کالم

کراچی: حسین صبحیں‘ شکیل شامیں

(شاہدصدیقی)

اب تو کراچی سے بچھڑے ایک مدت ہو گئی۔ وہ 1999ء کا سال تھا جب روشنیوں اور شیتل ہواؤں کے اس شہر سے رخصت ہو کر لاہور آیا لیکن سچ یہی ہے کہ میں کراچی کو کبھی نہیں بھول سکا۔ اس کے سمندر کی ہواؤں میں بھیگی ہوئی شامیں کوئی کیسے بھلا سکتا ہے؟ کراچی میں میرا قیام تین برس کا تھا‘ 1996ء سے 1999ء تک۔ یہ عرصہ یوں گزر گیا جیسے کوئی خوش رنگ خواب تھا جو اچانک تمام ہو گیا۔ کراچی میں میرا قیام ملیر کینٹ میں تھا جہاں سے ہر صبح میں اپنی سفید رنگ کی شیراڈ کار میں یونیورسٹی روڈ کے راستے کریم آباد پہنچتا جہاں آغا خان یونیورسٹی کا انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ تھا‘ جہاں میں پڑھاتا تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے‘ انسٹیٹیوٹ کا سربراہ معروف ماہر تعلیم کاظم بیکس (Kazim Bacus) تھا۔ کاظم کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی سے آیا تھا اور جلد ہی اپنی دلپذیر شخصیت کی بدولت لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا تھا۔ زندگی میں جن لوگوں نے اپنی علمیت اور شخصیت سے مجھے متاثر کیا ان میں کاظم کا نام سرِ فہرست ہے۔
کاظم ہی نے مجھے اسلام آباد سے کراچی جانے پر راضی کیا اور یوں میں اسلام آباد کی خاموش اور ٹھہری ہوئی زندگی کو چھوڑ کر کاظم بیکس کے ساتھ کراچی چلا گیا۔ انسٹیٹیوٹ میں تین سالہ قیام کے دوران میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس سارے عمل میں کاظم کا مرکزی کردار تھا۔ ہمارا انگلش کا ایک مختصر سا ڈپارٹمنٹ تھا۔ فاروق‘ فوزیہ‘ عائشہ‘ اقبال‘ ہم سب لوگ میری گاڑی میں بیٹھتے اور اکثر لنچ کے لیے جاوید نہاری‘ کبھی طارق روڈ اور کبھی برنس روڈ چلے جاتے۔ وہ بھی کیسے دن تھے‘ اب تو اُن دنوں کی یاد باقی رہ گئی ہے۔ احمد مشتاق نے شاید اسی صورتحال کے لیے کہا تھا:
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
مجھے معلوم تھا کہ میرے محبوب رسالے سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیر شکیل عادل زادہ بھی کراچی میں رہتے ہیں لیکن اتفاق ہے کہ میرے کراچی کے قیام کے تین برسوں میں ان سے ملاقات نہ ہو پائی۔ انسٹیٹیوٹ میں اپنی مدت مکمل ہونے پر کاظم واپس کینیڈا کی یونیورسٹی برٹش کولمبیا چلا گیا اور میں بھی 1999ء میں لاہور آگیا۔ کراچی اب میرے لیے ایک خواب بن کر رہ گیا تھا۔ اسی دوران آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے کراچی لٹریچر فیسٹول کا آغاز کیا جس میں ادیبوں اور کتابوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جاتا۔ اب تو یہ ایک مستقل روایت بن گئی ہے کہ کراچی لٹریچر فیسٹول کراچی کے ایک لگژری ہوٹل میں ہوتا ہے۔ تین دن کے لیے ہوٹل کے وسیع لان میں کانفرنس رومز آباد ہو جاتے ہیں اور پھر بوٹ ریستوران میں ناشتے اور لنچ پر بہت سے نئے اور پرانے ادیبوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس ریستوران کے ماحول کا اپنا سحر ہے۔ اردگرد پانیوں کا بہاؤ ہوتا ہے اور پانیوں کے اوپر کھلی فضاؤں میں سفید رنگ کے پرندے ہوا میں پرواز کر رہے ہوتے ہیں۔ یہیں پر ایک بار ناشتے کی میز پر میری اردو کے مایہ ناز ادیب اور ”اداس نسلیں‘‘ کے مصنف عبداللہ حسین سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے اپنے ناول ”اداس نسلیں‘‘ کے انگریزی ترجمے (The Weary Generations) کے بارے میں بتایا۔ یہ ترجمہ انہوں نے خود کیا تھا۔ ”اداس نسلیں‘‘ کی اشاعت کو نصف صدی سے اوپر ہونے کو آئی ہے مگر آج تک یہ ناول مسلسل شائع ہو رہا ہے اور اد بی محفلوں میں اس ناول پر سنجیدہ گفتگو ہوتی ہے۔
جیسے میں نے پہلے بتایا کہ خواہش کے باوجود کراچی کے قیام کے دوران میری شکیل عادل زادہ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ زندگی کے راستے بھی ٹیڑھے میڑھے ہیں‘ جانے کس موڑ پر کوئی چہرہ چھپ جائے اور پھر اگلے ہی موڑ پر وہی دل رُبا چہرہ مل جائے۔ اُس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ میں لاہور میں ایک ریستوران میں دوستوں کے ہمراہ بیٹھا تھا کہ اچانک میری نگاہ شکیل عادل زادہ پر پڑی۔ میں لپک کر گیا اورگرم جوشی سے ملا۔ پھر ہم نے ایک میز پر بیٹھ کرکھانا کھایا۔ اُس دن مجھے زندگی کے اتفاقات پر یقین آ گیا۔
اگلے سال جب میں کراچی لٹریچر فیسٹول میں شرکت کے لیے گیا تو ایک اور خوشگوار اتفاق میرا منتظر تھا۔ اُس وقت لگژری ہوٹل میں کراچی لٹریچر فیسٹول میں لنچ کا وقفہ تھا‘ میں نے حسب معمول اُس لگژری ہوٹل کے پانیوں میں گھر ے ہوئے بوٹ ریستوارن میں گیا تو دیکھا کہ ایک میز پر شکیل عادل زادہ بیٹھے ہیں اور ان کے برابر والی میز پر ایک اور صاحب موجود ہیں۔ میں ان کی میز پر گیا تو شکیل بھائی نے تعارف کراتے ہوئے کہ یہ میرے دوست شکیل ہیں‘ ان کا پورا نام شکیل الرحمن ہے‘ مجھے اس وقت علم نہیں تھا کہ میں شکیل عادل زادہ کے بعد ایک اور شکیل کی دوستی کے سحر میں گرفتار ہونے جا رہا ہوں۔
شکیل الرحمن کی شخصیت کو ایک لفظ میں بیان کریں تو وہ لفظ ”مٹھاس‘‘ ہے۔ یہ مٹھاس ان کی گفتگو اور ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ وہ غالب اور مشتاق یوسفی کے دیوانے ہیں۔ غالب کا زمانہ تو لد گیا تھا البتہ مشتاق یوسفی سے ان کی خوب محفلیں رہیں‘ مہمان نوازی اور شعری ذوق انہوں نے اپنے والد سے ورثے میں پایا ہے۔ یہ ملاقات کئی برس پہلے ہوئی۔ پھر تو یہ معمول بن گیا کہ جب بھی کراچی جانا ہو تو شکیل الرحمن صاحب کے گھر میں ایک نہاری کی دعوت ہوتی ہے جس میں شکیل عادل زادہ‘ وسعت اللہ خان‘ سلمان علوی‘ افضال صاحب اور محمد عرفان مستقل ارکان کے طور پر موجود ہوتے ہیں لیکن ہر بار کچھ نئے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے ہیں۔ اس دعوت کی خاص بات نہاری ہے جسے شکیل الرحمن کی بیگم تیار کرتی ہیں۔ یہ کراچی کی لذیذ ترین نہاری ہے جس کے لیے ہم ایک سال انتظار کرتے ہیں۔
اس برس بھی فروری کے مہینے میں کراچی اور لٹریچر فیسٹول کا بلاوہ آیا تو ہمیشہ کی طرح میں نے کراچی کے دو شکیلوں (شکیل عادل زادہ اور شکیل الرحمن) کو اپنے آنے کی خبر دی۔ طے ہوا کہ 8 فروری کی رات ہم نہاری کی دعوت پر اکٹھے ہوں گے۔ میں ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ سیشنز کے بعد اپنے کمرے میں آیا تو شکیل الرحمن کے ڈرائیور گلشن کا فون آ گیا۔ اس نے بتایا کہ وہ ہوٹل کی پارکنگ میں میرا انتظار کر رہا ہے۔ گلشن سے میری پچھلے کئی برسوں سے شناسائی ہے۔ ہم نے سب سے پہلے افضال صاحب کو پِک کیا اور پھر شکیل عادل زادہ صاحب کے گھر پہنچے۔ وہ تیار تھے اور ہمارے منتظر تھے۔ ہمیشہ کی طرح سے گرم جوشی سے ملے اور ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ جب ہم شکیل الرحمن صاحب کے گھر پہنچے تو پہلے سے ہی وسعت اللہ خان اور معروف گلوکار سلمان علوی صاحب بیٹھے تھے۔ ان کے قریب محمد عرفان بھی تھے جو اردو شاعری کے حافظ ہیں۔ آج کی محفل میں انور شعور صاحب غیر حاضر تھے کیونکہ وہ رات ساکنانِ کراچی کے مشاعرے میں مصروف تھے۔ کھانے کی میز تیار تھی جس میں مرکزی ڈش نہاری تھی۔ ہمیشہ کی طرح نہاری بہت لذیز تھی جس کا سارا کریڈٹ شکیل الرحمن صاحب کی بیگم کو جاتا ہے۔ کھانے کے بعد ہم واپس ڈرائنگ روم آگئے جہاں کراچی کی مشہور ربڑی اور گلاب جامن ہمارے منتظر تھے۔ سلمان علوی غزل کے بہت اچھے گلوکار ہیں انہوں نے سب کی فرمائش پر کچھ غزلیں سنائیں۔ وسعت اللہ خان صاحب نے اپنے موبائل کی مدد سے اپنے پسندیدہ شعرا کا کلام سنایا۔ عرفان نے بھولے بسرے مصرعوں پر پوری غزلیں سنا دیں۔ آخر میں شکیل عادل زادہ صاحب نے بازی گر کی آخری قسط کے حوالے سے اَپڈیٹ کیا۔ باتوں باتوں میں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ تب کسی نے کہا کہ رات کے بارہ بج رہے ہیں۔ میں باہر نکلا تو ہوا میں خنکی تھی۔ میں نے سر اٹھا کرکھلے آسمان کو دیکھا اور سوچا یہ لمحے بھی کتنے قیمتی ہیں۔ آنے والے کل میں ان لمحوں کی محض یاد باقی رہ جائے گی۔(بشکریہ دنیا)

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button