قصہ ایک فلائی اوور کی تختی کا
(خالد مسعودخان)
بندہ پوچھے بھلا ملتان کوئی مریخ پر واقع ہے کہ اس کا حال پاکستان کے دیگر شہروں سے مختلف ہو گا؟ دراصل ملتان کا نام تو اِک استعارہ ہے جس کی آڑ میں یہ عاجز پاکستان بھر کے شہروں میں ہونے والی ناانصافیوں اور غلط بخشیوں پر رو پیٹ کر اپنا دل ہلکا اور ایمان کے دوسرے درجے پر فائز ہونے کی خواہش میں یہ فریضہ سرانجام دے کر اپنا ضمیر مطمئن اور لکھنے کا فرض پورا کرتا ہے۔
کسی ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کے حامل ضلع کو چلانے کیلئے زیادہ نہیں‘ صرف چار عدد ایسے مخلص سرکاری افسروں کی ضرورت ہوتی ہے جو کام کرنے کی اہلیت کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی صلاحیت اور نیت بھی رکھتے ہوں۔ اچھے سرکاری افسروں کے قحط الرجال میں شاید ہی کوئی ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ایسا ہو جہاں ایسے چار آفیسر میسر ہوں۔ ہر جگہ یہ نسبت اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے مگر ملتان اس لحاظ سے زیادہ ہی بدقسمت ڈویژنل ہیڈ کوارٹر والا ضلع ثابت ہوا کہ اس کے یہ چاروں انتظامی افسر ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔
اب ان چاروں کے بارے میں کیا لکھوں؟ سب کچھ لکھا بھی نہیں جا سکتا کہ اخبار بہرحال ان چیزوں کو چھاپنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہاں! البتہ سوشل میڈیا کی بات الگ ہے لیکن یہ تحریر کیونکہ اخبار میں چھپ رہی ہے اس لیے ان حدود و قیود کی پابندی لازمی ہے۔ سو اشاروں پر ہی گزارہ کیجیے۔ ایک افسر کو تو سرے سے کام ہی نہیں آتا تھا اور دوسری افسر نے کام نہ کرنے کی گویا قسم کھا رکھی تھی۔ مجال ہے جو کسی فائل پر کوئی ایکشن لیا ہو۔ گزشتہ چند ماہ سموگ اور ماحولیات کا معاملہ سب سے شدید توجہ کا طالب تھا اور عالم یہ تھا کہ اس انتظامی افسر کے زیر سرپرستی ایک ماحولیاتی کمیٹی تھی جس کا اجلاس گزشتہ ڈیڑھ سال سے نہیں ہوا تھا۔ اس کمیٹی سے جڑے ہوئے فیصلوں کے منتظر کئی لوگوں نے بڑی تگ و دو کی کہ کسی طرح یہ اجلاس ہو جائے۔ کئی بار اوپر سے کہلوا کر اس کی تاریخ بھی رکھوائی مگر یہ اجلاس نہ ہونا تھا‘ نہ ہوا۔ کبھی عین اسی دن لاہور چلی گئیں‘ کبھی چھٹی لے کر برطانیہ چلی گئیں اور کبھی ویسے ہی دل نہ کیا تو میٹنگ منسوخ کر دی۔ یہ صرف ایک مثال ہے‘ وگرنہ ہر فائل اور ہر میٹنگ کے ساتھ یہی سلوک ہوا۔دیگر انتظامی افسروں کے شوق نرالے ہیں۔ یہ وہ شوق اور کام ہیں کہ جن کی نہ کوئی رسید ہوتی ہے اور نہ کوئی دستاویزی ثبوت۔ ہاں! کبھی وڈیو لیک ہو جائے تو علیحدہ بات ہے تاہم یہ سب کچھ کالم کے دائرہ کار سے باہر والی چیزیں ہیں۔ اس لیے ان سے درگزر ہی بہتر ہے۔ ملتان کی قسمت بہرحال انتظامی افسروں کے معاملے میں اتنی خراب کبھی نہیں رہی تھی کہ چاروں دانے داغی نکل آئیں مگر ہونی کو کون روک سکتا ہے جہاں ہر طرف قحط الرجال ہو تو وہاں اس شہرِ ناپرساں کے ساتھ یہ کون سی انوکھی واردات تھی کہ بندہ حیران و پریشان ہوتا۔ سو اسے برداشت کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا‘ سو صبر کر رہے تھے۔
برطانیہ میں خبر ملی کہ ان چار ہیروں میں سے ایک کوواپس منگوا لیا گیا ہے۔ دل کو تھوڑی تسلی ہوئی۔ پھر کسی نے بتایا کہ آنے والا افسر بہتر ہے اور اب کل ایک اور تحفہ واپس منگوا لیا گیا ہے اور اس کی جگہ جو افسر آیا ہے اس کے بارے میں یہ عاجز بذاتِ خود جانتا ہے کہ کام نپٹانے اور مسائل کے حل کے سلسلے میں نیک نام ہے۔ اب باقی دو ہیرے بچے ہیں‘ اللہ کے گھر سے امید ہے کہ وہ اس شہر پر کرم فرمائے گا۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ سو سال بعد تو ”رُوڑی‘‘ کی بھی سنی جاتی ہے۔ ہم تو پھر اس رحیم کے گنہگار بندے ہیں جو نہایت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ تاہم مجھے اُن شہر والوں سے دلی ہمدردی ہے جہاں یہ افسر جائیں گے۔ بقول چچا غالب:
آئے ہے بے کسیٔ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد
آج صبح گھر سے نکلا تو ہر کھمبے‘ ہر سڑک اور ہر چوک پر وزیراعلیٰ پنجاب کی ملتان متوقع آمد پر رنگ برنگلے چھوٹے بڑے تہنیتی اور مبارکبادی بینر و پینا فلیکس لگے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ محترمہ ملتان میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے افتتاح کے لیے تشریف لا رہی ہیں۔ یہ پرائیویٹ یونیورسٹی بہرحال اس فلائی اوور سے زیادہ خوش قسمت اور مقدر والی ہے کہ یہ فلائی اوور کافی عرصہ تک اپنے افتتاح کی تختی لگنے کے انتظار میں سوکھنے پڑا رہا تھا۔یہ ملتان انڈسٹریل اسٹیٹ کیلئے ریلوے لائن کے اوپر سے گزرنے والا فلائی اوور تھا۔ ایک عرصہ تک صرف کاغذوں میں رہنے کے بعد بالآخر اس کی تعمیر شروع ہو گئی۔ ہم ملتان والے جب تختِ لاہور کا طعنہ دیتے ہیں تو اس کے پیچھے اسی قسم کے واقعات ہوتے ہیں۔ لاہور میں فلائی اوور اور انڈر پاس اپنے وقت مقررہ سے کئی ماہ قبل مکمل ہو جاتے ہیں جبکہ ہم بے آسرا لوگوں کے شہروں میں بننے والے اس قسم کے پراجیکٹ قسط وار ملنے والی تعمیراتی رقم کیلئے لاہور کی طرف منہ اٹھائے اگلی قسط کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ خیر‘ اپنی طے شدہ مدت کے کئی ماہ بعد تعمیر ہو کر یہ فلائی اوور مکمل تو ہو گیا مگر عوام کیلئے اسے بند ہی رکھا گیا۔ ادھر اُدھر سے پتا کیا تو علم ہوا کہ مسئلہ اس کے افتتاح کا ہے اور یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ اس کی افتتاحی تختی کون لگائے گا۔ تختی لگانے کے دو امیدوار تھے‘ ایک سید یوسف رضا گیلانی اور دوسری وزیراعلیٰ پنجاب۔ ظاہر ہے دونوں کے مابین کوئی حقیقی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ لہٰذا اس فلائی اوور پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے دست مبارک سے افتتاح کی تختی بھی لگ گئی مگر وزیراعلیٰ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث یہ فریضہ سرانجام نہ دے سکیں۔ اس بے وجہ تاخیر پر انڈسٹریل اسٹیٹ کے صنعتکار تو تنگ تھے ہی‘ اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس فلائی اوور کی تعمیر کے باعث اس کے دونوں طرف والی سڑک ٹریفک کے قابل نہ رہی تھی اور یہ سڑک کوئی ذیلی سڑک نہیں بلکہ ملتان- مظفر گڑھ‘ ڈی جی خان اور کوئٹہ وغیرہ کیلئے ملتان شہر سے جانے والی مرکزی سڑک ہے۔ خیر اللہ اللہ کر کے بغیر افتتاح اس فلائی اوور کا افتتاح ہو گیا‘ میرا مطلب ہے اسے عوام کیلئے کھول دیا گیا۔
آج صبح جب میں ادھر سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ فلائی اوور کی صفائی ہو رہی ہے اور اس پر مچنے والے ٹریفک کے بے ہنگم پن کو روکنے کے لیے درمیان میں رکھے گئے عارضی سیمنٹ کے بلاک اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ پرائیویٹ یونیورسٹی کے افتتاحیہ دورے کے دوران وزیراعلیٰ لگے ہاتھوں مورخہ 29 جولائی 2024ء کو چالو ہو جانے والے فلائی اوور کا تقریباً چھ ماہ بعد اصلی اور سرکاری افتتاح فرمانے والی ہیں۔ آپ یقین کریں اس کالم کا مطلب اس چھ ماہ سے لٹکی ہوئی تختی پر طنز کرنا نہیں بلکہ کالم ہٰذا کے ذریعے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اس فلائی اوور کے نیچے والی سڑک یوکرین کی روسی بمباری سے تباہ شدہ کسی سڑک سے بھی زیادہ بُرے حالوں میں ہے اور لوگ اس سڑک کے بجائے اس فلائی اوور سے الٹے رخ گزرتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ نیچے والی سڑک ٹریفک کے قابل نہیں اور اوپر ٹریفک گھنٹوں جام رہتی ہے۔
فلائی اوور سے گزرنے والی الٹے رخ کی ٹریفک کو روکنے کیلئے درمیان میں عارضی بلاک رکھ کر اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس سے حالات مزید خراب ہو گئے۔ آج جب وزیراعلیٰ پنجاب اس فلائی اوور کا افتتاح کرنے آئی ہوں گی تو اس صاف شفاف فلائی اوور سے ان کی گاڑی زوں زوں کر کے گزری ہو گی تو ساتھ بیٹھے ہوئے کسی چاپلوس نے کہا ہو گا کہ میڈم! دیکھیں عوام کو آپ کے افتتاح کردہ اس پل سے کتنی آسانی ہوئی ہے۔ کاش! وزیراعلیٰ کو کوئی ہمت کر کے نیچے والی سڑک بھی دکھا دیتا۔ مگر حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ انہیں وہی چیز دکھائی جاتی ہے جو ان کو اچھی لگے۔