دانش کدہ کے ایک مکیں سے ملاقات
(طارق امین)
حیدر علی آتش کا شعر ہے:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
جس دن آٹھ فروری 2024ء سے پاکستان میں جنرل الیکشن ہوئے اسکے اگلے ہی روز کہ ابھی ووٹرز کے انگوٹھوں پر لگی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی فارم 45 اور فارم 47 کے رولوں نے ان الیکشنوں کے چہروں پر ایسی کالک مل دی کہ وہ دن اور آجکا دن مجھ جیسے بیسیوں طالبعلم جو پاکستان کے کلچر اور اسکی سیاست کو سمجھنے کے مراحل سے ابھی گزر رہے ہیں، اس سوچ میں پڑ گئے کہ یہ حقیقت تو اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں وہ کونسا الیکشن ہے جو انجئنرڈ نہیں تھا، چاہے ایوب دور کے وہ الیکشنز ہوں جب مادر ملت فاطمہ جناح کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا گیا یا 2018ء کے وہ الیکشن جن میں آر ٹی ایس کا بھٹہ بٹھا کر عمران خان کی حکومت قائم کرنے کی راہ ہموار کی گئی لیکن کیا 2024ء میں فارم 45 اور فارم 47 والے ٹول کا استعمال اس ملک میں پہلی بار ہوا، یہ وہ سوال ہے جو ہمارے اس کالم کا موضوع ہو گا۔ خاکسار کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ جب بھی وہ کسی موضوع پر قلم آرائی کرے تو اس سباق وہ ٹھوس شواہد کے بغیر بات نہ کرے جس کیلئے راقم کو خاصا ریسرچ ورک کرنا پڑتا ہے لیکن اس کالم کے لکھنے کیلئے اللہ نے میری غیبی مدد کی۔ پچھلے ہفتے سابق چیرمین سینٹ سید نیر بخاری صاحب کی زوجہ محترمہ کا انتقال ہوا۔ پْرسہ کیلئے حاضری دینا تو ویسے بھی ہمارے کلچر کا طرہ امتیاز ہے اوپر سے بْخاری صاحب کی شخصیت اور انکے پیار کا حسین امتزاج کہ اپنے تو اپنے، غیروں کو بھی اپنائیت کی چادر میں سمیٹ لیتے ہیں چنانچہ انکی محبت میں یہ خاکسار سابق وزراء تسنیم قریشی اور امتیاز صفدر وڑائچ کے ساتھ بْخاری صاحب کے دولت کدہ پر تعزیت کیلئے حاضر ہوا۔ بخاری صاحب کے ہاں تعزیت کرنے والوں کا تانتا اسطرح بندھا تھا کہ لگ رہا تھا جیسے یہاں کسی صاحب کرامت کا عرس ہو اور زائرین حاضری دے رہے ہوں۔ خدا کی قدرت وہیں پر قانون کے علم میں مانی جانے والی ایک اتھارٹی چوہدری اعتزاز احسن بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ اْٹھ کر جانے لگے تو قریشی صاحب، امتیاز وڑائچ اور خاکسار سے بولے کہ یہاں سے فارغ ہو کر دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھاؤ۔ میری اس سے پہلے اعتزاز صاحب کے ساتھ پہلے کوئی براہ راست نشست نہیں ہوئی لیکن اپنے دوست فرخ سہیل گوئندی کی زبانی موصوف کی دلچسپ گفتگو اور دانش کے بیشمار قصے سن چکا تھا۔ اعتزاز صاحب کے ہاں پہنچے تو جس شفقت کے ساتھ انھوں نے ہمارا استقبال کیا وہ بتا رہا تھا کہ کس اعلی پائے کے خاندانی ظرف کے وہ آمین ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ دانش کدہ کے مکینوں کا اپنا ایک الگ ہی ویژن اور معاملات کو دیکھنے کیلئے ایک الگ ہی آنکھ ہوتی ہے۔ ملاقات کے آغاز پر ہی قریشی صاحب نے اعتزاز صاحب سے سوال کر ڈالا کہ اس وقت حکومت اور پی ٹی آئی میں جو مذاکرت چل رہے ہیں بظاہر تو شروع میں اس سباق اگر گرمجوشی کا لفظ استعمال نہ کیا جائے تو اس حد تک تو ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ انکا آغاز کافی اْمید افزاء لگ رہا تھا لیکن اب کیا وجہ بنی کہ ان مذاکرات میں تاخیری حربوں کی جھلک نظر آنی شروع ہو گئی ہے جس پر اعتزاز صاحب بولے کہ آپ لوگوں کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ پہلے یہ قانونی قدغن موجود تھی کہ کسی بھی الیکشن کا دستاویزی ریکارڈ پانچ سال کی مدت کیلئے محفوظ رکھا جائیگا لیکن اب یہ مدت پانچ سال سے کم کر کے ایک سال کر دی گئی ہے جو کہ اب اس سال اگلے مہینے نو فروری کو پوری ہو جائیگی لہٰذا اسکے بعد ووٹوں کے تھیلوں کی حیثیت بمعہ فارم 45 کے، قانون کی نظر میں ردی سے زیادہ کچھ نہیں ہو گی۔ بس خیال رہے یہی ایک وجہ ہے کہ حکومت ہر طور یہ کوشش کرے گی کہ جیسے تیسے ممکن ہو حکومت اپنی رٹ قائم رکھتے ہوئے یہ سنگ میل حاصل کر لے جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کو بھی یہ پتہ چل چکا ہے کہ اس ایشو پر ہم اب کسی بھی عدالتی فورم سے کسی قسم کے ریلیف کے حصول سے کوسوں دور ہو چکے لہٰذا انھوں نے بھی فارم 47 سے متعلق اپنے موقف سے، جسکا وہ شور مچا رہے تھے، پیچھے ہٹ کرحکومت سے مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔
آداب محفل کو ملحوظ خاطر رکھتے خاکسار کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ اعتزاز چوہدری جیسے لیجنڈ سے جو قانون کے علم میں ایک اتھارٹی تو جانے جاتے ہیں اوپر سے ادب کی دنیا میں بھی ان کی تصانیف ایک الگ مقام رکھتی ہیں، کوئی ڈائریکٹ سوال کرے لیکن استاد نے ایک سبق اور بھی دیا ہوا ہے کہ علم کی پیاس بھی ایسے ہی لوگوں کی گفتگو سے مٹتی ہے لہذا ہمت کر کے انکی اجازت سے اس خاکسار نے چوہدری صاحب سے عرض کی کہ آج عمران خان جس مقام پر کھڑا ہے آپ اپنی دانست میں اس سباق اسکی کس غلطی کو اسکا سب سے بڑا موجب گردانتے ہیں اور پھر آٹھ فروری سے وہ جس انجینئرڈ الیکشن کی تھیوری کو لیکر چلا، کیا اسے اسکا علم نہیں تھا کہ 2013ء میں جب اس نے چار حلقوں کو اوپن کرنے اور 35 پنکچروں کا شور مچایا تھا تو اسے اس وقت بھی اتنا شور غْل اور دھرنے کے باوجود کامیابی نہیں ملی تھی تو اب یہ کیسے ممکن ہو گا کہ اسکے مطالبے پر پورا الیکشن ہی کھول دیا جائے۔ عمران کی غلطیوں پر اعتزاز صاحب نے اپنے تجزیہ میں ایسے بارک اور نازک نقاط کی نشاندہی کی جن کو ضبط تحریر میں لانے کیلیئے پورے ایک علیحدہ کالم کی ضرورت ہو گی لیکن انھوں نے عمران خان کے اس الیکشن میں انجینرنگ کے دعویٰ پر جو کہا اس کیلئے مجھے منو بھائی کا وہ شعر یاد آگیا ‘‘ کْج ہون لئی کْج کرنا پیندا اے’’ ورنہ ایسے دعوؤں کی حقیقت اوپر بیان کردہ شعر سے زایادہ نہیں ہوتی۔ اسکے ساتھ ہی انھوں نے اس خاکسار کو اپنا ایک سٹڈی پیپر Robbing an election دیا جسکا ایک ایک لفظ صرف بتاتا ہی نہیں بلکہ ثابت کرتا ہے کہ الیکشن کس طرح انجینرڈ ہوتے ہیں جس پر انشاء اللہ اگلے کالم میں بات ہو گی۔