افواجِ پاکستان میں مسیحی برادری کی خدمات
(تحریر:سکندر خان بلوچ )
پاکستان کے معرضَ وجود میں آنے کے بعد ایک صحافی نے قائد اعظم سے سوال کیا ’’جناب جتنے مسلمانوں نے بھارت سے پاکستان ہجرت کی ہے اس سے کہیں زیادہ مسلمان بھارت میں بھی رہ گئے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے پاکستان نہیں آسکے۔ اُن کا کیا بنے گا؟‘‘قائد نے جواب دیا:’’انہیں بھارت کے وفادار شہری بن کر بھارت میںہی رہنا چاہئے۔ اسی طرح جو ہندو ،سکھ، عیسائی یا باقی مذاہب کے لوگ جنہوں نے پاکستان کو اپنا وطن منتخب کیا ہے اُن کی حفاظت اور مذہبی عقائد کا تحفظ ہمارا فرض ہے اور انہیں اچھے اور پاکستان کے وفادار شہری بن کر رہنا ہوگا۔‘‘ قائد کی سوچ اتنی درست ثابت ہوئی کہ بھارتی مسلمان واقعی بھارت کے بہت ہی وفادار شہری ثابت ہوئے اور یہ بات پاکستان بھارت جنگوں سے ثابت ہوتی ہے۔ وہ ہر جنگ میں بھارت کے وفادار شہری بن کر پاکستان کے خلاف بہادری اور بے جگری سے لڑے ہیں اور بہادری کے اعزازات بھی حاصل کئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں رہائش پذیر ہندو اور سکھوں سے اسی قسم کی وفاداری کی توقع کی جاتی ہے لیکن یہ وفاداری بھارتی مسلمانوں کی طرح ثابت نہیں ہوئی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں وہاں کے رہائشی ہندو ؤں کی پاکستان کے خلاف سازشوں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح سندھ کے رہائشی ہندوؤں کے متعلق شنید ہے کہ وہ پاکستان میں رہ کر خوش نہیں اور آئے دن پاکستان کے خلاف مختلف اعتراضات کرتے رہتے ہیں۔ افواجِ پاکستان کی طرف بھی اُن کی رغبت دیکھنے میں نہیں آئی سوائے حال ہی میں ایک سکھ نوجوان نے پاکستان فوج میں آکر اپنی وفاداری ثابت کی ہے۔ یہ صاحب ہیں میجر ہرچرن سنگھ بیدی ۔
ہندوؤں ، سکھوں اور دیگر بہت سی اقلیتوں کے علاوہ ایک وسیع تعداد عیسائیوں کی بھی ہے۔ سابقہ مردم شماری کے لحاظ سے عیسائی یہاں تیسری بڑی اقلیت ہیں۔ اندازاً 1.3فیصد ۔ اگر مذہبِ ابراہیمی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دوسری بڑی اقلیت ہیں لیکن یہ لوگ اتنے ہی ملک کے وفادار ہیں جتنے یہاں کے مسلمان ہیں۔ یہ لوگ پوری طرح پاکستانی معاشرے میں ضم ہوکر مکمل طور پر پاکستانی بن چکے ہیں۔عام پاکستانیوں کی طرح یہ لوگ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ معاشی پس ماندگی کے باوجود ان کا کردار معزز شہریوں والا کردار ہے۔ ہمارے لوگ ان پر مختلف جائز وناجائز اعتراضات کرتے رہتے ہیں۔ اکا دکا واقعات میں ان کے گرجا گھروں کی توہین بھی کی گئی جو کہ بہت ہی نا مناسب بات ہے۔ بعض کم ظرف لوگوں نے غلط طور پر مذہبی منافرت کے واقعات بنا کران کی خلاف زیادتی کی ہے لیکن ان لوگوں کی طرف سے کوئی غلط مثال ردِ عمل کے طور پر بھی سامنے نہیں آئی۔پر امن اور پروقار شہری ہیں۔ میں نے آج تک کسی عیسائی کو بھیک مانگتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ ان کی سب سے بڑی خدمت شعبہ تعلیم میں ہے ۔ ہماری معزز اشرافیہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے انہی اداروں کا رُخ کرتی ہے کیونکہ وہاں تعلیم کا معیار عام تعلیمی اداروں سے بہتر ہے۔ یہ ادارے ایک قسم کا قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں جو قابلِ تعریف ہے۔
عام تعلیم سے ہٹ کر پورے ملک میں صفائی کا کام بھی انہی لوگوں نے سنبھال رکھا ہے۔یہ وہ قابلِ فخر لوگ ہیں جو ہماری سڑکوں اور ماحول کو صاف رکھتے ہیںاور صفائی اسلام میں نصف ایمان ہے۔یہ لوگ خوش اسلوبی سے اپنا فرض نبھاتے ہیں اور یہی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
ان لوگوں کا افواجِ پاکستان میں بھی بہت بڑا کردار ہے ۔ سب سے پہلی چیز یونٹوں کا جنرل ایریا ، سولجرز بیرکس اورسرکاری دفاتر کی صفائی یہی لوگ کرتے ہیں۔ اس شعبہ میں مسلمان یا دیگر مذاہب کے لوگ خال خال نظرآتے ہیں۔ میں نے وزیرستان جیسی جگہ پر سیالکوٹ کی رہائشی عیسائی فیملیز کو کام کرتے ہوئے خوش خوش دیکھا ہے حالانکہ ہمارے آفیسرز اور سپاہی ایسے علاقوں میں سروس کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ان لوگوں کی افواجِ پاکستان کی دوسری بڑی خدمت نرسنگ سروس ہے۔ انگریز دور میں تو سو فیصد عیسائی نرسز ہی سارا کام سنبھالتی تھیں۔ اب آہستہ آہستہ مسلمان گھریلو لڑکیاں بھی ان عیسائی لڑکیوں کو دیکھ کراس پیشے میں آگئی ہیںلیکن خدمت کے لحاظ سے عیسائی لڑکیاں اب بھی بہتر ہیں۔وہ عبادت سمجھ کر اس پیشہ میں شوق سے آتی ہیں۔ اب تو فوج میں عیسائی خواتین برگیڈئیر کے عہدوں تک پہنچ چکی ہیں۔Miss Helen Marry Robertsپاکستان میں اب برگیڈئیر کے عہدے پر کام کر رہی ہیں۔ اس خاتون کا کردار نرسنگ سروس میں’’ مثالی‘‘ ہے۔ نئی آنے والی لڑکیوں کی تربیت بھی اس خاتون نے سنبھال رکھی ہے۔
اب آئیں لڑاکا فوج کی طرف ۔ ان لوگوں پر عام پاکستانیوں کی طرح افواج میں آنے کی کھلی اجازت ہے۔ کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ جب پاکستان بنا تھا تو انڈین ملٹری اکیڈمی سے کل 67کیڈٹس پاکستان آئے تھے۔ ان میں تین عیسائی کیڈٹس بھی شامل تھے جواپنی خوشی سے پاکستان آئے نہ کہ کسی مجبوری کے تحت ۔ انہوں نے پاکستان ملٹری اکیڈمی سے کمیشن حاصل کیا ۔ ان لوگوں نے جنگِ کشمیر میں پاکستان کی طرف سے حصہ بھی لیا اور شاندار کارکردگی دکھائی۔ جیسے جیسے فوج کے حالات بہتر ہوئے تو عیسائی نوجوانوں نے عام پاکستانیوں کی طرح افواجِ پاکستان میںبطور سولجرز بننے کا پیشہ اختیار کر کے باقی اقلیتوں کے لئے مثالی کردار ادا کیا۔پاکستان کی تمام جنگوں میں کھلے دل سے حصہ لیا اورشاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جہاں ضرورت پڑی جان کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ جی۔ایچ۔کیو ریکارڈ کے مطابق اب تک91 عیسائیوں نے پاکستان پر جان قربان کی۔ان میں سولجرز اور آفیسرز شامل تھے۔بہت سے نوجوان بطور آفیسرز آئے جن کی ایک طویل لسٹ ہے۔جو یہاں پیش کرنی ممکن نہیں۔ ان میں سے کچھ اعلیٰ عہدوں تک بھی پہنچے مثلاً Julian Peterپہلا عیسائی آفیسر تھا جو میجر جنرل بنا۔اسی طرح Julian Moazzam Jamesپہلا عیسائی آفیسر ہے جو کمانڈوز میں میجر جنرل بنا۔ Yubri Malven and Simon Samson Sharafبطور برگیڈئیرز ریٹائرڈ ہوئے۔
Group Captain Cecil Chaudhryنے پاکستان ائیر فورس میں تیسرا بڑا بہادری کا میڈل حاصل کیا۔
Squadron Leader William Desmondنے ستارہَ جرأت حاصل کیا جبکہ ائیر وائس مارشل Eric Gordenنے ہلالِ جرأت حاصل کیا۔Leslie Norman Mungavinپاکستان نیوی سے بطور رئیر ایڈمرل ریٹائرہوئے۔ افواج پاکستان سے بہادری کے انعامات حاصل کرنے والے بہت سے تھے لیکن ان میں نوئل اسرائیل کھوکھر ، جولین پیٹر اور شہباز بھٹی خصوصی تعریف کے مستحق ہیں ۔ کیونکہ یہ بہت بہادری سے لڑے اور شاندار کارکردگی دکھائی لہٰذا عیسائی برادری زندہ باد! پاکستان پائندہ باد!(بشکریہ نوائے وقت)