71 ء کی جنگ، گورنر ہاوس سے
(تحریر:بریگیڈئر (ر)محمد شفقت اللہ چیمہ)
1971ء کی لڑائی میں زخمی ہوکر مجھے طویل عرصہ مختلف ہسپتالوں میں گزارنا پڑا۔ صحت یاب ہو کر اپنے دفتر الوداعی وزٹ کے لیے آیا تو مجھے یہ ٹیلی گرام دکھایاگیا۔
ARACHI AIRPORT
ADC TO GOVERNOR NWFP. PESHAWAR
PERSONAL BELONGINGS OF YOURS PREDESESSOR LATE MAJOR SHAHEED EXPIRED AT RAJASHTAN SECTOR WITH OPERATIONAL MANAGER TECHNICAL
KARACHI WEST.
ADVISE REGARDING ITS DESPATCH
کراچی ائیر پورٹ سے،اے ڈی سی ٹو گورنر این ڈبلیو ایف پی ، پشاور
آپ کے پیشرو میجر شہید جو راجستھان میں انتقال کرگئے، کا ذاتی سامان آپریشنل مینیجر ٹیکنیکل کراچی کی تحویل میں ہے اسکی ترسیل کی ہدایات دیں (
اس ٹیلی گرام میں یہ غلطی تھی کہ مجھے اے ڈی سی لکھا تھا جب کہ میں گورنر کا ملٹری سیکریٹری تھا۔ غلطی کی وجہ شاید یہ بنی کہ میں شروع میں اے ڈی سی ہی پوسٹ ہوا تھا اور احباب مجھے ایسا ہی جانتے تھے۔ ہوا یوں کہ جنرل کے ایم اظہر میری یونٹ اٹھارہ پنجاب کے پرانے سی او اور کرنل آف دی بٹالین تھے۔ صدر جنرل یحییٰ نے70ء کے شروع میں، ون یونٹ کے خاتمے اور مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کی بحالی کے احکامات جاری کر دئیے۔ حکم، مارچ/ اپریل میں جاری ہوا کہ یکم جولائی 70ء سے صوبے بحال ہوں۔ ڈھیر سارا کام کرنا تھا جس کے لیے چند ماہ کا عرصہ رکھا گیا۔ اپریل،سن ستر میں جنرل اظہر کو گورنر این ڈبلیو ایف پی نامزد کر دیا گیا۔ انکی کی خواہش تھی کہ ان کا اے ڈی سی انکی یونٹ سے ہو،تو یہ تھی میری کوالیفیکیشن۔
انہوں نے میرے ساتھ فیملی ممبر کا سا سلوک کیا۔ ناشتہ دوپہر اور رات کا کھاناسب اکٹھے ڈائننگ ٹیبل پر کھاتے۔ میری کوشش ہوتی کہ کام حتی الوسع درست کیا جائے۔
گورنر کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں۔ گورنر، مرکز کی طرف سے قبائلی علاقوں کا چیف ایگزیکٹو ہوتا تھا۔ مارشل لاء کی حکومت میں یہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی تھے اور اسکے علاوہ چیف منسٹر کے کام بھی ان ہی کے ذمہ تھے اور انکی کوئی کابینہ نہیں تھی؛ تمام وزارتوں کا چارج ان کے پاس تھا۔ گویا آجکل جس کام پر درجنوں وزراء اور مشیر مامور ہیں، فردِ واحد انجام دیتا تھا۔ ملاقاتیں، میٹنگز اور دورے وقت لیتے اور فائلوں کا نہ تھمنے والا طوفان تھا۔ گورنر صاحب روز آدھی رات یا سحر تک دفتری کام نپٹاتے۔
مجھے حکم تھا کہ رات کے کھانے کے بعد دفتر نہ بیٹھوں۔ گورنر صاحب بیٹھے رہتے، اتنا کہ انکے پائوں سوج جاتے۔ ہم سب کی رہائش بھی وہیں تھی۔ میں اپنی انیکسی میں آ جاتا اور گورنر صاحب فائلوں کے انبار سے نپٹ کر رات گئے اٹھتے اور اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوتے اور جاتے جاتے فالتو بتیاں بجھاتے جاتے۔
سادہ طبیعت آدمی تھے۔ انکی ضروریات بہت ہی کم تھیں۔ سرکاری پیسہ پھونک پھونک کر خرچ کرتے جس کی ایک مثال چترال کے دورے میں سامنے آئی۔ دورے پر ایک دن قیام کے بعد رخصت ہوئے تو مجھے حکم دیا کہ ریسٹ ہائوس کے سٹاف، جو کک، ویٹر، چوکیداراورمالی پر مشتمل تھا کو ٹِپ دی جائے۔ سب کے لیے کل ملا کر پانچ روپے بنے۔
مجھے دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ شکر الحمدو للہ، اے ڈی سی کا دور خیریت سے گزر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے پردہ رکھا۔
پھر اچانک غیر معمولی حالات میں مجھے ملٹری سیکریٹری بنادیا گیا۔ ہوا یوں کہ جولائی 1971ء میں جی ایچ کیو سے خط آیا کہ میرا کورس میجر رینک کے لیے کلیئر ہوگیا ہے، لہٰذا مجھے یونٹ کے لیے فارغ کریں۔ میں خوش تھا کہ لڑائی کے آثار ہیں میں جنگ میں کمپنی کمانڈ کروں گا اور ذہنی طور پر جنگ میں شرکت کے لیے تیاری میں مشغول ہوگیا۔ پھر اچانک ایک اور خط آیا کہ ملٹری سیکرٹری میجر اکرم خٹک کو پروموٹ ہونا ہے اس لیے انہیں یونٹ کمانڈ کے لیے دستیاب کیا جائے۔ دونوں سٹاف افسروں سے یک لخت محروم ہونا گورنر کے لیے مسئلہ بن گیا۔ ملٹری سیکرٹری اور گورنر نے باہمی مشورہ کیا اور ملٹری سیکرٹری میرے پاس آئے اور بولے کہ گورنر صاحب نے حکم دیا ہے تم ملٹری سیکرٹری کا چارج سنبھالو۔ میں نے فوراً کہا میں چارج نہیں لے سکتا۔ وہ گورنر صاحب کے پاس گئے۔ گورنر نے پوچھا کیوں؟۔ یہ واپس آئے اور مجھے کہا کیوں؟۔ عرض کیا کہ اے ڈی سی اور ملٹری سیکرٹری میں بہت فرق ہے۔ اے ڈی سی کا کام گورنر کی ذات تک محدود ہوتا ہے لیکن ملٹری سیکرٹری باہر سب سے ڈیل کرتا ہے، پورے گورنر ہائوس کے سٹاف کا آفیسر کمانڈنگ ہوتا ہے، حتیٰ کہ وہ اے ڈی سی کی اے سی آر لکھتا ہے، تمام فنڈ اور دیگر امور کا ذمہ دار ہوتا ہے، گورنر کے سرکاری دوروں، پروگرام اور دیگر کاموں کا انچارج ہوتا ہے۔ میں نے اے ڈی سی کی ڈیوٹی خیر سے نبھا لی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بطور ملٹری سیکرٹری مجھ ناتجربہ کار سے کوئی غلطی ہو جائے اور گورنر کو بھی سبکی اٹھانا پڑے۔ مجھے بڑے عہدے کی نا اہلی سے چھوٹا عہدہ اہلیت کے ساتھ زیادہ قبول ہے۔
وہ گورنر کے پاس پھر گئے اور گورنر نے میری رام کہانی سن کر کہا
Its for me to decide who can do what. Ask him to take over.
یہ کام میرا ہے کہ فیصلہ کروں کہ کون کیا کر سکتا ہے، اسے کہو چارج سنبھالے۔
میں نے پھر انکار کردیا تو میجر خٹک نے مجھے ڈانٹا تم سمجھ نہیں رہے، ایسا نہیں کہ تم سے بہتر بندہ نہیں؛ فوج بھری پڑی ہے، بات صرف یہ ہے کہ یہاں کا کام عام فوجی کام سے مختلف ہے جسے سمجھنے کے لیے عرصہ درکار ہوتا ہے۔ بیک وقت دو نو آموز سٹاف افسر، گورنر کے لیے دردِ سر ہونگے۔ تم کام سے واقف ہو، فیملی کے ساتھ بھی مانوس ہو۔ کام کے تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ تم چارج سنبھال لو۔ اسطرح ایک جست میں ہم نے وہ فاصلہ طے کرلیا جو شاید پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور ہم اے ڈی سی سے ملٹری سیکرٹری ہوگئے۔
ملٹری سیکرٹری کا ایک کام سیکرٹ فنڈ خرچ کرنا بھی تھا۔یہ کیش ہوتا تھا جس کا نہ کوئی حساب رکھنا تھا اور نہ ہی آڈٹ۔ جنرل اظہر کہا کرتے تھے کہ پیسے کا خرچ کم از کم تین بندوں میں بٹا ہونا چاہیے۔ سیکرٹ فنڈ کی چیک بک گورنر کے پی ایس کے پاس تھی۔ گورنر صاحب چیک پر دستخط کرتے اور کیش میرے حوالے کردیا جاتا۔ میرا کام تھا کہ جہاں گورنر صاحب حکم دیتے، خرچ کر دیتا۔ گو کہ حکم تھا کہ ریکارڈ نہیں رکھنا، لیکن میں نے ایک کاپی میں کچی پنسل سے پائی پائی کا حساب لکھ رکھا تھا کہ اتنے پیسے فلاں تاریخ کو فلاں کو دئیے اور باقی اتنے پیسے بچے، جو ایک گتھلی میں رکھے ہوتے جو میرے دفتر میں رکھی لوہے کی الماری میں بند اور چابی میرے پاس ہوتی۔
ملٹری سیکرٹری کی مصروفیت تو تھی، لیکن ہر آسائش بھی مہیا تھی۔ گورنر ہائوس کے اندر کاٹیج، نوکر چاکر، گاڑیاں اور سیر کرنے لیے گورنر ہائوس باغات۔ گورنر ہائوس پشاور ایک پہاڑی پر واقع ہے، مڑتی ہوئی سڑک چڑھائی چڑھتی ہے اور مختلف بلندی پر وسیع لان ہیں جو اس وقت سر جارج کنگھم کے لگائے باغوں کی صورت میں تھے، جا بجا پھول دار پودے اور محسور کن راستے۔ درخت اور پودے یوں لگائے گئے تھے کہ ہر موسم میں کسی نہ کسی درخت یا پودے پر پھول ہوتے۔ گورنر ہائوس پشاور میرے نزدیک پاکستان کی خوبصورت ترین رہائش گاہ ہے۔ اس جنت نظیر ماحول میں اکثر شام کو سیر کرتے کرتے میرا دھیان جنگ کی طرف چلا جاتا جسکے بادل منڈلا رہے تھے۔ میں سوچتا کہ ہو نہیں سکتا کہ ادھر جنگ ہو اور میں ادھر عیش و آرام میں ہوں۔ پھر دھیان اس طرف جاتا کہ جنگ میں گیا تو کیا ہو سکتا ہے، تو غالب کا یہ شعر گنگنانے لگتا:
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
نومبر میںنئے اے ڈی سی کو آئے کئی مہینے گزر چکے تھے اور وہ اپنے کام کو بخوبی سرانجام دے رہا تھا۔ اب ممکن تھا کہ میں کھسک جائوں۔ گورنر صاحب کو درخواست کی کہ مجھے فارغ کریں۔ کسی بھی ڈپٹی کمشنر کی ڈیوٹی لگائیں وہ یہ کام بخوبی کر لے گا، مجھے جنگ میں شرکت کے لیے جانے دیں۔ انہوں نے جی ایچ کیو میں ملٹری سیکرٹری سے بات کی تو جواب ملا کہ یہ پوسٹ آرمی کی ہے اور آرمی کی ہی رہے گی۔ اگر یہ نہیں تو اسکی جگہ میجر ہی آئے گا، کوئی دوسرا میجر۔ گورنر صاحب نے مجھے بتایا تو میں نے عرض کیا کہ کوئی دوسرا میجر سلیکٹ کر لیں۔ انہوں نے جی ایچ کیو جاکر ایک میجر صاحب کی سلیکشن کر لی۔ میرے جنگ پر جانے کے اصرار کو تقویت اس لیے بھی ملتی تھی گورنر صاحب خود بھی لڑائی میں شرکت کے لیے بے چین تھے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے چٹ پر ٹیلی گرام ڈرافٹ کرکے میرے حوالے کی جو میں نے صدرِ پاکستان کو ارسال کردی۔
ٹیلی گرام میں لکھا تھا کہ اب جب کہ جنگ چِھڑنے کو ہے، میں گورنری کرتا ناخوش ہونگا۔ مجھے محاذ پر بھیجیں؛ اگر میرے لیے کوئی کور خالی نہیں تو ڈویژن کی کمانڈ دے دیں۔ وہ بھی نہیں تو میں بریگیڈ کمانڈ کرنے کے لیے تیار ہوں، مجھے محاذ پر بھیجیں۔
اس اثنا میں مغربی محاذ پر بھی جنگ چھڑ گئی اور راجستھان سے تشویشناک خبریں آنے لگیں۔ جنرل یحییٰ، جنرل کے ایم اظہر سے راجستھان کے بارے میں مشورہ لیتے رہتے۔ جنرل اظہر نے1965ئمیں بطور بریگیڈ کمانڈر کامیاب لڑائی لڑی تھی۔ صرف دو انفنٹری بٹالین، رینجرز اور مجاہدوں سے دشمن کی دو ڈویژن فوج کو آگے لگا ئے رکھا تھا۔
غالباً آٹھ دسمبر کو جنرل یحییٰ نے جنرل اظہر کو ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ میں بلوایا۔ آپریشنز روم میں راجستھان سیکٹر کا جائزہ لیا گیا کہ حالات ٹھیک نہیں اور فیصلہ ہوا کہ جنرل اظہر بطور ایڈوائزر بریگیڈ ہیڈکوارٹر جائیں اور بریگیڈ کمانڈر اور جی او سی16 ڈویژن کو ایڈوائز کریں۔16 ڈویژن کو کوئٹہ سے راجستھان روانہ کر دیا گیا تھا۔
رات کو ہم پشاور آئے جہاں سے جہاز میں حیدرآباد جانا تھا۔ ایسے موقعوں پر جب گورنر زیادہ عرصہ باہر ہوں تو اے ڈی سی ہمراہ ہوتا ہے اور ملٹری سیکرٹری گورنر ہائوس میں ٹھہرتا ہے۔دو ماہ قبل جب گورنر، جو ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی تھے، کو ورلڈ کپ ہاکی کے لیے بارسلونا جانا تھا۔ یہ فیصلہ مجھے کرنا تھا کہ ان کے ساتھ کون جائے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اے ڈی سی گورنر کے ساتھ جائے اور میں گورنر کی غیر موجودگی میں گورنر ہائوس میں رہوں۔اب کی بار بھی فیصلہ میں نے ہی کرنا تھا کہ کون گورنر کے ساتھ جائے اور کون گورنر ہائوس میں رہے۔ میں نے گورنر کے ساتھ جنگ میں شرکت کا فیصلہ کیا کہ یہی میری خواہش اور کچھ عرصے سے کوشش بھی تھی۔
ہمارا جہاز دشمن کے راڈار سے نیچے، رات کو ٹری ٹاپ لیول پر اڑتا حیدر آباد پہنچا اور وہاں جیپ موجود تھی۔ بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز کے بنکر میں بریگیڈکمانڈر اور جی او سی ڈویژن سر جوڑ کر منصوبہ بندی کرتے رہتے۔ دشمن کھوکھرو پار تک آگیا تھا۔ اسکا ایک ٹینک مائین فیلڈ میں پھنسا ہوا تھا جسے اگلے مورچوں سے دیکھا جا سکتا تھا۔ میں نے گائیڈ ساتھ لیا اور ٹینک دیکھنے روانہ ہوا۔ مجاہد بٹالین میں سے گزرتے ہوئے ہمارے ارد گرد مشین گن کی گولیاں چلنے لگیں۔ ایک مجاہد اس دھوکے میں کہ انڈیا والے اس پر پیچھے سے حملہ آور ہیں فائر کر رہا تھا۔ گائیڈ نے شور مچا کر فائیر بند کروایا۔قصور میرا بھی تھا کہ میں نے ایس ایس جی کی کاٹن کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی، آلیو گرین، انڈین وردی سے ملتی جلتی۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ بعض اوقات جوانوں کابرا فائیرر ہونا کتنا فائدہ مند ہوتا ہے۔
خیر ریکی کرکے میں نے والنٹیئرکیا کہ ایک ریکوئلیس رائفل بغیر ٹرائی پاڈ کے مجھے دیں۔ میں قریب جاکر کوآرڈینیٹ کی مدد سے ٹینک کو نشانہ بنائوں گا۔ آر آر کورس میں اے ایکس گریڈ نے مجھے اعتماد دیا ہوا تھا کہ میں ٹینک ہِٹ کر لوں گا۔ میری تجویز سنی گئی پر اجازت نہیں ملی۔ البتہ یہ بات رجسٹر ہوگئی کہ میں کسی ٹاسک کے لیے حاضر ہوں۔ جنرل اظہر بنکر میں بیٹھے نقشوں کی مدد سے ایک یونٹ کو تیار کر رہے تھے کہ دشمن پر فلینک سے حملہ کریں۔ جنرل اظہر کا خیال تھا کہ ڈیزرٹ میں حملہ ہی بہترین دفاعہے۔ محض مورچوں میں بیٹھنے سے دشمن کو حملہ آور ہونے کا موقع ملتا ہے اور وہ پھر چڑھاہیآتا ہے۔ دشمن اس سیکٹر میں چڑھائی پر تھا۔ اسے مکمل ہوائی برتری حاصل تھی اور اسکے جہاز کسی بھی گاڑی کی اڑتی گرد پر آن موجود ہوتے۔ ہوائی حملے عام تھے اور زمینی حملہ رک ہی نہیں رہا تھا۔ غالباً تیرہ دسمبر کو یوں لگا کہ بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملہ ہو جائے گا۔ آخری حربے کے طور پر کلرکوں اور لانگریوں کو اکٹھا کرکے ایک پلاٹون بنائی گئی اور ہیڈکلرک کی کمان میں روانہ کردی گئی۔ جنرل اظہر نے کہا کہ اس کی کمان انکے ملٹری سیکرٹری کو سونپ دی جائے۔ جی تھری نے آکر خبر سنائی، اس نے مجھے صرف اتنا حکم پہچایا کہ اس ٹیلے پر دفاعی پوزیشن لے لو۔ اس ٹیلے کی طرف اس نے صرف اشارہ کیا اور کہا کہ باقی ہیڈکلرک کو پتا ہے۔
اپنی سٹین گن سنبھالے، ٹیلے اور اپنی فورس کی تلاش میں روانہ ہوا۔
بریگیڈ ہیڈکوارٹر درختوں کے جھنڈ میں بنایا گیا تھا جس پر بموں کی برسات ہو رہی تھی۔ وہ شاید ائیر برسٹ بم استعمال کر رہے تھے یا بم درختوں سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے تھے، بس بموں کے ٹکڑے گر رہے تھے۔ مجھے بموں سے زیادہ، اس ٹیلے کی فکر تھی جس پر دفاعی پوزیشن بنانا مقصود تھی اور اسکی جھلک درختوں کے بیچ میں سے پڑ رہی تھی۔ میں ٹیلے اور اپنی زیرِ کمان فورس کی تلاش میں جا رہا تھا کہ بم کا ایک ٹکڑا میری سٹیل ہلمٹ پر لگا اور ہلمٹ گِر گئی۔ بم گرے ہی جارہے تھے اور عجب نشانوں پر لگ رہے تھے۔ اس عرصے میں بم کا ایک اور ٹکڑا میری بائیں گال پر لگا اور اس نے گال چیر دیا۔ میرا جبڑااور دانت ٹوٹ گئے اور خود بم کے ٹکڑے کے مزید ٹکڑے ہوگئے اور چند ایک زبان میں پیوست ہوگئے۔ (ایک ابھی تک میری گردن میں موجود ہے)خون رک ہی نہیں رہا تھا۔ مجھے بریگیڈ ہیڈکوارٹر کے بنکر میں لایا گیا جہاں میں نے زخمی جی او سی16ڈویژن کو دیکھا۔ ان کا گھٹنا زخمی تھا، انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ جنرل اظہر بھی زخمی تھے لیکن انہوں نے ہسپتال جانے سے انکار کردیا کہ ڈویژن کی کمانڈ تبدیل ہوگی اور نئے جی او سی کو بریفنگ کی ضرورت ہوگی، جو یہ خود مہیاکریں گے۔ جنرل اظہر، جنگ کے خاتمے تک وہیں رہے۔ لڑائی ختم ہوئی تو ہسپتال گئے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ بم کا ٹکڑا انکے گردے کے ایک ملی میٹر کے فاصلے پر تھا اور ان کے زخم میں پیپ پڑ چکی تھی۔ 1971ء کی جنگ کا نتیجہ ہی افسوس ناک تھا۔ ہم اچھی کارکردگیوں کا ذکر بھی نہ کرسکے۔ اور جنرل اظہر جیسوں کی فرض شناسی، صبر و استقامت اور وطن کے لیے سب کچھ قربان کر دینے کا جذبہ قوم کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہا۔
مجھے فرسٹ ایڈ دی گئی۔ جلدی میں، ڈاکٹر صاحب نے منہ میں پٹیاں رکھ دیں اور یہ بھی بتانا بھول گئے کہ مجھے کس کروٹ لیٹنا چاہیے۔ دو قدم چل کر مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی۔ منہ سے خون بہہ بہہ کر میرے معدے میں جارہا تھا۔ راستے میں ہوش آیا تو میں نے سنا کہ نرسنگ اسسٹنٹ جس کا ہاتھ میری نبض پر تھا اور ڈرائیور کے درمیان تکرار ہو رہی تھی۔ نرسنگ اسسٹنٹ کہہ رہا تھا کہ تیز چلو اور ڈرائیور بتا رہا تھا کہ مٹی اڑی تو دشمن کا جہاز آ جائے گا۔ اسی اثنا میں نرسنگ اسسٹنٹ نے میری نبض چھوڑ دی اور ڈرائیور کو کہا، ”توں کر لے اپنی مرضی، اے تے ٹھنڈا ہوگیا ای” میں سُن رہا تھا۔ میں نے ڈرائیور کا ہاتھ پکڑ کر دبایا اور حلق سے غرانے کی آواز نکالی۔ اچھا جی اچھا جی اس نے کہا اور میری نبض دوبارہ تھام لی۔ مین ڈریسنگ سٹیشن میں ڈاکٹر صاحب نے دلجوئی کے کلمات سے استقبال کیا اور کہا کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس عرصہ میں خون بہہ جانے سے میں اتنا کمزور ہوچکا تھا کہ آنکھیں نہیں کھلتی تھیں، سُن البتہ سب کچھ رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جلدی جلدی بلڈ گروپنگ کا حکم دیا۔ وہ بلڈ ٹرانسفیوژن کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں بطور اسٹاف افسر ایک چھوٹی سی نوٹ بک اور بال پوائنٹ ہر وقت جیب میں رکھتا۔ میں نے جیب سے نکال کر لکھنا شروع کیا۔ ڈاکٹر صاحب سمجھے کہ میں شاید وصیت وغیرہ لکھنا چاہتا ہوں اور بولے کوئی ضرورت نہیں آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ میں نے لکھاA+اور چٹ ڈاکٹر صاحب کو دے دی۔ خوش ہوئے اور نعرہ مارا A+اور مجھے کہا آپ نے قیمتی وقت بچا لیا۔ مجھے خون دیا گیا۔ میں نے بعد میں دیکھا کہ میرے بائیں ہاتھ کی پشت پر ایک کٹ تھا، جس کے اوپر پٹی کر دی گئی تھی۔ ایسا ہی کٹ کہنی کے اندرونی جانب تھا اور ایک کٹ کہنی اور کندھے کے درمیان اُوپر بازو میں۔ خون دینے کے لیے رگ تلاش کر رہے تھے اور سب رگیں خشک تِھیں۔ ٹخنے کے پاس رگ میں خون رواں تھا۔ مجھے وہاں سے خون دیا گیا اور سرنج اندر ہی چھوڑ دی گئی تاکہ بوقتِ ضرورت مزید خون دیا جاسکے۔
پھر مجھے اس وقت ہوش آیا جب میرے قریب خاکی ساڑھیوں میں ملبوس دو لیڈی ڈاکٹرز نظر آئیں۔ میں نے اسی نوٹ بک پر لکھا میں کہاں ہوں ؟حیدرآباد، مجھے بتایا گیا۔ میں وہاں کتنا عرصہ رہا، کچھ ہوش نہیں۔ کچھ دن کے بعد، جب میں سنبھلا تو میں نے بیڈ کے ساتھ لٹکے کاغذات میں ڈاکٹروں کے نوٹ دیکھے۔ سی ایم ایچ حیدر آباد میں قیام کے دوران لکھا تھا کہ سانس لے رہا ہے، اس نے ٹانگ ہلائی۔وہاں مجھے ہوش نہیں تھا البتہ یہ یاد ہے کہ گزشتہ زندگی ایک فاسٹ فارورڈ فلم کی طرح میرے سامنے گزری اور پھر تکرار ہو رہی تھی۔ میںمُصِرتھا کہ میں نے نہیں جانا، ابھی مجھے یہ بھی کرنا ہے اور وہ بھی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ کم از کم میری حد تک، جانے یا نہ جانے میں میری مرضی شامل تھی اور میرا مؤقف واضح تھا کہ مجھے نہیں جانا۔
پھر مجھے اس وقت ہوش آیا جب مجھے ہیلی کاپٹر سے اتار کر اسٹریچر پر ڈال کر پی این ایس شفا لے جایا جارہا تھا۔ وہاں میں چند ہفتے رہا۔
گردن میں سوراخ کردیا گیا تھا کہ گردن سے سانس لے سکوں اور ناک میں نالی تھی جس کے ذریعے خوراک اور پانی معدے میں پہنچایا جاتا تھا۔ بائیں ٹخنے میں انتقالِ خون کے لیے سرنج چھوڑ دی گئی تھی۔ زبان سوجی ہوئی تھی کہ دھات کے ٹکڑے اندر ہی تھے اور خون کے اخراج کو روکنے کے لیے اوپر ٹانکے لگا دئیے گئے تھے۔ مجھے جو بات کرنا ہوتی میں چٹ پر لکھ کر تیماردار کو دے دیتا۔ ایک دن لیٹے لیٹے میری زبان سے خون جاری ہوگیا، ایسے جیسے نلکے کی ٹونٹی کھل جاتی ہے۔ میں نے منہ، ساتھ رکھی بالٹی کی طرف کر دیا۔ خون کی دھار دیکھ کر میرے تیماردار بڑے بھائی نے روہانسا ہو کر چیخ ماری ”ڈاکٹر صااااحب” میں نے چِٹ پہ لکھا، میں ٹھیک ہوں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ خون نکل جائے گا؛ اور دے دیں گے اور اپنے بھائی کو تھما دی۔ اسی اثنا میں بم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے زبان سے نکل کر بالٹی میں گرے؛ ڈاکٹر صاحب آئے اور ایک اور آپریشن ہوا اور خون بہنا رک گیا۔
ان دنوں میرا منہ بائی پاس کردیا گیا تھا کہ خوراک سیدھی معدے میں پہنچا دی جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے گلے سے اُترتے ٹھنڈے پانی کی لذت کتنی شدت سے یاد آئی۔ میں نے پانی مانگا۔ کہا گیا کہ نگلنا تکلیف دہ ہوگا، میں نے پھر ضد کرکے پانی منگوایا اور گلے سے اتارتے ہوئے درد بھی ہوئی لیکن ٹھنڈے پانی کی راحت نے روح خوش کردی۔ کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ پانی پی سکنا بھی کتنی بڑی نعمت ہے اور کیا کمال ذائقہ ہے پانی کا۔
مجھے کافی دن ہوگئے ہسپتال میں، ایک دن میں نے فلم دیکھنے کے لیے باہر جانے کی اجازت طلب کی۔ ڈاکٹر نے ہنسنا شروع کردیا؛ یہ پہلا موقع ہے کہ ڈی آئی ایل کا مریض فلم دیکھنا چاہتا ہے۔ ڈی آئی ایل dangerously ill list پر وہ مریض ہوتے ہیں جو کسی وقت بھی کوچ کر سکتے ہیں۔
زبان کے ٹانکے کھلے۔ خیال تھا کہ شاید میں بات نہ کر سکوں، لیکن میں نے بات شروع کردی۔
گال کے کٹنے سے میرے چہرے کو بائیں طرف سے لقوہ ہو گیا تھا۔ منہ ٹیڑھا تھا اور مجھے اپنے ہونٹوں پر بائیں جانب کنٹرول نہیں تھا۔ بات کرتا تھوک باہر گرتا۔
ان دنوں ڈاکٹر جمعہ خان پاکستان کے واحد پلاسٹک سرجن ہوتے تھے۔ میں نے کہا کہ مجھے انکے پاس لے چلو مگر ڈاکٹر صاحبان نے سمجھایا کہ (facial nerve) چہرے کی نس کٹ گئی ہے، ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ اور مجھے تسلی دی؛ کوئی بات نہیں تم سولجر ہو اسی طرح گزارہ کرو۔
گھر چھٹی آیا۔ بہنوں نے دیکھ کر رونا شروع کردیا۔ گال پر H کی طرح کا کالا نشان۔ گردن میں سوراخ کا نشان اور منہ کو لقوہ۔ والد صاحب مرحوم صوفی تھے۔ بولے تم ٹھیک ہو جائو گے۔ چہرے کے نشان بھی سکن کلر کے ہو جائیں گے اور لقوہ بھی ٹھیک ہوجائے گا۔ عرض کیا کہ facial nerve کٹ گئی؛ میری بات کاٹ کر بولے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ انداز دعائیہ، نہیں تحکمانہ تھا، ایسا کہ جیسے مجھے اطلاع دے رہے ہوں جو وہ دیکھ رہے تھے۔
اسی دوران خبر ملی کہ جن میجر صاحب کو گورنر نے میری جگہ سلیکٹ کیا تھا، چارج سنبھال رہے ہیں اور دفتر میں پڑی لوہے کی الماری کی چابی کا پوچھتے ہیں۔ میں نے بتادیا کہ کہاں پڑی ہے۔ میری غیر موجودگی میں ہینڈنگ ٹیکنگ ہوئی اور پائی پائی کا حساب موجود تھا:
رکھ لی میرے خدا نے میری بے کسی کی لاج۔
میں سی ایم ایچ پشاور میں چند ہفتے گزار کر سی ایم ایچ راولپنڈی آگیا۔
Maxillofacial surgeon کرنل صاحب میرے معالج تھے۔ انہوں نے بھی بتایا کہ مجھے ایسے ہی رہنا ہوگا۔ کئی ہفتوں کے بعد ایک دن میں نے محسوس کیا کہ منہ کا بایاں حصہ بھی میرے ہاتھوں کے لمس محسوس کر رہا ہے اور پھر دو ایک دن میں لقوہ ٹھیک ہونا شروع ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب آئے تو میں کہا کہ آپ تو کہتے تھے ٹھیک نہیں ہوگا مگر ہورہا ہے، کیسے۔ بولے کبھی کبھی ایسے ہو جاتا ہے اور آگے چل دیے۔ عرض کیا، نہ سر مجھے بتا کر جائیے۔ بولے پہلی بات تو یہ ہے ہم انسانی جسم کو ابھی تک مکمل طور پر نہیں سمجھتے۔ میں فقط اندازہ لگا سکتا ہوں۔ ہو سکتا کہ چہرے کی نس کٹی نہ ہو زخمی ہو اور اب صحت مند ہوگئی ہو یا اس نے شاخیں نکال لی ہوں۔
الحمدللہ میں ٹھیک ہوگیا اور نارمل زندگی گزار رہا ہوں۔
پتا نہیں، میں نے دفاعِ وطن کے لیے کچھ کیا کہ نہیں لیکن یہ اطمینان ضرور ہے کہ جو کر سکتا تھا، کیا۔ کمی رہ گئی ہو تو میرا وطن اور میرا خدا مجھے معاف کرے۔
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔۔۔۔۔۔
اﷲ پاکستان کو سلامت رکھے!(بشکریہ ہلال)