کالم

دریائی پانی کی تقسیم کا مسئلہ

(ڈاکٹر رشید احمد خاں)

1995ء میں عالمی بینک کے نائب صدر اسماعیل سراج الدین نے کہا تھا کہ اگر پانی کی تقسیم اور استعمال کے بارے میں عالمی اور قومی سطح پر ایک تسلی بخش نظام قائم نہ کیا گیا تو جس طرح 20ویں صدی میں تیل کے حصول کے لیے جنگیں لڑی گئی ہیں‘ اسی طرح 21ویں صدی میں پانی پر لڑائیاں ہوں گی۔ ڈاکٹر اسماعیل نے جب یہ بیان دیا تھا اُس وقت پانی کے مسئلے نے سر بھی نہیں اٹھایا تھا مگر آج 30برس کے بعد ان کا یہ قول سچ ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں پانی کی تقسیم پر جنگیں ہو چکی ہیں یا وہاں جنگ کا خطرہ موجود ہے۔ ان میں ہمارا خطہ جنوبی ایشیا بھی شامل ہے جہاں ایک طرف دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم پر پاکستان اور بھارت کے مابین شدید کشیدگی ہے‘ اور دوسری طرف بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین دریائے گنگا اور دریائے ٹیسٹا (Teesta) کے پانی کی تقسیم پر 1996ء کے معاہدے کے باوجود اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ شمال مشرقی علاقے میں دریائے برہم پُترا (Brahmaputra) پر چین کی طرف سے دنیا کے سب سے بڑے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم کی تعمیر کے منصوبے نے بھارت‘ بنگلہ دیش اور بھوٹان میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے کیونکہ یہ تینوں ممالک اپنی پانی کی ضروریات کیلئے دریائے برہم پُترا پر انحصار کرتے ہیں۔ بھارت کا نیپال کے ساتھ بھی دریائے مہا کالی کے پانی کی تقسیم پر اختلاف موجود ہے۔ اُدھر افغانستان میں طالبان کی حکومت کی طرف سے دریائے ہلمند پر ڈیمز کی تعمیر کے اعلان پر ایران نے سخت ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ دریائے ہلمند تین ملکوں ترکمانستان‘ افغانستان اور ایران میں سے گزرتا ہے۔ ایران اس دریا کے پانی سے وسیع علاقہ سیراب کرتا ہے اور اس نے افغانستان میں اس دریا پر ڈیمز کی تعمیر کو ہر قیمت پر روکنے کا اعلان کیا ہے۔ مستقبل میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان دریائے کابل کے پانی پر بھی اختلافات اور کشیدگی کا خدشہ موجود ہے کیونکہ دریائے کابل کا پانی پاکستان میں داخل ہو کر دریائے سندھ میں گرتا ہے اور اگر افغانستان دریائے کابل پر ڈیم تعمیر کرتا ہے تو دریائے سندھ میں پانی کی مقدار مزید کم ہو جائے گی جس کا اثر نہ صرف پاکستان کے نہری نظام بلکہ اندرونی سیاست پر بھی پڑ سکتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے مسئلے کا ایک نازک پہلو پاکستان اور بھارت کی داخلی سیاست ہے۔ مثلاً جنوبی بھارت کی دو ریاستوں کرناٹک اور تامل ناڈو کے درمیان دریائے کاوری کے پانی کی تقسیم پر جھگڑا اتنی شدید نوعیت کا ہے کہ ایک مرتبہ تو دونوں ریاستوں کی پولیس فورسز میں مسلح تصادم کی نوبت آ گئی تھی۔ اب بھی بھارتی سپریم کورٹ کی مداخلت سے ہونے والے معاہدے کے باوجود دونوں ریاستوں میں دریائے کاوری کے پانی کی تقسیم پر شدید اختلافات موجود ہیں۔
پاکستان میں پنجاب اور سندھ کے مابین دریائے سندھ اور اُس کے معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم پر تحفظات موجود ہیں۔ یہ مسئلہ ڈیڑھ سو سال پرانا ہے جو 1849ء میں پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے بعد صوبے کی بنجر اور غیر آباد زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے نہروں کا جال بچھانے سے شروع ہوا مگر اس نے تب ایک جھگڑے کی شکل اس لیے اختیار نہ کی کیونکہ دریائے سندھ اور اس کے معاون پنجاب کے پانچ دریاؤں جہلم‘ چناب‘ راوی اور ستلج کا پانی سندھ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی تھا؛ تاہم پنجاب اور سندھ کے درمیان علی الترتیب اَپر رائپیرین اور لوئر رائپیرین ہونے کی وجہ سے برٹش حکومت ایک متفقہ فارمولے کی ضرورت سے آگاہ تھی جس کی تلاش کیلئے 1947ء سے پہلے ہندوستان کی برطانوی انتظامیہ نے یکے بعد دیگرے تین کمیشن قائم کیے مگر ایک مستقل اور متفقہ فارمولا نہ طے پا سکا۔ 1947ء کے بعد سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم نے کراس بارڈر مسئلے کی صورت اختیار کر لی۔ اب یہ مسئلہ دو آزاد اور خود مختار ملکوں پاکستان اور بھارت‘ کے مابین تھا مگر 1960ء میں عالمی بینک کی مدد سے دونوں ملکوں کی طرف سے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کے بعد پاکستان کے چاروں صوبوں پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے درمیان پانی کی تقسیم کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں قابلِ کاشت رقبہ کم ہے اس لیے انہیں شکایات کم ہیں‘ اصل جھگڑا پنجاب اور سندھ میں ہے جسے متعدد ناکام کوششوں کے بعد بالآخر 1991ء میں حل کر لیا گیا۔
صوبوں میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم پر یہ معاہدہ کوئی آئیڈیل اور نقائص سے پاک نہیں‘ تاہم اس کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ اس پر چاروں صوبوں کا اتفاق ہے‘ اس لیے اس معاہدے کو بین الصوبائی مفاہمت اور یکجہتی کو فروغ دینے کے عمل میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے تاہم کچھ عرصہ سے سندھ کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزی اور اپنے حصے سے کم پانی ملنے کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف سندھ کے کاشتکار متاثر ہو رہے ہیں بلکہ دریائے سندھ کا ڈیلٹا بھی سکڑتا جا رہا ہے۔ اب تو بلوچستان بھی سندھ کے ساتھ مل کر دریائے سندھ سے کم پانی ملنے کی شکایت کر رہا ہے۔
پچھلے سال اکتوبر میں اِرسا (Irsa) کی ایڈوائزری کمیٹی کے ایک اجلاس میں اس مسئلے پر پنجاب اور سندھ کے ممبران میں گرما گرم بحث ہوئی۔ سندھ کے سیکرٹری آبپاشی نے شکایت کی کہ پنجاب کی جانب سے سندھ کے پانی کو لنک کینالز میں ڈالنے کی وجہ سے صوبہ سندھ کو خریف کے اوائل میں اپنے حصے سے 29 فیصد کم پانی ملا جس کی وجہ سے وہاں کپاس اور چاول کی فصل بری طرح متاثر ہوئی لیکن پنجاب کی طرف سے سندھ کے اس الزام کی تردید کی گئی اور اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا گیاکہ سندھ اپنے حصے سے 20 فیصد زیادہ پانی حاصل کر رہا ہے۔ دراصل سندھ میں کھیتوں تک پانی نہ پہنچنے کی اصل وجہ سندھ کا بوسیدہ نہری انفراسٹرکچر اور ناقص واٹر مینجمنٹ سسٹم ہے۔ پنجاب اور سندھ میں پانی کی تقسیم پر پہلے ہی اختلافات موجود تھے مگر اب ”گرین پاکستان انیشی انیٹو‘‘ کے تحت چولستان کی صحرائی زمین کو سیراب کرنے کیلئے دریائے سندھ سے چھ مزید نہریں نکالنے کے مجوزہ منصوبے سے سندھ میں احتجاج کی ایک نئی لہر اُٹھی ہے۔ اس احتجاج میں پیپلز پارٹی سمیت صوبے کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں لیکن سب سے زیادہ تنقید قوم پرست جماعتوں اور اپوزیشن کے اتحاد گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کی طرف سے ہو رہی ہے۔ ان کی طرف سے اس منصوبے کو سندھ کے خلاف سازش قرار دے کر اسے ناکام بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے مگر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے اس بحث کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سندھ کے حصے کا پانی کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ہر صوبے کو 1991ء کے معاہدے کے مطابق اس کے حصے کا مکمل پانی مل رہا ہے۔ وفاقی وزیر یہ بیان دیتے وقت شاید یہ بھول گئے کہ گزشتہ 10 برس سے کسی صوبے کو 1991ء کے معاہدے میں طے شدہ فارمولے کے مطابق پانی نہیں ملا اور اس میں قصور وار پنجاب ہے نہ سندھ اور نہ ہی وفاقی حکومت بلکہ موسمی تغیرات کی وجہ سے دریائے سندھ میں پانی کی کمی اس کی اصل وجہ ہے۔ دوسری وجہ دونوں بڑے صوبوں میں بداعتمادی کی فضا ہے۔ وفاقی حکومت کے چند یکطرفہ اقدامات مثلاً سندھ کو اعتماد میں لیے بغیر ایک ایسے بیورو کریٹ کو اِرسا کا چیئرمین مقرر کرنا‘ جو سندھ کے موقف کی اعلانیہ مخالفت کر چکا ہو اور پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کی طرف سے اختلافِ رائے کو غیر موثر بنانے کیلئے اِرسا کے سٹرکچر کو تبدیل کرنا اس بداعتمادی کی بنیاد ہے۔ چھ نئی نہروں کی تعمیر پر بھی صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس سے بداعتمادی میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس لیے اگر سیاسی جماعتیں اس بحث سے ذاتی فائدہ اٹھاتی ہیں تو وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔بشکریہ دنیا۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button