میجرجمال بلوچ شہید
(تحریر: رابعہ رحمان )میجر جمال اپنی فطرت میں ایک انوکھے اور دبنگ انسان تھے، میجر جمال شیران بلوچ11نومبر1986 کو تربت میں میر شیران کے ہاں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم تربت کے کیچ گرامر سکول سے حاصل کی اور ریذیڈیشنل کالج تربت سے ہی فارغ التحصیل ہوئے۔ میجر جمال کے والد میر شیران مسقط آرمی سے ریٹائر ہوئے تھے۔ جسم میں ایک فوجی افسر کا خون دوڑ رہاتھا اور میر شیران کی خواہش بھی تھی کہ ان کے دونوں بیٹے فوج میں جائیں مگر بڑے بیٹے شعیب کوشش کے باوجود فوج میں نہ جاسکے اور میجر جمال کی قسمت کا قرعہ نکل آیا۔
پانچ بہنوں کے لاڈلے جمال اپنی خاموش اور سنجیدہ طبیعت کے باعث سب کی آنکھ کا تارا تھے، ہلکا پھلکا سہی، مذاق ان کی عادت تھی وہ ہمیشہ دوسروں کی عزت اور بھرم رکھنے کے قائل تھے۔ بہنوںکو اپنے دل کے بہت قریب رکھتے اور عورت کی عزت کو بہت اہمیت دیتے۔ یاروں کے یار اور پیاروں کا پیار، ایسے تھے میجر جمال شہید۔ ان کے دل میں جو بھی بات ہوتی وہ کبھی کسی سے اس کا اظہار نہ کرتے دوسروں کی رضا پہ راضی رہتے۔ انتہائی گرم جوش ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھوتہ کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ والدین کی عزت میں اپنا سر اور آنکھیں جھکائے رکھتے اور دوستوں کی محفل میں کبھی نازیبا کلمات بھی منہ سے ادا نہ کرتے، انسان کے اندر اعلیٰ صفات ہوں تو وہ انسان عام لوگوں سے مختلف نظرآتاہے، میجر جمال بھی انہی انسانوں میں سے تھے۔ گائوں میں کسی بھی گھرانے کو کوئی مشکل درپیش ہوتی اور میجر جمال کو پتہ چل جاتا تو وہ اس کی مدد کرنے نکل پڑتے ۔سچ اور انصاف کی بات کرتے، ظلم کے انتہائی خلاف اور بزدلی کو گالی سمجھتے تھے، دوستوں میں بیٹھتے اور اگر کوئی مذاق میں ایسی بات کہہ دیتا کہ جس میں محب وطن ہونے کی شدت کو کم کرنے کا شائبہ ہوتا توجمال فوراً کہتے کہ ہمیں وہ دن یاد رکھنا چاہئے جب ہم نے وردی پہن کر ملک وقوم اور مذہب کی خاطر جان قربان کرنے کا حلف لیا تھا۔
میجرجمال نے مئی2006ء میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور دوسالہ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد اپریل2008ء میں کمیشن حاصل کیا۔ فوج میں جانے سے لے کر شہید ہونے تک ان کا وردی، وطن اور دشمن کے بارے میں جنون کم نہیں ہوا تھا، میجرجمال نے سیالکوٹ، راولپنڈی اور آزادکشمیر میں پاک فوج کے مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دیں، آپریشن ضرب عضب کے دوران باجوڑ، خیبر ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے محاذوں پر دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما رہے، میجرجمال کی دو سال قبل فرنیٹیئر کورخیبرپختونخوا میں تعیناتی ہوئی یہاں بھی انہوں نے آپریشن ردالفساد میں اللہ کا سپاہی ہونے کا ثبوت دیا۔
ایف سی کے پی میںاسپیشل فورس گروپ کے آفیسر کمانڈنگ کے طور پر دہشت گردوں کے چھکے چھڑائے، میجرجمال آپریشن ایریاسے کبھی فون کرتے تو ان کے گھر والوں نے کبھی ان کے لہجے میں خوف محسوس نہیں کیا اور اس سے بڑھ کر وہ کبھی بتاتے ہی نہ تھے کہ وہ آپریشنل ایریا میں اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر اس وطن کی حفاظت کررہے ہیں۔
میجرجمال سے جب ان کے والدین شادی کی بات کرتے تو ان کا جواب ہوتا ، نہیں ابھی میں صرف اپنی نوکری پہ توجہ دینا چاہتا ہوں سب ضروری کام نمٹا لوں پھر شادی کرونگا، پھر ایک دن اچانک ہی انہوں نے کہاکہ آپ میری شادی کی تیاری کریں اور یوں ماں باپ نے ان کی کزن سے9دسمبر2016ء کو ان کی شادی کردی۔ کچھ دن چھٹی گزاری اور واپس چلے گئے۔ پھر صرف ایک بار رمضان میں چھٹی آئے، مسز نازک جمال اور میجرجمال کا بچپن اکٹھے گزرا تھا، اب زندگی ایک نئی ڈگر پہ چل پڑی تھی۔ آنکھوں کے خواب سنہرے ہوگئے تھے بندھن کے حقوق وفرائض کے متعلق سوچنا پڑگیا تھا، مگر والد کی یہ بات کبھی نہیں بھولے تھے کہ سپاہی جب یونیفارم پہنتاہے تو اسے خود کو شہادت کے لئے تیار رکھنا چاہئے۔
اب میجرجمال نے فیصلہ کیا کہ پشاور میں گھر لے کر بیگم کو بلالوں تاکہ اپنے فرائض میں اضافے کے باعث ان کو بھی اسی طرح محبت اور ذمہ داری سے ادا کروں جس طرح وطن کے لئے کرتا ہوں۔18جولائی کو مسز نازک جمال کی فلائٹ تھی۔ اپنے نئے گھر اور جیون ساتھی کی سنگت میں زندگی گزارنے اور آنے والی خوشیوں اور دنوں کے لئے دھنک رنگوں سے کینوس پہ خوابوں کی تعبیریں لکھنے کے لئے مسز نازک جمال بڑے اہتمام سے تیاری کررہی تھیں مگر کارخانہ قدرت میں بھی ایک پروگرام مرتب کیاجاچکا تھا جس کی عظمت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا مگر ابدی جدائی کا غم مسلسل سہنا بھی روگ بن جایا کرتاہے۔میجرجمال ہمیشہ کہاکرتے کہ خارجی ناسور سے اپنے وطن کو پاک کرنے کے لئے میں اپنی آخری سانس تک لڑوں گا اورپھر وہ لمحہ ٔعظیم آگیا اور وطن کی مٹی نے میجرجمال کا لہو مانگ لیا۔
میجرجمال کے بھائی سفر میں تھے کہ انہیں کال آگئی جس میں میجرجمال کے بارے میں ان کو کوئی بتا رہا تھاکہ وہ شہید ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اس وطن پر اپنی جان قربان کردی ۔آج شعیب کا ہرپل کا ساتھی، دوست، یار، بھائی اور بازو اُن کے جسم سے کٹ گیا تھا۔اُن کی سمجھ میںکچھ نہ آیا کہ یہ کیا ہے خواب یا حقیقت، کس طرح والدین کو بتائوں کہ آج جو خواب آپ نے جمال کی وردی کو لے کر دیکھا تھا وہ تعبیر پاکے آپ کے سرکو فخر سے تو بلند کرے گا مگر آنکھوں میں ٹوٹے ہوئے شیشے کی طرح ساری عمر چبھتا رہے گا، کیا بتائوں اس نازک سی بھابھی کو کہ میجر جمال نے جنت میں گھر لے لیا ہے۔
امیدوصل کب کی ڈوب چکی اورپھر ان کو اپنا آپ سنبھالنا پڑا کیونکہ انہوں نے اب اپنے خاندان کو سنبھالنا تھا، شعیب کہتے ہیں کہ مجھے بھائی کی موت کا دکھ تو بہت ہے مگر موت کے طریقہ کار میں فرق ہوتاہے جس طریقے سے میجرجمال شہید میرے بھائی نے جان وطن کے نام کردی وہ ہمارے لئے باعث فخر ہے ہم یہ قربانیاں1947ء سے دیتے آئے ہیں اور آئندہ بھی دیں گے۔ میجرجمال شہید کا جنازہ تربت کی تاریخ میں بہت بڑا جنازہ تھا ان کو جس عزت اور احترام کے ساتھ دفنایا گیا ہمارے علاقے کا ہربلوچ جوان یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے جسم پر وردی سجا کے یونہی شہید ہوکر آئے گا کہ وردی میں موت کا مزا ہی کچھ اور ہوتاہے۔
میجر جمال شہید کی موت اس بات کی گواہ ہے کہ بلوچ قوم کا ہر فرد دفاعِ وطن کے لئے اپنی جان کا نذرانہ دینے سے کبھی گریز نہیں کرے گا۔ پاکستان کے باقی صوبوں کے باسیوں کی طرح، پاکستان ہربلوچ جوان کی پہلی محبت ہے۔ وہ بلوچ باپ ہو، ماں، بھائی، بہن ، بیوی یا اولاد ہو، اُنہیں اپنے پیاروں کو وطن کی حُرمت پر قربان کرنے پر ناز ہے۔ آج جب پوری پاکستانی قوم اپنے شہیدوں پر ناز کرتی ہے تو اس میں صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاتعداد شہیدوں کا نام بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ قربانیوں بلاشبہ پاکستان دشمنوں کے پروپیگنڈے کی موت ہیں۔ جھوٹ اور شرانگیزی پر مبنی لاکھ کوششوں کے باوجود دشمن بلوچستان کے باسیوں سے پاکستان کی محبت اور یقین کو متزلزل نہیں کرسکا۔ میجر جمال کی شہادت بلاشبہ دشمنوں کے ناپاک ایجنڈے کی موت ہے۔
جس طریقے سے میجرجمال شہید میرے بھائی نے جان وطن کے نام کردی وہ ہمارے لئے باعث فخر ہے ہم یہ قربانیاں1947ء سے دیتے آئے ہیں اور آئندہ بھی دیں گے۔ میجرجمال شہید کا جنازہ تربت کی تاریخ میں بہت بڑا جنازہ تھا ان کو جس عزت اور احترام کے ساتھ دفنایا گیا ہمارے علاقے کا ہربلوچ جوان یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے جسم پر وردی سجا کے یونہی شہید ہوکر آئے گا کہ وردی میں موت کا مزا ہی کچھ اور ہوتاہے۔
میجرجمال شہید مختلف آپریشنز کے ہیرو تھے۔ جب 18جولائی کو وہ اپنی گاڑی میں جوانوں کے ساتھ آپریشن کے لئے نکلے تو ایک گاڑی نے ان کو ہٹ کیا اور خودکش حملہ آور نے خود کو بلاسٹ کرلیا۔ دھماکے کے ساتھ بہت ساری زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں، یقیناً فرشتوں نے شہیدوں کے جسموں کو ذرا بھی تکلیف نہ ہونے دی ہوگی اور اللہ کے حکم سے ان کی روحوںکو پھولوں میں لپیٹ کر دربار عالیہ میں پیش کیاہوگا۔ زمین سے آسمان تک خوشبو کا سفر تھااورروشنی کا سفر تھا جو صرف بصیرت والے دیکھ سکتے اور محسوس کرسکتے ہیں۔
دشمن نہیں جانتا کہ قوم پاکستان کے والدین اپنے بچوں کے لئے شہادت کی موت کی دعائیں رو رو کر مانگتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بیٹوں کو مرا ہوا قبول کرنا ہی نہیں چاہتے اور شہید تو زندہ ہوتاہے وہ ان کے لئے تاقیامت کی زندگی مانگتے ہیں اور جو اپنے شہید بیٹے کو کندھا دیتاہے وہ باپ سینہ پھلا کرکہتاہے آج میں سرخرو ہوا آج میرا بیٹا ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگیا۔
قابل فخر ہیں وہ مائیں جو شہید بیٹوں کے تابوت چومتی ہیں، قابل تحسین ہیں وہ بہنیں جو اپنے شہید بھائیوں کے جسدخاکی کو اپنے آنچل کا کفن پہنا کر مسکراتی ہیں اور آفرین ہے اس والد پر جو اپنے شہید بیٹوں کے جنازے اٹھااٹھا کر تھکتا نہیں اور سینہ فخر سے پھلائے کہتاہے میراکوئی اور بیٹا بھی ہوتا تو اللہ کا سپاہی بناتا، عظیم ملک کے عظیم سپوت عظمت کا مینار ہیں۔