معاشی ترقی کیلئے وزیر اعظم کا اہم اقدام
(چوہدری سلامت علی)
وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیات سے ملاقات میں جہاں اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے مقامی سرمایہ کاری میں اضافہ ضروری ہے وہیں انہوں نے ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت مختلف شعبہ جات کو درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے خود قائدانہ کردار ادا کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے اس ملاقات میں یہ بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ اگلے ہفتے سے وہ ہر سیکٹر کی نمائندہ قیادت کے ساتھ متعلقہ وفاقی وزیر اور سیکرٹری کی موجودگی میں تفصیلی میٹنگ کرکے درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے طے پانے والے اقدامات پر عملدرآمد کیلئے فیصلہ سازی کا عمل شروع کریں گے۔
یہ امر اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے عملی اقدامات کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات قابل فہم ہے کہ گزشتہ ایک سال کے عرصے میں حکومت کو آئی ایم ایف سے لئے گئے مالیاتی پیکیج کو بحال اور فنانشل ڈسپلن قائم رکھنے کے لئے بہت سے سخت اقدامات کرنے پڑے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف عام آدمی کو معاشی مشکلات کا سامنا رہا بلکہ انڈسٹری کو بھی ٹیکسز میں اضافے اور دیگر مالیاتی سختیوں کے باعث سخت حالات کا سامنا رہا۔ تاہم اس کے باوجود ٹیکسٹائل انڈسٹری نے ہمت نہیں ہاری اور ملک کے لئے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کا حصول یقینی بنانے کے لئے برآمدات میں اضافے کی اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں جہاں برآمدات میں اضافہ ممکن ہوا وہیں پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں بھی مدد ملی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج حکومت بیرونی ادائیگیوں اورزرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے اس پوزیشن میں ہے کہ اسے کسی فوری مالیاتی بحران کا سامنا نہیں ہے بلکہ ملک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے جہاں افراط زر میں کمی آئی ہے وہیں لوگوں کی قوت خرید بھی پہلے سے بہتر ہوئی ہے اور اس وقت پاکستان کی معیشت ایک مرتبہ پھر ٹیک آف کی پوزیشن میں ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وزیر اعظم نے ہر شعبے سے متعلق فیصلہ سازی کے عمل کو تیز کرنے کیلئے بالکل درست وقت پر درست سمت پیش رفت کی ہے۔ وزیر اعظم کے اس اقدام سے ہر شعبے کو اپنے مسائل و تحفظات کو براہ راست وزیر اعظم کے سامنے رکھنے کا موقع ملے گا اور اس پر ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد میں بھی بیورو کریسی کی جانب سے برتی جانے والی روایتی سست روی اور سرخ فیتہ کلچر کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران برآمدات میں اضافے کا سلسلہ دوبارہ تنزلی کی طرف گامزن ہے اور گزشتہ ماہ 26 کروڑ ڈالرز کی کمی سے ٹیکسٹائل برآمدات سات ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئی ہیں۔ اس حوالے سے جاری سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ماہ برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 5.6 فیصد جبکہ گزشتہ سال کے ماہ فروری کے مقابلے میں 17.4 فیصد کمی ہوئی ہے۔
برآمدات میں کمی کے باعث گزشتہ مہینے 2.3 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس طرح رواں مالی سال کے آٹھ ماہ میں تجارتی خسارہ 6.3 فیصد اضافے سے 15.8 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکسٹائل برآمدات میں اضافے کا تسلسل جاری رکھا جا سکے کیونکہ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں سب سے زیادہ شیئر ٹیکسٹائل برآمدات کا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں مارک اپ ریٹ کو سنگل ڈیجٹ پر لانے اور انرجی ٹیرف میں کمی کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے وہیں مقامی اور درآمدی ٹیکسٹائل مصنوعات و خام مال پر عائد ٹیکسز کے فرق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن اسکیم میں ایف بی آر کی طرف سے کی گئی تبدیلیوں سے متعلق ہے۔ اس حوالے سے اگرچہ وزیر اعظم نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے تحفظات دور کرنے کے لئے کمیٹی بنا دی ہے۔ تاہم اس میں ٹیکسٹائل گروپ میں سب سے زیادہ ایکسپورٹ کرنے والے نٹ وئیر سیکٹر کی نمائندہ تنظیم پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے نٹ وئیر سیکٹر میں بے چینی پائی جاتی ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں برآمدی صنعتوں کے لئے مقامی سپلائز پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم ہونے سے ٹیکسٹائل سیکٹر کو درپیش سرمائے کی قلت کا مسئلہ مزید سنگین ہو گیا ہے کیونکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی تقریباً 340 ارب روپے سے زائد کی رقم پہلے ہی حکومت کی طرف مختلف مدوں میں واجب الادا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر حکومت نے سیلز ٹیکس وصول کرنے کے بعد ریفنڈ ہی کرنا ہے تو اسے وصول کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایف بی آر کی طرف سے سیلز ٹیکس کے نفاذ کو ہمیشہ یہ کہہ کر جواز مہیا کیا جاتا ہے کہ سیلز ٹیکس کی چھوٹ سے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نظام میں’’ویلیو چین‘‘ٹوٹ جاتی ہے اور ٹیکس حکام کی نگرانی محدود ہو جاتی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی کیلئے 72 گھنٹوں کے طے شدہ طریقہ کار پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے اور تاحال ٹیکسٹائل سیکٹر کے مالی سال 2024 کے 180 ارب روپے سیلز ٹیکس ریفنڈز میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت برآمدات میں اضافے کا تسلسل جاری رکھنا چاہتی ہے تو اس کے لئے انڈسٹری کو درپیش سرمائے کی قلت فوری ختم کرنے کے لئے ریفنڈز کی بروقت ادائیگی اور ایکسپورٹ فیسیلٹیشن اسکیم کو بہتر بنانے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے طویل المدت پالیسی کی تشکیل ضروری ہے۔