سوال یہ ہے کہ سویلنز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حد تک ہو سکتا ہے،جج آئینی بینچ
اسلام آباد : سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس میں جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرموں کیخلاف تھا، کیا تمام سویلینز سے وہی برتاو کیا جا سکتا ہے جیسے سانحہ اے پی ایس میں کیا گیا،پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ سوال یہ ہے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حد تک ہو سکتا ہے،9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے
جسٹس جمال خان مندوخیل نے قرار دیا کہ جو صرف سوچ رکھتا ہو کیا اس کیخلاف بھی فوجی عدالتوں میں کیس چلے گا،سوال یہ ہے آئین کے آرٹیکل 8 کی شق 3 کے تحت کونسے کیسز فوجی عدالتوں میں چلیں گے،پارلیمنٹ کا اختیار ہے قانون بنائے کہ کون کون سی چیز جرم ہے،پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنادے کہ ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ جرم کا ٹرائل کہاں ہو گا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے،آئینِ پاکستان پارلیمنٹ کو اختیار اور ذمہ داری دیتاہے،کہا جاتا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے میرے خیال میں آئین سپریم ہے۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے دورانِ سماعت دلائل دئیے کہ بنیادی حقوق رہتے ہیں اس بارے میں عدالتی فیصلے موجود ہیں، ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے،اکثریتی فیصلے میں آٹھ تین اور آٹھ پانچ کی غلط تشریح کی گئی۔
خواجہ حارث نے عدالت میں بتایا غلط تشریح کی بنیاد پر کہہ دیا گیا کہ ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا،ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا جب وہ سویلین تھے،فیصلے میں کہا گیا جرم سرز ہوتے وقت ریٹائرڈ نہیں تھے اس لیے ان کا کیس الگ ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان اور خواجہ حارث میں مکالمہ بھی ہوا،جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دئیے کہ خواجہ صاحب لگتا ہے آپ کی تیار ی مکمل نہیں ہے،5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم قرار دیں،ہم بھی ان دفعات کو کالعدم رکھیں تو پھر سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے قرار دیا کہ ہم کسی اورنتیجے پر پہنچیں تو طے کرنا ہو گا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے،اب آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں 2023 میں ترمیم بھی ہو چکی ہے،بعدازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔