کالم

مذاکرات یا چھپن چھپائی کا کھیل؟

(میاں حبیب)

بظاہر یہ معاملہ حکومت اور اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے درمیان ہے لیکن اس کے کئی ایک فریق ہیں اور بظاہر جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ وہی کچھ ہے جسے دکھانا مقصود ہے ورنہ معاملات تو کئی سمت پر چل رہے ہیں۔ بظاہر ہونے والے مذاکرات تعطل کا شکار ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا چوتھا دور ہونا تھا جو نہ ہو سکا۔ تحریک انصاف نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے اعلان سے مذاکرات کو مشروط کر دیا تھا اور سپیکر قومی اسمبلی کو آگاہ کر دیا تھا کہ وہ مذاکراتی اجلاس میں اس وقت تک شریک نہیں ہوں گے جب تک جوڈیشل کمیشن تشکیل نہیں دیا جاتا۔ تحریک انصاف کے دو ٹوک اعلان کے باوجود سپیکر قومی اسمبلی نے مذاکرات کے لیے اجلاس بلوایا اور حکومت کی مذاکراتی ٹیم تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کا انتظار کرتی رہی، تحریک انصاف نہ آئی۔ قبل ازیں سینٹر عرفان صدیقی یہ کہہ چکے تھے کہ اگر تحریک انصاف مذاکراتی اجلاس میں نہ آئی تو مذاکرات ختم کیے جا سکتے ہیں اور حکومت کی مذاکراتی ٹیم تحلیل کر دی جائے گی لیکن سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے مذاکرات بحال رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہم انتظار کریں گے۔
گزشتہ روز کا اجلاس پون گھنٹہ انتظار کے بعد ختم کر دیا گیا تاہم اسد قیصر سے ٹیلیفونک گفتگو ہوئی اور انھوں نے بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کرنے کا کہا ہے۔ نائب وزیراعظم اِسحاق ڈار نے کہا کہ تحریک انصاف والے اجلاس میں آتے تو ہمارے پاس ان کے اطمینان کے لیے تحریری جواب موجود تھا ہم اس کا اعلان نہیں کر سکتے ہم مذاکراتی ٹیم کے سامنے ہی اسے اوپن کریں گے۔ مقصد ان کا یہ ہے کہ کسی طرح تحریک انصاف کو دوبارہ مذاکرات کی ٹیبل پر لایا جائے اگر مذاکرات کے پراسس کا جائزہ لیا جائے تو مذاکرات کے آغاز سے قبل تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات پر زیادہ زور دیا جا رہا تھا اور حکومت احسان کر رہی تھی۔ روز نئی قسم کی توجیہات سامنے رکھی جاتی تھیں بالآخر مذاکرات شروع ہوئے تو انھیں طول دینے کی کوشش کی گئی اور مذاکرات چھپن چھپائی کا کھیل بن گیا۔ کبھی حکومت کی جانب سے اور کبھی اپوزیشن کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔ ایک بار تو تحریری مطالبات کے نام پر مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے۔ جب بانی پی ٹی آئی نے اجازت دے دی تو پھر کہا جانے لگا ہم اس کا جواب بھی تحریری دیں گے۔ پندرہ دنوں تک مذاکراتی ٹیم کو بانی سے نہ ملنے دیا گیا، ایسے معلوم ہوتا تھا کہ زبردستی بازو مروڑ کر مذاکرات کروائے جا رہے ہیں۔ فریقین کا کاروبار سیاست ہی ایک دوسرے سے دشمنی ظاہر کرکے چلتا ہے۔ دونوں ان چکروں میں تھے کہ کہیں مذاکرات کے پراسس میں ان کی سیاست ڈمیج نہ ہو جائے البتہ اب تک دونوں فریقین نے مذاکرات سے اپنے اپنے مقاصد حاصل کیے ہیں۔
26 نومبر کے بعد تحریک انصاف پر ریاست کا بہت زیادہ دباؤ آ چکا تھا، ان کے سارے راستے بند کر دئیے گئے تھے۔ ان کے احتجاج کو کچل دیا گیا تھا اور ان کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر بات کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ تحریک انصاف کے ورکرز میں یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا تھا کہ اب ریاست ان کی دال نہیں گلنے دے گی اس لیے ان کے پاس مذاکرات کے سوا کوئی حل نہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے بھی مذاکرات کا ڈول ڈالنا ضروری ہو چکا تھا۔ دوسری جانب حکومت بھی آئے روز کے احتجاج سے تنگ آ چکی تھی وہ تحریک انصاف کو انگیج رکھ کر سکھ کا سانس لینا چاہتی تھی۔ مذاکرات کے پراسس سے ایک تو یہ تاثر گیا کہ تحریک انصاف نے حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔ دوسرا حکومت کو سکھ کا سانس لینے کا موقع مل گیا۔ اب حکومت کو جو سکون ملا ہے ان کی کوشش ہے کہ تحریک انصاف کو زیادہ سے زیادہ عرصہ تک مذاکرات کے لالی پاپ میں الجھا کر رکھا جائے۔ حکومت جس جوڈیشل کمیشن پر دو ٹوک موقف کے ساتھ کھڑی ہے کہ چونکہ 9مئی کے واقعات پر عدالتی کارروائی ہو رہی ہے اس لیے کمشن نہیں بن سکتا اگر راستہ نکالنا مقصود ہوا تو اس کے ٹی او آر میں عدالتی پراسس چلتا رہنے پر اتفاق کر لیا جائے گا اور باقی کے معاملات پر حقائق جاننے کے لیے کمشن بن جائے گا۔ اب مذاکرات جاری رکھنے کی بڑی خواہش حکومت کی جانب سے ہے جبکہ تحریک انصاف بدلتے ہوئے حالات سے فائدہ اٹھا کر احتجاج کی طرف جانا چاہتی ہے کیونکہ اس وقت عالمی سطح پر تحریک انصاف رائے عامہ کو اپنے حق میں کر چکی ہے۔ امریکہ میں تبدیلی آ چکی ہے اور ٹرمپ انتطامیہ تحریک انصاف کے لیے اچھے جذبات رکھتی ہے اس لیے تحریک انصاف کا خیال ہے کہ اگر اب احتجاج کیا تو ریاست اس طرح کا سلوک نہیں کرے گی جس طرح کا سلوک ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ اب تحریک انصاف کے لیے احتجاجی تحریک چلانے کے لیے اچھا ماحول بن رہا ہے جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کو احتجاج میں جانے سے ہر ممکن طور پر روکا جائے۔ خبر یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف رجیم چینج کے سرخیل ڈونلڈ لو ریٹائر ہو گئے ہیں اور چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان بھی اپنی مدت پوری کر چکے ہیں۔ تحریک انصاف والوں کا خیال ہے کہ ان کی بیڑیوں میں وٹے ڈالنے والے یہی دو بندے ہیں۔ راجہ سکندر سلطان نے تحریک انصاف سے اس کا نشان چھینا، اس کو آزادانہ الیکشن نہ لڑنے دیا، فارم 45اور 47 کی اصطلاح بھی ان ہی کی مرہون منت ہے اور مخصوص نشستوں کے راستے میں بھی مبینہ طور پر وہی رکاوٹ تھے۔ نئے چیف الیکشن کمشن کے آنے سے انکے معاملات میں بہتری آ سکتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری حکومت اور اپوزیشن کی مرضی کے ساتھ باہمی اتفاق رائے سے ہونی ہے۔ ہر ایک کی کوشش ہو گی کہ ان کا خیر خواہ چیف الیکشن کمشنر بنے۔ اگر دونوں میں اتفاق رائے نہ ہوا تو نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہ ہو سکے گا لہذا مذاکرات کے چلتے رہنے سے یہ معاملہ بھی حل ہو سکتا ہے ورنہ اس پر بھی ڈیڈ لاک پیدا ہو جائے گا۔
٭…٭…٭

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button