مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں!
(مظہر برلاس)
ہم دنیا سے مختلف ہیں، ہمارے پیچھے رہ جانے کی کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو ہمارے ہاں سیاست میں خاندانی اجارہ داریاں ہیں، یہاں ہر حلقہ انتخاب کسی نہ کسی کی جاگیر ہے، ہمارے ہاں غریب آدمی تو تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ سیاست کا حصہ بنے، درمیانے طبقے کے افراد کو سیاست کہاں قبول کرتی ہے۔ ہماری سیاست پر دو وقت ایسے آئے کہ جب غریبوںکیلئےسیاست کے دروازے کھلے، بھٹو صاحب، جاگیرداروں کے ساتھ عام آدمی کو سیاست میں لائے جبکہ عمران خان نے سارے بت توڑ کے رکھ دیئے ۔ ہماری سیاست چونکہ مفادات کے دائرے میں گھومتی ہے، چنانچہ عام آدمی کو قبول کرنے سے قاصر ہے، ہماری سیاست، دولت کی لونڈی ہے، یہاں بڑے جاگیر دار یا سرمایہ دار سیاست کر سکتے ہیں، اسی لئے برس ہا برس سے چند خاندانوں نے کروڑوں پاکستانیوں پر حاکمیت جما رکھی ہے۔ہماری سیاسی پارٹیاں بھی خاندانوں کی بادشاہت میں رہنے کی عادی ہو چکی ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں میںبھی جمہوریت نہیں، دو تین پارٹیوں کے علاوہ کسی جماعت میں جمہوریت نظر نہیں آتی، مجھے یہ سب باتیں اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ سنگا پور کی نو منتخب صدر کی تصویر میرے سامنے ہے، سنگا پور کی نئی صدر حلیمہ یعقوب ایک غریب چوکیدار کی بیٹی ہے، غربت کی کوکھ میں پلنے والی حلیمہ یعقوب کبھی برتن دھونے والی ہوا کرتی تھی۔ میں نے پچھلا کالم سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے حوالے سے لکھا تھا، دو بار بھارت کا وزیر اعظم رہنے والا ڈاکٹر من موہن سنگھ نہ کسی جاگیر دار گھرانے میں پیدا ہوا اور نہ ہی اس کا باپ کوئی بڑا صنعتکار تھا، من موہن سنگھ اپنی صلاحیتوں سے آگے بڑھا اور مختلف عہدوں سے ہوتا ہوا وزیراعظم بن گیا، یہ من موہن سنگھ کی اقتصادی پالیسیاں تھیں کہ س کے دور میں بھارت کی شرح نمو ( گروتھ ریٹ) بلند ترین سطح نو فیصد کو چھونے میں کامیاب ہوئی۔ بی جے پی مخالفت کے باوجود من موہن سنگھ پر کرپشن کا الزام نہ لگا سکی، من موہن سنگھ نے خود کو ہمیشہ عام آدمی سمجھا، من موہن سنگھ تو ایک مثال ہے، بھارت میں اس طرح کی کئی مثالیں ہیں،لال بہادر شاستری بھارت کا وزیر اعظم تھا اور اس کا بیٹا ایک بینک میں معمولی ملازمت کرتا تھا، گلزاری لال نندا بھارت کا ایسا وزیراعظم تھا کہ اس کے پاس ذاتی گھر بھی نہیں تھا مگر دیانتداری کا یہ عالم تھا کہ ایک روز اسے معلوم ہوا کہ ان کے نواسے نے ڈرائنگ کرنے کے لئے ایک سرکاری کاغذ استعمال کیا ہے، وہ ناراض ہوا اور بازار سے ذاتی پیسوں سے کاغذ منگوا کر سرکاری کھاتے میں رکھ دیا اور بچے کے لئے الگ کاغذات منگوائے۔ اٹل بہاری واجپائی ایک سکول ٹیچر کا بیٹا تھا، جب واجپائی نے لاہور میں تقریر کی تو یہ کہا گیا کہ اتنی شاندار تقریر کرنے والا اگر لاہور سے الیکشن لڑے تو با آسانی جیت جائے گا۔ ایچ ڈی دیوے گوڑا، مرار جی ڈیسائی اور آئی کے گجرال بھی جاگیرداروں کے بچے نہیں تھے مگر وزیراعظم بنے۔ معروف سائنسدان عبد الکلام بھارت کے صدر بن کر ایوان صدر میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ دو سوٹ کیس تھے اور جب وہ مدت پوری کرکے ایوان صدر سے نکلے تو وہی دو سوٹ کیس ان کے ساتھ تھے۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر دامودر داس مودی نے اپنے کیریئر کا آغاز چائے بیچنے والے کے طور پر کیا۔ بھارت کے کسی وزیراعظم کی بیرون ملک جائیداد نہیں اور نہ ہی غیر ملکی بینکوں میں دولت کے ڈھیر ہیں، افسوس! ہمارے ہاں ایسا نہیں، ہمارے ہاں خان آیا تو سب مافیاز اس کے خلاف ہو گئے، اسے جیل میں ڈال دیا مگر وہ سمجھوتہ کر کے بھاگے گا نہیں، اس کی یہی بات دلوں میں گھر کر چکی ہے۔ برطانیہ میں مقیم اردو کے شاعر نعمان محمود کا شعر یاد آ گیا ہے کہ
کہانی کو یہی رکھتا ہے سادہ
مگر قصے کو الجھاتا بھی دل ہے۔(بشکریہ۔روزنامہ جنگ)