پاکستان

افریقہ کشتی سانحہ کی مزیدلرزہ خیزتفصیلات سامنے آگئیں

کشتی کوحادثہ پیش نہیں آیا۔ایجنٹوں نے لوگوں کوقتل کیا۔13دن موت کاخوفناک کھیل جاری رہا

افریقہ سے سپین جانے والی کشتی کوپیش آنے والے سانحہ کی مزیدلرزہ خیزتفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ گجرات کے ایک گاؤں ڈھولہ سے تعلق رکھنے والے چوہدری احسن گورسی نے میڈیاکوبتایاہے کہ
اس کی دو بہنوں کے بیٹے عاطف شہزاد اور سفیان جاوید عرف عاقب مغربی افریقہ سے سپین جانے والی تارکین وطن کی کشتی میں جان کی بازی ہار گئے ہیں۔
سفیان جاوید عرف عاقب بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے۔ انہیں میں نے پالا تھا اور اب وہ محض 22 برس کی عمر میں اپنے دو بچوں کو یتیم چھوڑ گئے ہیں۔بتایاگیاکہ افریقہ کے ایجنٹوں نے 65 لوگوں کو کشتی پر بٹھایا اور سمندر کے بیچ لے جا کر ایک ایک کرکے مارنا شروع کر دیا۔ اسلحے سے لیس افراد نے پہلے سب کے ہاتھ پاؤں باندھے، پھر صحت مند جسامت کا جو بھی شخص دکھائی دیتا، وہ اسے مارنا شروع کر دیتے۔ سر میں ہتھوڑے مارتے، آنکھیں نکالتے اور مر جانے پر سمندر میں پھینک دیتے۔ بیچ سمندر موت کا یہ کھیل 13 دن تک جاری رہا اور اس عرصے میں 50 لوگ قتل کر دیے گئے۔ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ کشتی ڈوبی ہے، وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔’واضح رہے کہ مغربی افریقہ سے سپین جانے والی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 44 پاکستانی ہیں۔ تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’واکنگ بارڈر‘ کی سی ای وا ہیلینا مالینو نے ایکس پر لکھا کہ ’کشتی میں سوار افراد نے 13 دن سمندر میں بڑی مشکل میں گزارے اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا۔‘
دوسری جانب بتایاجارہاہے کہ سپین میں پاکستانی سفارت خانے نے کہا کہ کشتی حادثہ کے معاملے کو مراکش میں پاکستانی سفارت خانہ دیکھ رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں 12 سے 15 افراد کا تعلق گجرات کی تحصیل کھاریاں کے دیہات جوڑا، گھرکو اور ڈھولہ سے ہے۔
احسن گورسی نے بتایا کہ ’دونوں خالہ زاد بھائی کچھ عرصہ قبل یورپ جانے کے لیے روانہ ہوئے تھے، جب وہ افریقہ پہنچے تو ان کے ایجنٹ کی نیت خراب ہوئی، ایجنٹ نے ان سے پیسے لے کر 15 دیگر افراد کے ساتھ منصوبہ بندی کر کے بیچ سمندر ان کو قتل کیا۔‘‘کشتی میں سوار صرف 22 افراد بچ سکے جن میں سے دو ہسپتال زیرعلاج ہیں جبکہ 14 لاشیں مراکش کے ہسپتال میں موجود ہیں۔
چوہدری احسن گورسی نے بچ جانے والے گجرات کے ایک نوجوان علی کی پاکستان میں موجود ان کے ایک بھانجے سے ہونے والی گفتگو کی ایک آڈیو بھی شیئر کی جس میں علی مارے جانے اور بچ جانے والوں کی تفصیل بتا رہے ہیں۔
انتہائی تکلیف دہ اس ویڈیو میں علی نے بتایا ہے کہ ’انہوں نے ہتھوڑوں سے مارا۔ چار بندے پکڑتے اور ایک مارتا تھا۔ زیادہ تر لوگ بے ہوش تھے اور جو لڑ سکتے تھے وہ لڑے بھی۔ جب یقین ہو گیا کہ نہیں چھوڑیں گے تو ان منتیں اور ترلے بھی کیے، مزید پیسوں کی پیشکش بھی کی لیکن وہ کسی کی نہیں سننے والے تھے۔‘
اس آڈیو میں علی نے بتایا کہ ‘عاقب کے آخری الفاظ یہ تھے کہ ہم نے بچنا نہیں ہے۔ اگر تم میں سے کوئی بچ جائے اور پاکستان جائے تو میرے بچوں کے سر پر پیار کرے۔ انہیں بتانا کہ تمہارے باپ کی قبر نہیں ہے کیونکہ اسے سمندر میں پھینک دیا گیا تھا، بس اس کے لیے ویسے ہی دعا کر دیا کرنا۔‘
اس آڈیو کے مطابق عاقب کی میت مراکش کے ہسپتال میں موجود ہے جبکہ دوسرے خالہ زاد بھائی عاطف شہزاد کی نعش کو سمندر میں پھینک دیا گیا تھا۔
اس خوفناک سانحہ کی مزید تفصیلات آئے روزسامنے آرہی ہیں جس نے عالمی ضمیرکوبھی جھنجھوڑکررکھ دیاہے۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button