انٹرٹینمنٹپاکستاندلچسپ و عجیبکالم

38 کنال کے وسیع رقبے پر پھیلاہواشاندار “لاج محل “لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا

(مانیٹرنگ ڈیسک)ہارون آباد کی ایک رہائشی خاتون، مریم لاج نے اپنی انتھک محنت اور تہذیب و ثقافت سے گہری وابستگی کے باعث ایک شاندار تعمیراتی شاہکار تخلیق کیا ہے، جسے ‘لاج محل’ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ محل اپنے منفرد انداز اور ثقافتی رنگوں کی آمیزش کے باعث علاقے بھر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
آج کے دور میں اپنی ذاتی حیثیت میں تہذیب و تمدن اور ثقافت کے شوق کو عملی جامہ پہنانا یقیناً ایک مشکل امر ہے، لیکن مریم لاج نے اپنی مضبوط قوتِ ارادی اور مسلسل جدوجہد سے اس خواب کو حقیقت میں بدل دکھایا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر نوجوان نسل میں اپنی تہذیب و ثقافت سے دوری کے احساس کے پیشِ نظر اس کے فروغ کے لیے عملی قدم اٹھایا۔
38 کنال کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا یہ لاج محل اپنی شاندار تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 15 فٹ اونچی دیواریں اور چار میناروں پر مشتمل دو حصوں والا داخلی دروازہ ایک خاص کشش رکھتا ہے۔ محل کے اندرونی اور بیرونی حصے کو مختلف نایاب اور ثقافتی اشیاء سے مزین کیا گیا ہے، جو اس کی خوبصورتی اور انفرادیت میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں سیاح اس شاہکار کو دیکھنے کے لیے جوق در جوق آ رہے ہیں اور اس کی فنِ تعمیر پر داد دیے بغیر نہیں رہ پاتے۔
خاتون مریم لاج کا کہنا ہے کہ انہوں نے لوگوں، بالخصوص اپنے بچوں میں اپنی تہذیب و ثقافت سے دوری کو محسوس کیا اور اسی احساس کے تحت اس کے فروغ کے لیے عملی قدم اٹھانے کا عزم کیا۔ انہوں نے بتایا کہ محل کے 15 بیرونی دروازے اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہیں۔ اس شاندار محل کی تعمیر بلاشبہ ایک صبر آزما کام تھا، جس میں کاریگروں کی انتھک محنت، لگن اور اعلیٰ طرزِ تعمیر واضح طور پر جھلکتا ہے۔
لاج محل کی عمدہ اور شاہانہ تعمیر کے ساتھ ساتھ اس میں موجود ثقافت سے جڑی قیمتی اشیاء اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہی ہیں اور سیاحوں کے لیے ایک خاص کشش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ محل کے احاطے میں قائم ایک چھوٹا سا پارک نایاب پرندوں اور جانوروں کی موجودگی کے سبب قدرت کا دلکش منظر پیش کرتا ہے۔ جدید دور میں پرانی ثقافت کی عکاسی کرتا یہ لاج محل اپنی ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ثقافت اور بچوں کے ساتھ محبت کی ایک لازوال داستان بھی رقم کرتا دکھائی دیتا ہے۔
مریم لاج نے لاج محل کی تعمیر کے آغاز کے وقت اپنے خاندان کی مدد اور ایک سو افراد کی ٹیم کے ساتھ یہ منصوبہ شروع کیا۔ اُن کا مقصد نہ صرف اپنی ثقافت کی حفاظت کرنا تھا بلکہ اپنے علاقے کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنا بھی تھا۔ ‘لاج محل’ آج نہ صرف ہارون آباد بلکہ پورے ملک میں ایک مثال کے طور پر یاد کیا جا رہا ہے۔ مریم لاج کی محنت اور لگن نے یہ ثابت کیا کہ حقیقی محبت اور عزم کے ساتھ کوئی بھی خواب حقیقت بن سکتا ہے۔
لاج محل کی تعمیر نے سیاحت کے شعبے میں ایک نئی جہت کو جنم دیا ہے۔ محل کی تعمیر میں اسلامی، ہندو، اور مقامی ثقافت کے مختلف عناصر کو یکجا کیا گیا ہے، جو اسے منفرد بناتا ہے۔ سیاحوں کے لیے اس محل میں آنے کا ایک نیا مقصد بن چکا ہے، جہاں وہ نہ صرف عمارت کی تعمیرات کا لطف اٹھاتے ہیں بلکہ ان کی ثقافتی ورثے سے جڑی اشیاء کو دیکھ کر ماضی کی عظمت کو محسوس کرتے ہیں۔
یہ لاج محل پاکستان کی ثقافت کی ایک جھلک اور اس کی دلکش تاریخ کا آئینہ دار بن چکا ہے جو آنے والی نسلوں کو اپنی جڑوں سے جوڑے رکھنے کے لیے ایک یادگار کے طور پر موجود رہے گا۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button