاں ہیں جو مستقبل قریب میں اس ملک کی بنیادیں ہلا دیں، جو ایسی تباہی کریں جو براہ راست جنگ میں نا ممکن ہو،جن کا نشانہ اسی ملک کے ادارے ہوں ۔ یہ وہ خطرناک مہم ہے جو کئی ممالک میں چل رہی ہے۔ ہمارے پاس مشرقِ وسطیٰ کی مثال سرفہرست ہے۔ جن میں سے اکثر ممالک اپنے ہی ملک کے مستقبل سے اپنی تباہی کا نتیجہ ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ لیبیا سے شام، شام سے عراق شروع ہونے والی یہ انتشاری لہر چند افریقی ممالک سے ہوتے ہوئے ہمارے خطے کے بعض پڑوسی ممالک تک پہنچ گئی۔ اس خطر ناک لہر کی لپیٹ میںآکر کئی بے گناہ جانیں چلی گئیں۔ ریاستی انتظامی مشینری کی تباہی کے ساتھ ساتھ دیگر تمام شعبہ جات پرانتہائی برے اثرات مرتب ہوئے۔ معیشت، زراعت، صحت، تعلیم غرض ہر شعبہ زوال کی چکی میں پسنے لگا۔ نوجوان طبقے کی ترجیحات تعلیم اور مستقبل سے ہٹ کر معاشرتی انتشار کی طرف چلی گئیں ۔ وہی ممالک جو اپنی ترقی کی بدولت بیرونی دنیا کے لیے مثالی نظیر تھے ، آج اپنی بد حالی پر دنیا کے سامنے موجود ہیں ۔
لیبیا، شام اور سری لنکا جیسے ممالک جن کی معیشت کا پہیہ چل پڑا تھا۔ لیکن ان ممالک کو اندورنی مضبوط ترین فعال ہتھیار (ففتھ جنریشن وار)سے دشمن نے زیر کیا۔ خطے کے ان تمام ممالک میں جو تباہی کی لہرآئی، اس میں اصل ہدف وہاں کی نوجوان نسل تھی ۔ جو آلہ کار کے طور پر مسلح طریقے سے بیرونی ایجنسیوں اور دشمن کے ہاتھوں استعمال ہوئے جبکہ ففتھ جنریشن وار کی زندہ مثالیں لیبیا ،شام ، سری لنکا اورنیپال وغیرہ ہیں جو براہ راست دشمن کے نشانے پر نہیں آئے بلکہ دشمن نے ان کو انہی کے سوشل میڈیا ہینڈلرزکے ذریعے زیر کیا ۔ یہ سوشل میڈیا ایک ایسا مؤثر اور دیر پاہ حملہ ہے جو اگرکسی ملک پر کر دیا جائے تو فوراً وہاں کی ایجنسیاں اور دفاعی ادارے اس سے نمٹنے کے لیے چوبیس چوبیس گھنٹے کام کرنے کے باوجود بھی اس شورش کے نتائج کو مکمل روکنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ یہ ہم نے ان تمام ممالک میں بغور دیکھا کہ کیسے بیرونی دشمن نے انتہائی مہارت کے ساتھ دشمن کو اسی ملک میں اس کے مستقبل سے لڑا کر حیران کن نتائج پائے ۔ جبکہ یہ نتائج اتنی تیزی سے ملے کہ دشمن ا یجنسیاں خود بھی حیرت زدہ ہو گئیں کہ اتنی جامع،مؤثر اور تیز تباہی تو براہ راست بھی نہیں ہو سکتی تھی جو ہمیں ففتھ جنریشن وارکے استعمال سے ملی ۔
ایک عرصے تک دنیا اپنے مخالفین اور دشمن ملک کے اندر ان عناصر کو استعمال کرتی رہی جو ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے ہوں جبکہ اب تمام ممالک کی سوچ اس سے بڑھ کر ٹیکنالوجی میڈ یاوارکی طرف مائل ہے ۔ تباہی کی اس لہر میں جو مشرق وسطیٰ افریقی ممالک سے ہوتی ہوئی ایشیائی ممالک تک آئی ہے یہ بات قدر مشترک ہے کہ دشمن کو صرف چند متحرک اکائونٹ ہولڈروںکو گا ئیڈ کرنا پڑا ۔ جبکہ باقی تمام شورش ان کے ذریعے تمام ملک میں پھیلائی گئی۔ یہ ففتھ جنریشن وار کا طریقہ اندازہے جسے دنیا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی یا میڈیا وار کا نام دیتی ہے ۔ یہ طریقہ انداز بیرون ممالک میں بیٹھے چند لوگوں کے ساتھ اندرون خانہ ایک معقول طبقہ اپنی نظریاتی سوچ کو معاشرے کے تمام طبقات پر لاگو کرا دیتا ہے۔پر امن احتجاج کو ایک پر تشدد تحریک میں بڑی خوبصورتی سے تبدیلی کے بعد اندرونِ خانہ مسلح تحریکوں کو گرین سگنل دے دیا جاتا ہے ۔ شروع میں وہ قیادت اور ہجوم جو سڑکوں پر اپنی بنیادی حقوق کے مطالبے کے لیے آئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ آخر کار اصل قیادت سے اس ہجوم کی رہنمائی دشمن ملک کی ایجنسیاں اپنے ایجنڈوں کی طرف لے جاتی ہیں ۔ ایک قلیل تعداد معاشرے کی اکثریت کو یرغمال بنادیتی ہے۔ بنیادی معاشرتی حقوق کے بجائے تحریکوں کا اصل ہدف سول نافرمانی سے علیحدگی کے مطالبے تک چلا جاتا ہے۔ اصل بنیادی قیادت جو شروع میں لیڈ کر رہی ہوتی ہے وہ خود حیران و پریشان ہو جاتی ہے کہ کیا ہم اپنے اصل اہداف کی طرف جا بھی رہے ہیںیا نہیں؟ لیکن حقیقتاً ان کو بیرونی ایجنسیاں اپنے خطرناک مفادات کی طرف دھکیل چکی ہوتی ہیں۔
بنیادی حقوق کی آڑ میں تحریک ایک پر تشدد، بیرونی مداخلت کا روپ دھار چکی ہوتی ہے۔ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہے کہ کئی ممالک، جو قیادت کے ویژن کے مطابق چلے، قیادت کے نظریے سے نہیںہٹے، ا نہوں نے ریاست سے اپنے بنیادی حقوق ضرور حاصل کیے۔ وہاں مثبت معاشرتی تبدیلی دیکھنے کو ملی، اب ریاست کو ایجنسیوں کو ٹیکنالوجی کے غلط استعمال والے طبقے کو روکنے کے لیے ہر ممکن اختیار دینا ہوگا۔ ہمیں عوامی سطح پر اور تعلیمی اداروں کے اندر ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے نتائج کی شعوری مہم شروع کرنا ہوگی تاکہ قومی سطح پر عوام یہ بات آسانی سے سمجھ جائے کہ وہ لوگ جو ان کو ورغلا کر باہر سڑکوں پرلا رہے ہیں۔ کیا وہ واقعی حقیقت پر مبنی ہمارے حقوق کی ترجمانی کر رہے ہیں یا پھر صرف اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے ہمیں استعمال کر رہے ہیں۔ کہیں یہ بنیادی معاشرتی مسائل کو بنیاد بنا کر یہ قیادت بیرونی آقائوں کے لیے مداخلت کی راہ کو ہموار تو نہیں کر رہی؟ ان تمام عوامل کو دیکھنے اورسمجھنے کے لیے قومی سطح پر آگاہی مہم بے حد ضروری ہے۔ معاشرتی بگاڑ کے ہر طرح کے مواد کو فوراً تلف کر دیا جائے۔ بیرونی ایجنٹوں اور ان کے اندورنی سہولت کاروں کو فوراً سخت سزائیں دی جائیں تاکہ معاشرتی دیر پا امن ہر طرح کی ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ہو ، اس وقت موجودہ عالمی حالات و واقعات میں اسرائیل فلسطین جنگ کے بعد اب ٹرمپ کا دوبارہ صدر منتخب ہونا امریکن اسٹیبلشمنٹ کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ وہاں کی صورتحال، ریاستی مشینری کی ہمدردیاں، مخالف امیدوارکملا ہیرس کی طرف تھی۔ اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ عہدہ صدارت حاصل کر چکے ہیں ۔ لہٰذا پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک ان کی نئی خارجہ پالیسیوں کے بارے میں بے چین دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کا پہلا دور حکومت بھی ملکی اور عالمی تنازعات سے بھر پور گزرا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسوں سے ان کی اپنی ایجنسیاں اور عالمی طاقتیں بھی حیرت زدہ رہتی ہیں ۔ کوئی حتمی فیصلہ یا پالیسی ان کی شخصیت سے ہم جوڑ نہیں سکتے اس لیے ہر ریاست اور اس کے ذیلی دفاعی ادارے ان کی ترجیحات و عملی اقدامات کو بڑی باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ سرد جنگ کے اختتام پر ایک نئی صف بندی اور بلاک عالمی افق پر چین کی صورت میںموجود ہے۔ روس ،چین کا قریب ہونا اور امریکی انتخابات میں دوسری مرتبہ ٹرمپ کی جیت کسی نئی عالمی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ دشمن براہ راست جنگ سے اندرونی مسلح تحریکوں سے آگے نوجوان نسل کے استعمال تک پہنچ چکا ہے ۔ پراکسی وار سے دنیا ففتھ جنریشن وار کی طرف آچکی ہے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے ہماری اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری کافی بڑھ چکی ہے۔ ہمیں نوجوان نسل کو اپنی اصل ترجیحات ، ثقافت، علاقائی کھیل، اپنے مذہب ، سائنس و ٹیکنالوجی، اخلاقیات اور معاشیات کی طرف مائل کرنا پڑے گا۔ کیونکہ یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بشکریہ ہلال۔