دفاع پاکستان

عزم و ہمت کا استعارہ۔میجر احمد خان ٹوانہ شہید

(تحریر:محمد علی اسد بھٹی) پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور دو قومی نظریہ اس کی بنیادی اساس ہے لیکن بھارت قیام پاکستان سے ہی مختلف حیلوں بہانوں اور ریشہ دوانیوں سے پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا اور متعدد بار اس نے پاکستان پر جارحیت کی کوشش کی۔ وطن عزیز پر جب بھی کڑا وقت آیا اور بزدل دشمن نے پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی خلاف ورزی کی تو پاکستانی افواج نے دشمن کی جارحیت کا بھرپور جواب دیا۔ اسی طرح کی ایک سازش کے ذریعے 1999ء میں بھارت نے کارگل کے محاذ پر پاکستان کی سلامتی پر ضرب لگانے کی کوشش کی لیکن پاکستانی فوج کے جوانوں نے جواں مردی سے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس سازش کو  ناکام بنا دیا  اور انفرادی بہادری کے وہ جو ہر دکھائے جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے ۔

  کار گل میں شہادتوں کے گل و گلزار کھلانے والوں میں ایک نام میجر احمد خان ٹوانہ کا بھی ہے۔میجر احمد خان ٹوانہ ضلع خوشاب کے تاریخی شہر ہڈالی کے ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا ملک رب نواز وڈھل ٹوانہ علاقے کی معروف اور قد آور شخصیت تھے۔ وہ پولیس میں ایس ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور بعد میں علاقے کی سماجی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ۔ میجر احمد خان ٹوانہ کے والد مرحوم ملک محمد خان وڈھل ٹوانہ بلدیہ ہڈالی کے چیئرمین رہے اوران کے چچا خدا بخش وڈھل ٹوانہ (سابق ایم پی اے) علاقے کے معروف سیاستدان رہے ۔وہ طویل عرصہ تک بلدیہ ہڈالی کے چیئرمین بھی رہے ۔میجر احمد خان ٹوانہ کے پردادا نواب ملک غلام محمد خان وڈھل ٹوانہ نے پہلی جنگ عظیم میں بھر پور کردار ادا کیا۔ وہ ہندوستان کی فوج کے قابل ترین افسروں میں سے تھے ۔میجر احمد خان ٹوانہ کے خاندان نے دوسری جنگ عظیم میں بھی جرأت اور بہادری کے گہرے نقوش چھوڑے ۔میجر احمد خان ٹوانہ کا تعلق بااثر جاگیردار ، سیاسی اور فوجی خاندان سے تھا ، ان کے خاندان کے بہت سے لوگ اب بھی فوج کے علاوہ دوسرے محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ انہوں نے بچپن کے چند سال اپنے آبائی شہر ہڈالی میں گزارے۔ بعد ازاں ملک کی ممتاز ترین تعلیمی درسگاہ ایچی سن کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ کلاس اول سے لے کر ایف ایس سی تک ایچی سن کالج میں زیرتعلیم رہے ۔ وہ ایچی سن کالج کے ہونہار طالب علم اور کالج کی کرکٹ ٹیم کے بہترین کھلاڑی تھے ۔ انہیں گھڑ سواری میں بھی کمال مہارت حاصل تھی ۔
وہ کالج گھڑ سوار ٹیم کے کپتان بھی رہے اور ایچی سن کالج کی نمائندگی کرتے ہوئے گھڑسواری کے اعلٰی ترین اعزازات حاصل کیے ۔وہ ماہر نیزہ باز بھی تھے اور نیشنل ہارس اینڈ کیٹل شو لاہور میں حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے ان مقابلوں میں بھی اپنی مہارت کے جوہردکھائے ۔1986ء میں ایف ایس سی کرنے کے بعد پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور ترقی کرتے ہوئے میجر کے عہدے پر پہنچے۔میجر احمد خان ٹوانہ ہر دلعزیز اور نہایت ہی ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے۔ وہ لوگوں کے دلوں میں آسانی سے اپنا مقام بنا لیتے تھے۔ عام زندگی کے علاوہ فوجی حلقے میں بھی ان کا مخصوص اور دل پسند انداز تھا ۔میجر احمد خان ٹوانہ بچپن ہی سے خاموش طبع اور نیک سیرت نوجوان تھے۔ وہ دنیا کی رنگینیوں اور ہنگاموں سے عموماً دُور رہتے لیکن دوست احباب میں بیٹھتے تو شمعِ محفل بن جاتے ۔میجر احمد خان چاہتے تو اپنے لیے آسان زندگی کا انتخاب کر سکتے تھے۔ وہ اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ  اور نازونعم میں پلے بڑھے تھے ۔وہ والد محترم کی وفات کے بعد خاندان کے سربراہ بھی بن سکتے تھے لیکن ان کی رگوں میں سپاہیانہ خون شامل تھا اس لیے انہوں نے اپنے لیے سپاہیانہ زندگی پسند کی ۔
  میجر احمد خان کے دل میں ملک و ملت کی خدمت کے علاوہ کوئی جذبہ نہیں تھا۔ اپنے خالق و مالک کے دربار میں سرخرد ہونے کے لیے مجاہدانہ زندگی کے سوااُ نہیں کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہ دیا۔ وہ اس راستے میں کسی بلند مقام پر فائز ہونا چاہتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش یوںپوری کی کہ انہیں شہادت کے بلند ترین مقام سے نوازا ۔میجر احمد خان ٹوانہ اکثر کہا کرتے تھے’ انسان کی جو رات قبر میں لکھی گئی ہے وہ رات قبر سے باہر نہیں آسکتی’ وہ کہتے ‘موت کا ایک د ن معین ہے وہ تو آ ہی جائے گی لیکن ذلت کی ہزار سالہ زندگی سے عزت کا ایک لمحہ ہزار درجے بہتر ہے’۔ وہ اپنے اسلاف کے عظیم کارناموں کا عموماً مطالعہ کرتے ۔حضرت عمر  ، حضرت خالد بن ولید اور ٹیپو سلطان، ٹوانہ شہید کی آئیڈیل شخصیات تھیں ۔ ان کی شادی، برادری میں ہی ہوئی لیکن وہ اولاد جیسی نعمت سے محروم تھے۔1989ء کی ضربِ مومن مشق کے دوران میجر احمد خان ٹوانہ نے ہڈالی شہر سے گزرتے ہوئے اپنی پوری یونٹ کے علاوہ بریگیڈکو ہڈالی ریلوے سٹیشن پریادگار کھانا دیا۔1993ء میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے ساتھ صومالیہ میں خدمات سرانجام دیں وہاں  میجر ٹوانہ کے محلہ دار حوالدار رانا حبیب اللہ( شہید) سے ملا قات ہوئی تو میجر ٹوانہ نے حوالدار حبیب اللہ شہید سے کہا ”گرائیں ویکھیں،پنڈ دی پگ دی لاج رکھیں ” تو حبیب اللہ شہید نے کہا سر میں آپ کا مان رکھوں گا اور حبیب اللہ شہید نے میجر ٹوانہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے صومالیہ میں ہی شہید ہو کر پردیس میں ” اپنے پنڈ کی پگ کی لاج رکھ لی”۔
 جنوری 1998ء میں ان کی پوسٹنگ ناردرن لائٹ انفنٹری (NLI)میں ہوئی اور  اپریل 1999ء میں دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ سیاچن پر تعینات ہوئے، ٹوانہ شہیدسیاچن جانے سے قبل گھر تشریف لائے اور اپنے تمام خاندان رشتے داروں اور دوستوں سے ملاقات کی۔ راقم کاتعلق بھی فوجی زندگی میں میجر احمد خان ٹوانہ سے رہا ہے۔ سیاچین جانے سے پہلے راقم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ بھائی سیاچین جا رہا ہوںجہاں دشمن سامنے ہے ۔ مزہ تو اب آئے گا جب دشمن سے دو دو ہاتھ ہوں گے۔  بس آپ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ثابت قدم رکھے ۔ اگر زندگی نے وفا کی تو اللہ تعالیٰ غازی کا رتبہ دیں گے اور اگر شہید ہو گیا تو مجھ سے بڑا خوش قسمت کون ہوگا؟ اور واقعی ٹوانہ شہید نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا ۔جہاں انتہائی ناموافق موسمی حالات کے باعث حالت جنگ میں پندرہ دن سے زیادہ تعیناتی ممکن نہیں،ٹوانہ شہید نے مسلسل پینتالیس دنوں تک موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دشمن کو نیست ونابود کرنے کا مشن جاری رکھا ۔اتنے طویل عرصے تک داد شجاعت دینے کا یہ دفاعِ وطن کی حفاظت کا عظیم جذبہ ہی تھاجو ٹوانہ شہید نے قوت ایمانی سے ممکن کر دکھایا ۔
  ٹوانہ شہید پوئین (PUIN (کے مقام پر14 جولائی 1999ء کو داد شجاعت دیتے ہوئے دشمن کی متواتر گولہ باری سے شدید زخمی ہو گئے اور پندرہ جولائی کو شہادت کا وہ جام نوش کیا جو قسمت والے کا مقدر ہوتا ہے ۔14 اگست 1999ء کو یوم آزادی کے موقع پر حکومت پاکستان کی جانب سے میجر ٹوانہ شہید کو بے مثل بہادری پر بعد از شہادت تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔
ٹوانہ شہید کی شہادت پر ان کی بیوہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ”کون کہتا ہے کہ میں بیوہ ہوگئی ہوں ‘اللہ کی قسم میں بیوہ نہیں ‘ میں تو سد ا سہاگن ہوں، شہید تو زندہ ہوتے ہیں اور میں ایک شہید کی بیوی ہوں، میرا سہاگ تو قیامت تک سلامت رہے گا۔(بشکریہ ہلال)

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button