دفاع پاکستان

پنجاب رجمنٹ کا ہیروـ حوالدار تیمورحسن بٹ شہید

(عبدالستاراعوان)

حوالدار تیمورحسن بٹ پاک دھرتی کے عظیم بیٹے تھے۔انہوںنے  22اپریل 2022ء کو شمالی وزیرستان میں دہشت گردوںکے خلاف ایک معرکے میں بڑی بے جگری کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔حوالدار تیمور حسن کاتعلق ضلع جہلم سے تھا۔ان کے والد گرامی کانام محمد رفیق بٹ ہے۔ تیمورحسن بٹ 31مارچ 1992ء کو پیداہوئے۔میٹرک کاامتحان گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول جہلم اور انٹرمیڈیٹ کاامتحان گورنمنٹ گریجویٹ کالج جہلم سے پاس کیا۔بے پناہ جذبہ حب الوطنی ان کو فوج میں لے آیااور 5 اپریل2010ء میں پاک فوج میں شامل ہوگئے۔مردان ٹریننگ سنٹر سے فوجی تربیت حاصل کی اور55 پنجاب رجمنٹ کا حصہ بن گئے۔ان کی یونٹ کو ان کی بہادری اور فرض کے ساتھ لگن پر ہمیشہ ناز رہا۔ تیمور حسن نے13سالہ فوجی زندگی میں سیاچن،گجرات،کوئٹہ،پشاور،وزیرستان اورراولپنڈی میں خدمات انجام دیں۔تیمور حسن کبڈی،ریس،فٹ بال اور نشانہ بازی میں خوب مہارت رکھتے تھے۔ فٹ بال میں نمایاں کارکردگی پرانہیں سلور میڈل عطاکیاگیا۔ پاک فوج کی طرف سے بہترین نشانہ بازی پر کیش پرائز بھی دیاگیا۔وہ صوم وصلوٰة کے پابنداورایک اچھے نعت خوان تھے۔ انہوں نے نعت خوانی میں بھی متعددبار انعامات حاصل کیے۔تیمورحسن اپنے بہن بھائیوں اور تمام عزیز واقار ب کے لاڈلے تھے،سبھی ان سے بہت پیار کرتے ۔وہ ہمیشہ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرتے۔اپنی بہنوں کا خاص خیال رکھتے اور ا ن کی ہر ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتے۔سبھی ان سے بہت خوش تھے۔ تیمور حسن شہید کے نانا،دادا اور خاندان کے چنددیگر افراد بھی پاک فوج میں خدما ت انجام دیتے رہے۔جب تیمور حسن کی شہادت ہوئی اس وقت ان کی ایک سال کی بیٹی تھی۔

 شہیدکے بڑے بھائی محمد عمران گل بٹ بتاتے ہیں”بھائی کی شہادت نے مجھے بالکل تنہا کردیاہے۔ایسا لگتا ہے کہ میری ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے،میرا ایک بازو کٹ گیا ہے،وہ میرا سب کچھ تھا۔ میرا چھوٹابھائی،میرا دوست اورمیرا دکھ سکھ کا بہترین ساتھی تھا۔ہم سب اس کے ساتھ بہت پیار کرتے تھے ۔کوئی بھی مشور ہ ہوتا تو وہ مجھ سے ضرور بات کرتا۔وہ فوج میں بھی جانے لگا تواس نے مجھ سے اوروالدین سے اجازت لی۔وہ بہت پیارا بچہ تھا ، ہر کام کرنے سے پہلے وہ بڑوں سے اس کی اجازت ضرور لیتا،وہ ضدی ہرگز نہ تھا ۔میں نے اسے کہا کہ اگرفوج میں جارہے ہوتو پھر بھاگنا نہیں ہے،والدین کی عزت اور لاج رکھنی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فوج کی سختی سے گھبرا کر واپس آجائو۔لیکن اس کی سوچ پختہ تھی۔ اس نے بڑی ہمت اور جرأت کے ساتھ فوج کی نوکر ی کی اورآخرکار شہید ہو کر گھر آیا۔وہ دشمن کے خوف سے اور فوج کی سختی سے دُ م دبا کر نہیں بھاگا ،اس نے 13سال زبردست انداز میں نوکر ی کی۔ حوالدار تک رینک حاصل کیا اور پھر جام شہادت نو ش کرگیا۔جب مجھے اطلاع ملی کہ اسے گولی لگ گئی ہے تواس وقت میں یونان میں تھا۔میں نے یونٹ کے افسر وں کو فون کیاتوانہوں نے بتایا کہ آپ کا بھائی شہید ہو گیاہے۔میں جلد از جلد ٹکٹ لے کر پاکستان روانہ ہوا اور تیمور شہید کا جسدخاکی پہنچنے سے ایک دو گھنٹے پہلے ہی گھر پہنچ گیا۔لوگ کہتے تھے کہ ہم نے آج تک اس علاقے میں اتنا بڑا جنازہ نہیں دیکھا۔میرے شہید بھائی کا اتنا بڑا استقبال دیکھ کر اُ س لمحے میرا سارادکھ جاتا رہا اور میرے دل کو سکون ملا کہ لوگ کس قدر محبت کے ساتھ اپنے ہیرو کا استقبال کر رہے ہیں۔میں سمجھتا ہوںکہ واقعی زندہ قومیں اپنے ہیروز کاایسے ہی استقبال کرتی ہیں۔”

شہید کی بیوہ نے بتایا کہ” ہم سب لوگ اس بہادرجوان کی شہادت پربہت غمزدہ ہیں لیکن اللہ کاشکر بھی ادا کرتے ہیں۔شہید کی دوسال کی معصوم بیٹی ہے، وہ اپنے بابا کی تصویر کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے اور ان سے باتیں کرتی ہے ۔شہیدکے سب اہل خانہ کہتے ہیں کہ وہ ایک اچھے بیٹے،اچھے سپاہی ،اچھے خاوند اور اچھے والد ثابت ہوئے۔شہید اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اورلاڈلے تھے۔ہم سب کو ان کی بہت یاد ستاتی ہے۔ان کا ہنستا ہوا چہرہ کبھی بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا ۔ہم سب ان کے لیے دعا گوہیںکہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی شہادت کا رتبہ قبول فرمائے۔اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو صبر عطا فرمائے”۔

حوالدار تیمور حسن بٹ شہید کے والد محترم محمد رفیق بٹ بتارہے تھے :”جب تیمور فوج میں بھرتی ہواتو اس نے مجھے نہیں بتایا ، کہنے لگا اباجان!آپ مجھے خوشی سے اجازت دے دیںکہ میں فوج میں بھرتی کے لیے درخواست دے دوں۔حالانکہ وہ بھرتی تو ہوچکا تھا اور اب اس نے جوائننگ دینی تھی۔پھر اس نے اپنے بڑے بھائی عمران سے کہا کہ مجھے اجازت دیں۔بھائی نے کہا اگر والدین آپ کوبخوشی اجازت دے دیں تومیری طرف سے بھی اجازت ہے، میں آپ کو نہیں روکوں گا۔جب اس کا اصرار بہت زیادہ بڑھاتومیں نے اسے اجازت دے دی۔وہ بہت خوشی سے چارپائی سے اٹھااور سامنے والی الماری میں اس کی فائل رکھی ہوئی تھی۔اس نے مجھے وہ فائل دکھادی اورکہنے لگا کہ میرا لیٹرآگیا ہے اور میں تو بھرتی بھی ہو چکاہوں۔میں صرف آپ سے اجازت لینا چاہتاتھا۔صبح اس نے جوائننگ دینی تھی۔پھر میں نے اسے چندنصیحتیں کیں اور اسے کہاکہ جائو اب ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں ۔بیٹا! دیکھناملک کی خاطر تمہیںجہاں بھی کھڑا کردیاجائے پھر تم نے پیچھے نہیںہٹنا،پیٹھ نہیںدکھانی اور بہادربن کرڈیوٹی کرنی ہے۔جب وہ پنجاب رجمنٹل سنٹر مردان جارہاتھااور ہم اسے گاڑی میں بٹھانے کے لیے گئے تو والدہ سے کہنے لگا ماں جی !آپ نے گھبرانابالکل نہیں ہے،میں آگے بھی پڑھوں گا۔آپ نے میرے لیے دعا کرنی ہے۔وہ ہمارے ساتھ بہت پیار کرتا تھا۔والدین کی بہت عزت کرتا ۔ جب وہ ٹریننگ کر کے یونٹ میں گیاتو اس کی پہلی پوسٹنگ جلالپور جٹاں میں تھی۔وہ مجھے تقریبا ًروز فون کرتاتھا اورہماری خیریت دریافت کرتا۔جب گھروالے اسے میری شکایت لگاتے کہ آپ کے اباجی ہم سب کوتنگ کرتے ہیں تو وہ کہتا کہ آپ سب لوگ میرے اباجی کا بہت خیال رکھاکریں،وہ اب بہت بوڑھے ہو چکے ہیں،ان کی طبیعت ہی ایسی ہے کہ ان سے پیار کیاکریں۔جب بھی تیمور حسن چھٹی لے کر گھرا رہا ہوتا توسب افراد مجھ سے کہتے کہ اب توآپ” شیر”بن گئے ہو کیونکہ آپ کا بیٹاآرہاہے۔میرا یہ پیارا بیٹا سپاہی سے ترقی کرتے ہوئے جلد حوالدار کے رینک پر فائز ہوگیا۔یہ اس کی اپنے فرض سے لگن کا ثبوت تھا کہ وہ جلد حوالدار بن گیا۔مجھ سے کہا کرتا کہ اباجی آپ کو جب بھی پیسوںکی ضرورت ہو صرف مجھے بتایاکریں۔آج ہمیں اپنے اس پیارے بیٹے کی بہت یادیں ستاتی ہیںلیکن ہمارا بس نہیں چلتا ،ہم بے بس ہیں اور ہم کچھ بھی نہیںکرسکتے۔مجھے اپنے بیٹے کی جدائی کا بہت زیادہ دکھ ہے لیکن میں اس بات پر فخربھی محسوس کرتاہوں کہ میرا بیٹا دشمن کے ڈر سے میدان چھوڑ کر نہیں بھاگااور ڈٹ کر فوج میں رہا اور آخر کار شہادت کوگلے لگا لیا۔شہید کی والدہ محترمہ نے بتایا :”میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاںہیں۔تیمور حسن سب سے چھوٹا تھا۔بڑے بھائی کا بہت زیادہ لاڈلا اور اس کادوست تھا۔وہ مجھے اکثرکہتا تھاکہ اماں جی پریشان نہ ہواکریں،آپ بہت امیرہیںکہ آپ کے تین جوان بیٹے ہیں جوہر وقت آپ کی خدمت کے لیے موجودرہتے ہیں۔وہ بہنوں کے لیے بہت پریشان رہتا اور ان کا خاص خیال رکھتا۔میں اسے کہتی تھی بیٹا تو فوج میںتو چلا گیا ہے لیکن مجھے ڈر بہت لگتا ہے کہ کہیں تجھے کچھ ہو نہ جائے۔وہ کہتا تھا ماں جی !آپ پریشان نہ ہواکرو،دیکھو کہ مجھ سے پہلے بھی تو ہمارے خاندان کے کئی لوگ فوج میں گئے ہیںلیکن کسی کو کچھ نہیںہوا۔مجھے بھی کچھ نہیں ہوگا،کہنے لگا ماں !آپ کے دل میں ویسے ہی فوج کا ”ڈر” بیٹھ گیا ہے لیکن اتنا ڈرنے کی بات نہیں ہے۔زندگی وہی ہے جو اللہ نے لکھ دی ہے ۔موت کہیں بھی آسکتی ہے،گھر میں بستر پر بھی موت آسکتی ہے۔میرے چاند سے بیٹے نے اپنی جان اللہ کے لیے ، اس وطن کے لیے اور اس وطن کے عوام کے لیے پیش کی ہے ۔جب وہ شہیدہوااس کی عمر30برس تھی لیکن وہ دیکھنے میں بہت کم عمر لگتاتھا۔شہادت سے چند دن پہلے اس کا فون آیا تو میں نے کہا بیٹا آج آپ اداس لگ رہے ہو۔کہنے لگا ماں جی میر ایک دوست شہید ہوگیاہے اور میں بہت پریشان ہوں۔یہ سن کر میں سکتے میں آگئی اورمیں بہت زیادہ خوفزدہ ہو گئی۔شہادت سے ایک دن پہلے جمعرات کو اس کی کال آئی کہنے لگا ماں جی کسی چیز کی ضرورت ہوتوبتائیں۔میں نے کہا کہ بس آپ چھٹی لے کر گھر آجائو۔مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔کہنے لگا ماں جی اپنی صحت اور اپنی میڈیسن کاخاص خیال رکھا کریں۔میں سحری کے وقت روزہ رکھنے کے لیے بیدار ہوئی تومیری طبیعت میں بہت اداسی تھی۔میں روز ہ رکھ کر سو گئی اور پھردس بجے اٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھی کہ اسی دوران تیمور حسن کے والد نے اپنا فون بہو کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ فون آرہا ہے ، یہ اٹینڈکرلو۔ہم نے کال اٹینڈکی تو بتایا گیا کہ تیمور کو گولی لگ گئی ہے ۔یہ سنتے ہی ہم سب پر یشان ہوگئے ،محلے کی خواتین آنا شروع ہوگئیں اورقرآن پاک پڑھنے بیٹھ گئیں۔ڈیڑھ دوگھنٹے بعد اطلاع آئی کہ تیمور حسن جام شہادت نوش کرگیاہے۔یہ سنتے ہی پورے گھر اور پورے محلے میں صفِ ماتم بچھ گئی۔اس د ن میں بہت روئی کیونکہ مجھ سے صبر نہیں ہورہاتھا۔جب میرے تیمور حسن کو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کرلایا گیا توہمارے گھر کے ہر طرف لوگوںکا بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہوگیا۔اتنی زیادہ خلقت تھی جس نے تیمور حسن بٹ کی ایمبولینس کو بھی پھولو ں میں نہلا دیا۔لوگ بڑے جذبے کے ساتھ اپنے ہیرو کااستقبال کررہے تھے اور اللہ اکبر کے نعرے لگارہے تھے۔”قارئین! دھرتی کے اس قابل فخر سپوت اورپاک فوج کے اس بہادر جوان نے شمالی وزیرستان میں22اپریل2022ء کو جام شہادت نوش کیا۔شہید کاجنازہ بڑی شان وشوکت سے اٹھا اور ہزاروں محبان وطن نے آپ کوپرتپاک انداز میں الوداع کیا۔شہیدکوجہلم کے جادہ قبرستان میں باباجادہ دربار کے قریب سپرد خاک کیاگیااورپاک فوج کے چاق چوبند دستے نے انہیںپروقار انداز میں سلامی پیش کی۔ ||

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button