پاکستان پر امریکی پابندیاں اورامریکہ روس تعلقات
(غلام حیدر شیخ)
حال ہی میں روس کے ڈپٹی وزیر دفاع سر گئی ریبکووف نے امریکہ کو خبر دار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکہ ممکنہ جوہری تجربہ کرنے سے باز رہے ،اگر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ممکنہ جوہری ٹیسٹ کئے گئے تو روس بھی جوابی کاروائی میں متعدد اقدامات کرے گا ، روسی وزیر دفاع نے باور کرایا کہ دنیا اس وقت مشکل صورتحال سے گزر رہی ہے مختلف حوالوں سے امریکہ کی روس کے لئے انتہائی مخالفانہ اور دشمنی پر مبنی پالیسی ہے ، رواں سال ہی ستمبر میں روسی وزیر خارجہ نے امریکہ کو ریڈ لائنز کا مذاق نہ بنانے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھاکہ’’ میں امریکہ کے کسی بھی اقدام سے حیران نہیں ہوں گا، کیونکہ امریکہ پہلے ہی ان حدود کو عبور کر چکا ہے جو خود انہوں نے مقرر کیں تھیں ، روس کو اکسانے کا عمل جاری ہے جس کی وجہ سے یوکرینی صدر زیلنسکی یہ دیکھتے ہوئے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
2022 ء میں روس کے صدر ولادیمیرپوٹن نے یوکرین میں اپنے خاص فوجی آپریشن شروع کرنے کے بعد متعدد دفعہ مغرب کو تنبیہ کی تھی کہ روس کو ناکام بنانے کی کو ششیں نہ کی جائیں ، روسی صدر نے واضح کیا تھا کہ روس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے ، امریکی صدر کی جانب سے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کے استعمال کی اجازت دینا روس سے براہ راست جنگ میں شریک ہونے کے مترادف قرار دیتے ہوئے، نومبر 2024 ء میں روسی ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان میںکہا تھا کہ امریکہ کی میزائل پالیسی میں تبدیلی صرف جنگ کو طول دینے کے لئے ہے۔
نومبر 2024 ء میں ہی روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں تبدیلیوں کے قوائد وضوابط طے کرتے ہوئے منظوری دی، جس کے تحت روس اپنے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ کرے گا ، جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں ترمیم ستمبر میں تجویز کی گئی تھی، روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ روسی سرزمین کے اندر کسی بھی قسم کا حملہ امریکہ اور اس کی حواری ریاستوں کی رو س کے خلاف براہ راست جنگ میں شمولیت تصور کی جائے گی ۔
روس کے اس اقدام کے پیش نظر اور یوکرین کے ساتھ جاری جنگ کو حتمی طور پر بڑھانے کی روسی دھمکی کے باعث گذشتہ ماہ امریکہ نے نصب شدہ ایٹم بم سے لیس B-52 جنگی طیارے جرمنی کے ایئر بیس پرپہنچا دیئے ہیں ، سویڈن، فن لینڈ اور جرمنی نے اپنے شہریوں کو محفوظ بنانے کے لئے مخصوص سیکورٹی پلان بھی جاری کیا ہے ، اس بات کا انکشاف امریکی سابق جرنیلوں کی ایسوسی ایشن نے اپنی ٹویٹ میں کیا ہے ، ’’ یو ایس سول ڈیفنس نیوز ‘‘ کے عنوان سے خبر دار کیا گیا کہ چونکہ نیٹو کے روس پر حملے کے جواب میں روس نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی ہے ، لہذا امریکہ نے B-52 بمبار طیارے فن لینڈ کے قریب روس کی سرحد کے نزدیک پہنچا دیئے ہیں ، شام کی حکومت کے خاتمے اور روس کے مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ کو کم کرنے اور روس کی ممکنہ جوابی کاروائی کے پیشہ نظر امریکہ کے جوہری ہتھیاروں کو جرمنی منتقلی تو ایک منطق ہو سکتی تھی لیکن امریکہ کے سابق جرنیلوں کی روس پر براہ راست حملے کو ٹویٹ کے ذریعے عیاں کرنا بھی ایک شاطرانہ چال ہو سکتی ہے ۔
سردست امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل نے ایک مذموم منصوبہ بندی کے تحت غزہ فلسطین ،اور لبنان میں جو تباہی پھیلائی ہے اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ، شام کی حکومت کے خاتمے پر اسرائیلی فوج کا شام کے سرحدی علاقے قنیطرہ میں گھس جانا اور پھر بلا کسی وجہ کے شام کی فوجی تنصیبات کو تباہ کرکے شام کی دفاعی صلاحیت کو ختم کرنا ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے دفاع کے علاوہ اپنے مفادات کی تکمیل کر رہا ہے ،شام کے خطرے سے آزاد ہو کر امریکہ پوری یکسوئی سے ایران کی طرف بڑھے گا ، اگر شام کی دفاعی صلاحیت روس کی مدد سے بر قرار رہتی تو اسرائیل اور امریکہ کے لئے ایران پر حملہ مہنگا پڑتا ، مشر ق وسطیٰ میں روس کے اتحادی ممالک کو نشانہ بنانے کے بعد روس کا اس خطے میں اثررسوخ نا ہونے کے برابر رہ گیا ہے ، اس خالی میدان کو دیکھتے ہوئے امریکہ اس خطے کو اپنے زیر کنٹرول لانے میں بے تاب ہے ، اس کا مفاد گریٹر اسرائیل کی تکمیل ہے جس کی وجہ سے وہ مسلمان ریاستوں کو زمین کا کیڑا سمجھ کر کچلنے کے لئے تیار ہے ۔
گذشتہ سال کے وسط میں امریکی دارالحکومت میں نیٹو سربراہاں کی جانب سے ایک اعلامیہ میں چین پر یوکرین جنگ میں روس کی مدد کا الزام لگاتے ہوئے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ بیجنگ امریکہ اور یورپ کی سیکورٹی کے لئے چیلنج پیدا کر رہا ہے ،اعلامیہ میں چین کو متنبہ کیا کہ وہ روس کو ہر قسم کی سیاسی اور دفاعی امداد بند کر ے، امریکہ اور یورپ کی دوغلی پالیسی دیکھئے کہ یہ تمام ممالک یوکرین کے لئے مالی ، سیاسی اور دفاعی امداد کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور چین کو روس کی مدد سے باز رکھنا چاہتے ہیں ۔
امریکہ کے عالمی سطح پر جارحانہ عزائم ایک سلسلہ وار منصوبے کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں ، ایران خطے میں روس کا واحد طاقتور حلیف ہے ، امریکہ کو روس کی جانب سے خدشہ ہے کہ وہ ایران کی مدد کرے گا اور امریکہ کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ، اور اسی تناظر میں امریکہ پاکستان کی جو ہری طاقت کو پس پشت نہیں ڈال سکتا لہذا سلسلے وار کڑی یہی ہے کہ پاکستان کی جوہری طاقت کو ہر صورت ختم کیا جا ئے جس کے لئے امریکہ نے پاکستان کے بلیسٹک میزائل پروگرام میں مدد فراہم کرنے والی چار کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی ہے ، جس میں اس پروگرام کا نگران سرکاری دفاعی ادارہ بھی شامل ہے ۔
پاکستان اس وقت ایک انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے ، ملک کے کشیدہ سیاسی ماحول نے امن و امان کے مسئلے کو قانون نافظ کرنے والے اداروں کے لئے ایک مشکل چیلنج بنا دیا ہے ، ملک میں افواج پاکستان کے نوجوان اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر عوام کو محفوظ کر رہے ہیں لیکن اس کا ادراک شر پسند عناصر نہیں کر پا رہے اور شر پسندی کو احتجاج کی صورت میں اپنا حق سمجھتے ہیں ،روس اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور پاکستان پر امریکی پابندیوں کے پس منظر میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں توازن بر قرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے ، پاکستان کو علاقائی اور عالمی سطح پر محتاط رہتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہو گا .